Quantcast
Channel: جیو اردو
Viewing all 6004 articles
Browse latest View live

دارِ ارقم سکول میں رزلٹ کے موقع پر فن فئیر کا انعقاد

$
0
0
School

School

مصطفی آباد/للیانی (نامہ نگار) دارِ ارقم سکول میں رزلٹ کے موقع پر فن فئیر کا انعقاد، بچوں کے تفریح کیلئے میجک شو ،جدید جھولوں کا اہتمام، بچوں اور والدین کی بڑی تعداد کی شرکت، منفرد پروگرام کرنے پر پرنسپل کو مبارکباد، تفصیلات کے مطابق دارِ ارقم سکول مصطفی آباد میں میں رزلٹ کے موقع پر بچوں کیلئے فن فئیر کا باقاعدہ انعقاد کیا گیا۔

بچوں اور انکے والدین کی تفریح کیلئے کھانے پینے کے سٹالز کے علاوہ بچوں کیلئے جدید جھولوں او میجک شو کا اہتمام بھی کیا گیا،اس موقع پرپروگرام میں شریک والدین کی بڑی تعداد نے ڈائریکٹر دارِ ارقم سکول و ٹکٹ ہولڈر جماعت اسلامی حلقہ پی پی 175شیخ محمد خرم امین کو مصطفی آباد میں سب سے منفرد پروگرام کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی اور انکی اس کاوش کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ دارِ ارقم کی انتظامیہ ہمارے بچوں کے مستقبل کو بہتر بنانے کیلئے اپنی خدمات کو بہتر سے مزید بہتر کرنے کیلئے کوشاں رہے گی۔

مصطفی آباد میں بچوں کی تفریح کے لئے کوئی پارک نہیں ایسے میں دارِ ارقم سکول نے ایک اچھا قدم اٹھایا ہے ہم امید کرتے ہیں کہ ایسے پروگراموں کا سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہنا چاہئے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محمد عمران سلفی صدر پریس کلب مصطفی آباد للیانی رجسٹرڈ
0300-0334-7575126

The post دارِ ارقم سکول میں رزلٹ کے موقع پر فن فئیر کا انعقاد appeared first on جیو اردو.


نام نہاد عزت دار پیشہ ناجائز گردہ فروشی

$
0
0
Kidney

Kidney

تحریر: عبدالرؤف خاں
فہد حجاب نام کا ایک سعودی شخص سعودی ائیرلائین کی ایک پرواز سے لاہور ائیرپورٹ پر لینڈ کرتا ہے۔ فہد وہیل چئیر پر اُترتا ہے تو اُسے چند پاکستانی ائیرپورٹ پر خوش آمدید کہتے ہیں اور باہر ایک ایمبولینس کھڑی ہوتی ہے جس میں اُسیلٹا کر ایک نامعلوم منزل کی طرف لے جانا شروع کردیا جاتا ہے۔ ایمبولینس لاہور کے ایک بڑے ہوٹل کی پارکنگ میں رُکتی ہے جہاں فہد کا کمرہ بُک ہوتا ہے۔ پاکستانی باشندوں میں ایک عربی بولنے والا مترجم بھی ہوتا ہے جو فہد کے ساتھ ہی ہوٹل کے ایک الگ کمرے میں رہائش اختیار کرلیتا ہے۔

پاکستان کی خفیہ ایجنسیز جب فہد حجاب کو ائیرپورٹ سے وہیل چئیر پر باہر آتے دیکھتی ہیں تو اُنہیں کچھ شک گزرتا ہے کہ یہ فہد نہ تو پاکستان بزنس کے سلسلے میں آیا ہے اور نہ ہی یہ سیاح ہوسکتا ہے کیونکہ اسکی تو اپنی حالت اتنی ٹھیک نہیں ہے اور وہیل چئیر پر یہ بیٹھ کر باہر آرہا ہے۔ ایف آئی اے، آئی بی کے افسران فہد حجاب کا پیچھا کرتیہیں تو ائیرپورٹ پر کھڑی ایمبولینس اُنکے شک کو اور تقویت دیتی ہے۔

ایف آئی اے اس سعودی شہری پراپنی نگرانی سخت کردیتی ہے۔ موبائل فون کے ڈیٹا کے سے پتہ چلا کہ یہ صاحب پاکستان میں گُردہ تبدیل کروانے آئے ہیں اورایک بین الاقوامی گروہ ہے جو بین الاقوامی سطح پر گرُدوں کی فروخت کا غیر قانونی کاروبار کررہا ہے۔

اب میں منظر کو تھوڑا سا بدلتے ہوئے آپکو پیر محل کے ابراہیم ریاض اللہ میڈیکل کمپلیکس میں لئیے چلتا ہوں جہاں پر ڈاکٹر سفید گاؤن پہنے مسیحا کے روپ میں موجود ہیں سینکڑوں کی تعداد میں اس ہسپتال میں مریض آتے ہیں۔ صحت کا شعبہ پنجاب میں بہت ہی پیچھے ہے جسکی وجہ سے پیر محل، سندھیلیانوالی اور قرب و جوار کے غریب لوگوں کے لئیے ابراہیم ریاض اللہ میڈیکل کمپلیکس کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔

سعودی شہری فہد حجاب کی لاہور سے اگلی منزل ملک کا کوئی بڑا ہسپتال نہیں بلکہ پیرمحل میں ابراہیم ہسپتال کے ساتھ موجود ایک خالی کوٹھی ہے جس کے متعدد کمروں کو آپریشن تھیٹر میں تبدیل کیا گیا ہے۔ ابراہیم ہسپتال میں ایک نیفرالوجسٹ یعنی ماہر امراض گردہ ڈاکٹر محمد شاہد کی سربراہی میں ابراہیم ہسپتال کے دیگر معاون عملہ کی مدد سے غیر ملکیوں کو غیر قانونی طور پر گردے ٹرانسپلانٹ کررہے تھے۔

یہ گھناؤنا کاروبار ایک بڑے عرصے سے چل رہا تھا جسے چوہدری محمد سرورسابقہ گورنر پنجاب کے یہ دو سگے بھانجے کشف ریاض اللہ اور نجف ریاض اللہ چلا رہے تھے۔

اس فعل کا سب سے گھناؤنا پہلو یہ ہے کہ جو عورتیں زچگی کے لئیے ابراہیم ریاض اللہ میڈیکل کمپلیکس میں آتی تھیں توگائنا کالوجسٹ یعنی ماہرامراض زچگی لیڈی ڈاکٹر سب سے پہلے مریضہ کے خون کا گروپ ٹیسٹ کرواتی اور دیگر گردوں کے ٹیسٹ کرواتی۔ پھر یہ رپورٹ کشف ریاض اللہ اور نجف ریاض اللہ کو بھیج دی جاتی۔ یہ انٹرنیٹ پر گردوں کے منتظر مریضوں سے ڈیٹا کو ملاتے۔ پھر زچگی کے لئیے آنے والی خاتون کے علم میں لائے بغیر اُس کے ایک گردے کا سودا ایک کروڑ روپے میں طے کرتے۔ غیر ملکی جسے گردے کی ضرورت ہوتی اُسے عورت کی زچگی سے ایک دو دن پہلے بُلوا لیتے۔ پھر عین زچگی کے دن ڈاکٹر عورت کا آپریشن کرتے اور نئے پیدا ہونے والے بچے کی ماں کا گردہ بھی نکال لیتے۔ زچگی کا آپریشن کروانے آنے والی خاتون کو علاج میں سہولتیں دیتے اور بہت ہی کم پیسے لیتے۔ وہ غریب عورت ان ضمیر فرشوں کو جھولیاں پھیلا پھیلا کر دُعائیں دیتی رُخصت ہوجاتی اور سمجھتی کہ ابھی دُنیا میں کشف ریاض اللہ اور نجف ریاض اللہ کی صورت میں فرشتے موجود ہیں جو غریبوں کے دُکھ درد کو سمجھتے ہیں۔ وہ سوچتی کہ اگر یہی میرا بڑا آپریشن کسی اور جگہ ہوتا تو میرے کم از کم پچاس ہزار روپے خرچ ہوجانے تھے جبکہ ان نیک دل لوگوں نے میرے پانچ ہزار بھی نہیں لگنے دئیے۔ وہ غریب عورت اپنے گُردے کے نکالے جانے سے لاعلم رہتی ہے اور ہر ملنے والے کو ابراہیم ریاض اللہ میڈیکل کمپلیکس کی تعریفیں کرتی رہتی ہے۔ یہ بے ضمیر لوگ ڈاکٹر سے مل کر ایک کروڑ روپیہ اپنی جیبوں میں بھر لیتے اور پارسائی کا لبادہ اوڑھے معاشرے سے عزت سمیٹنے میں مشغول رہتے۔

یہ تو وہ سلوک تھا جو زچگی کے لئیے آنے والی خواتین کے ساتھ ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ظلم یہ کیا جاتا کہ مختلف دلالوں سے رابطہ کیا جاتا اُنہیں ڈیمانڈ بتائی جاتی کہ اس خون کے گروپ کا گردہ چاہیے۔ وہ دلال جرائم پیشہ لوگ ہوتے تھے جو کبھی بندوق کے زور پر کسی غریب کو اغواء کرکے ابراہیم ریاض اللہ میڈیکل کمپلیکس میں لے آتے جہاں پر ڈاکٹر اُس کا گردہ نکال لیتے یا کبھی غربت کے ہاتھوں مجبور اُن لوگوں کی مجبوریوں کا سودا کرتے اور اُنہیں پچاس سے نوے ہزار روپے تک ہاتھ میں تھما دیتے اور اُس کا گردہ نکال کر کم از کم ایک کروڑ روپے میں فروخت کردیتے۔

یہ واقعہ 13 اکتوبر کا ہے جب ایف آئی اے کے مخبر نے اطلاع دی کہ آپریشن شروع ہوچکا ہے۔ ایف آئی اے کی ٹیم نے محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام کو ساتھ لیا پولیس اور انتظامیہ کے افسران کو ساتھ لیا اور ابراہیم ریاض اللہ میڈیکل کمپلیکس کے ساتھ ملحقہ کوٹھی پر چھاپہ مارا تو وہاں پر ڈاکٹر شاہد اپنی آپریشن تھیٹر کی ٹیم کے ساتھ موجود تھا اور عورت کا گردہ نکال کر سعودی شہری فہد حجاب کے ٹرانسپلانٹ کررہا تھا۔ ایف آئی اے کی ٹیم کو دیکھ کر ڈاکٹر گھبرا گیا اور آپریشن ادھورا چھوڑنے لگا۔ لیکن ایف آئی اے اور محمکہ صحت کی ٹیم نے کہا کہ اس پروسیجر کو اب مکمل کرو۔ لیکن ڈاکٹر شاہد کے ہاتھ کانپنے لگے اور وہ بار بار کہتا رہا کہ اب مجھ سے نہیں ہونا۔ یہ کیسا مسیحا کے روپ میں شیطان تھا کہ جب غریبوں کے گردے نکال رہا تھا وہ لوگ جن کے پاس بیچنے کو اُنکے جسم کے اعضاء کے علاوہ کچھ نہ تھا جب اُنکیگُردے نکالتا تھا تب اسکے ہاتھ نہیں کانپے لیکن جونہی ایف آئی اے کے افسران کو دیکھا تو ہاتھ کانپنے لگ گئے۔ جب غریب پھٹے پُرانے کپڑوں میں ملبوس بے ہوش لوگ اس ڈاکٹر کے سامنے سٹریچر پر لٹائے جاتے تب اُنکی شکلیں دیکھ کر اس ظالم کو ترس نہ آیا، نہ اس نے ایک دفعہ کہا کہ ”یہ ظلم مجھ سے نہیں ہوتا” بلکہ چکمتے دمکتے نوٹوں کی گڈیاں دیکھ کر یہ گھناؤنا فعل خوشی خوشی سرانجام دیتا۔

ایف آئی اے کے افسران آپریشن تھیٹر سے باہر چلے گئے اور محکمہ صحت کے ڈاکٹر افسران کو آپریشن تھیٹر میں چھوڑ گئے کہ اس کا آپریشن اب مکمل کریں اور انسانی جان کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ خیر جیسے تیسے ڈاکٹر شاہد نے آپریشن مکمل کیا تو محکمہ صحت کی ٹیم نے فوری طور پر سعودی شہری اور گردہ فروخت کرنی والی عورت کو الائیڈ ہسپتال فیصل آباد شفٹ کیا تاکہ ان کا بہتر علاج ہوسکے۔

جب وہیں پر ڈاکٹر سے ایف آئی اے کی ٹیم نے سوال وجواب کئیے تو ڈاکٹر شاہد نے کہا کہ میں تو صرف آپریشن کی فیس لیتا ہوں اصل گُردوں کی خرید وفروخت کا مکروہ دھندا تو نجف ریاض اللہ اور کشف ریاض اللہ کرتے ہیں۔ یہ دونوں ملزمان فرار ہوگئے لیکن ایک دن بعد ہی کشف ریاض اللہ کو ایف آئی اے نے اُسکے موبائل کی لوکیشن سے گرفتار کرلیا ہے جبکہ اسکے دوسرے بھائی نجف ریاض اللہ کا تاحال کوئی پتہ نہیں چل سکا کہ وہ بھی گرفتار ہوا ہے یا نہیں۔

اس واقعے کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ چونکہ ملزمان سابقہ گورنر پنجاب چوہدری سرور کے سگے بھانجے ہیں اور اثرورسوخ والے لوگ ہیں اس لئیے کسی بھی صحافی نے اس گھناؤنے کاروبارکو اُس طرح سے بے نقاب نہیں کیا جیسے اسکا حق بنتا تھا۔ صاف بات ہے کہ مقامی صحافیوں کے بھی ان سے بہت اچھے تعلقات تھے اس لئیے اس واقعہ کو صرف ڈاکٹر شاہد کے سر تھوپ کر معاملہ کورفع دفع کرنے کی کوشش کی گئی اور ایسا تآثر دیا گیا کہ جیسے یہ ایک ڈاکٹر شاہد جیسے فرد واحد کا فعل تھا لیکن کمال ہوشیاری سے اپنے قلم کی طاقت کو دباتے ہوئے کشف ریاض اللہ اور نجف ریاض اللہ کا نام تک نہیں لکھا۔ یہ ہمارے علاقے میں کیسی صحافت ہورہی ہے؟ وہ صحافی جن کا اولین مقصد ہی عوام تک ٹھیک اور سچی معلومات کا پہنچانا ہے جب وہ ہی اپنے قلم سے بددیانتی کرنے لگ جائیں، جب حُرمت قلم کے پاسبان اُسے چوک میں رکھ کرنیلام کردیں پھر ہم جیسے باضمیر لوگ اپنی آواز کو نہ بُلند کریں تو یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟ ہمیں کہا جاتا ہے کہ تم لوگ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر صحافیوں کی عزتوں کا جنازہ نکالتے ہو۔ جب یہ خود اپنی اپنے مقدس پیشے کو چند ٹکوں کے عوض فروخت کرتے ہیں تب انہیں شرم اور غیرت کیوں نہیں آتی؟

کیا ان صحافیوں کا یہ فرض نہیں تھا کہ ملزم جتنا بھی طاقتور ہوتا اُس کے خلاف اپنی آواز بُلند کرتے؟ انکی آنکھوں کے سامنے غریب لوگوں کے گُردے نکال نکال کر فروخت کردئیے گئے یہ اپنی لمبی لمبی زبانیں اپنی آنکھوں پر لپیٹ کر سوتے رہے؟

آئیندہ چند دنوں میں یہ واقعہ ملک کے تمام ٹی وی چینلز کی شہہ سُرخی بنے گا غریبوں کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا۔ ہم ہر میڈیا گروپ کو لکھیں گے اور پوچھیں گے کہ آخر کونسی مجبوری تھی کہ یہاں پر کوئی سرعام کی ٹیم، کوئی جُرم بولتا ہے کی ٹیم یا ایف آئی آر پروگرام کی ٹیم نہ پہنچ سکی؟ صرف اس لئیے کہ جو ملزمان ہیں وہ بہت طاقتور ہیں؟۔

میری آپ سب سے بھی گزارش ہے کہ حکومت وقت سے مطالبہ کریں کہ ان ملزمان کو سخت سے سخت سزا دیں اور جلد سے جلد انہیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کریں۔ تاکہ اس مکروہ کاروبار کرنے والوں کے اس گھناؤنے دھندے کو روکا جائے جو غریب اور لاچار لوگوں سے اُنکی چھوٹی چھوٹی مجبوریوں کے باعث اُن کے گردے نکال کر بیچ رہے ہیں۔ حکومت اُن لوگوں کا ازالہ بھی کرے جن کے گردے ان بدبختوں نے نکال کر بیچے ہیں اور وہ اربوں روپیہ انکے پیٹوں سے نکال کر اُن غریب لوگوں کو دیا جائے جو ان شکاریوں کے جال میں پھنس کر انکے مکروہ عزائم کا شکار بنے۔

Abdul Rauf Khan

Abdul Rauf Khan

تحریر: عبدالرؤف خاں

The post نام نہاد عزت دار پیشہ ناجائز گردہ فروشی appeared first on جیو اردو.

اسلامی تعلیمات پر عمل سے ہی تشدد اور عدم برداشت کا خاتمہ ممکن ہے، مفتی محمد نعیم

$
0
0
Mufti Mohammad Naeem

Mufti Mohammad Naeem

کراچی : جامعہ بنوریہ عالمیہ کے رئیس وشیخ الحدیث مفتی محمد نعیم نے کہا کہ تحمل و بردباری اسلام کا اولین درس ہے، اسلامی تعلیمات پر عمل سے ہی تشدد اور عدم برداشت کا خاتمہ ممکن ہے،معمولی تکرار پر قتل کی وارداتوں کا افسوسناک حدتک اضافہ لمحہ فکریہ ہے ، عدم برداشت اور رواداری کا فقدان قومی وجود کیلئے خطرہ ہے،اسلام نے دنیا سے عدم برداشت وتشدد کا خاتمہ کیاہے مگر افسوس آج اسلامی تعلیمات سے دوری کے باعث مسلمان ہی اس مرض میں مبتلا دیکھائی دے رہے ہیں۔

ہفتہ کو جامعہ بنوریہ عالمیہ میں عدم برداشت ورواداری کے فقدان کے موضوع پرمیڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے رئیس وشیخ الحدیث مفتی محمدنعیم نے کہاکہ معاشرے میں انصاف کی عدم فراہمی لوٹ کھسوٹ ،مہنگائی بے روزگاری عدم برداشت اور رواداری کے فقدان کی بڑی وجوہات ہیں ،اس کے ساتھ اسلام سے دوری نے مسلمانوں سے صبرو شکر کو بھی چھین لیاہے، اللہ تعالیٰ کے نبیﷺ پر کتنی مشقتیں آئیں کتنی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر آپﷺ نے صبر وشکر کی عظیم مثالیں قائم کرکے امت کو بردباری اور برداشت کا درس دیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی امت کیلئے بہترین نمونہ ہے ،انہوں نے کہاکہ معاشرتی اتحاد و اتفاق کیلئے رواداری کا فروغ ضروری ہے، جو اسلامی تعلیمات پر عمل سے ہی ممکن ہو گا۔

اسلام انسانیت کو جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے جہاں اسلام نے آداب عبادات پر توجہ دی ہے وہاں پر آداب معاشرت کے سنہرے اصول بھی سکھائے ہیں ہمیں اپنے اپنے معاشرے میں ان اصولوں کو عام کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حضور نے انصار اور مہاجرین میں بھائی چارگی کا رشتہ قائم کرکے رہتی دنیا کیلئے تعلیم دی کہ مسلمانوں کی ترقی کا راز بھائی چارگی و اخوت کے رشتے میں ہے،انہوں نے کہاکہ وطن عزیز میں معمولی تکرار کی بنا پر قتل میں اضافہ کی خبرین اخبارات کی زینت بن رہی ہیں جو افسوسناک اور لمحہ فکریہ ہے ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رواداری و برداشت کی کمی ہمارے معاشرے کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ مفتی نعیم نے مزید کہاکہ علماکرام باالخصوص وطن عزیز کے اسٹیک ہولڈرز کو عوام الناس معاشرے میں برداشت و رواداری کو قائم کرنے کیلئے سنجیدگی سے کردار ادا کرنا ہوگا اگر ہم نے آج سنجیدگی سے اس مہلک معاشرتی بیماری کے خاتمے پرتوجہ نہ دی تو تاریخ شاہد ہے کہ جس قوم میں صبر و برداشت اور رواداری دم توڑ جاتی ہے اس قوم کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔

The post اسلامی تعلیمات پر عمل سے ہی تشدد اور عدم برداشت کا خاتمہ ممکن ہے، مفتی محمد نعیم appeared first on جیو اردو.

عمر ٹاون ٹیکسلا میں قبضہ مافیا کا ڈسا ایک اور یتیم نوجوان انصاف کی دھائی کے لئے تحصیل پریس کلب پہنچ گیا

$
0
0
Arslan Iqbal

Arslan Iqbal

ٹیکسلا (تحصیل رپورٹر) آئینہ جو دکھایا تو برا مان گئے، عمر ٹاون ٹیکسلا میں قبضہ مافیا کا ڈسا ایک اور یتیم نوجوان انصاف کی دھائی کے لئے تحصیل پریس کلب پہنچ گیا، سچ آشکار کرنے پر عمر ٹاون انتظامیہ کی صحافی کو جان سے مارنے اور انتہائی نتائج کی دھمکیاں، محلہ توحید آباد عمر ٹاون ٹیکسلا میںمتاثرین پھٹ پڑے،اراضی کے خورد برد کے متعدد واقعات منظر عام پر آنا شروع ہوگئے، یتیم نوجوان کی جانب سے پلاٹ پر قبضہ کرنے کے خلاف تھانہ ٹیکسلا میں درخواست جمع کرادی گئی۔

عمر ٹاون کے متاثرین نے چئیرمین ٹیکسلا میونسپل کمیٹی ٹیکسلااور اسسٹنٹ کمشنر ٹیکسلا کو بھی تحریری درخواست دے دی،انتظامیہ حرکت میں آگئی،این او سی کا مسلہ بھی زیر بحث آنے لگا،تفصیلات کے مطابق عمر ٹاون کے رہائشی نوجوان ارسلان اقبال ولد محمد اقبال مرحوم نے تحصیل پریس کلب ٹیکسلا میں ظلم کی روداد بیان کرتے ہوئے بتایاکہ وہ محلہ سرائے کھولہ کا رہائشی ہے،سائل کے والد محمد اقبال ولد فضل الہیٰ 2007 میں فوت ہوگئے تھے،والد مرحوم نے زندگی کی جمع پونجی سے خسرہ نمبر484 موضع سرائے کھولہ میں سات مرلے زمین خریدی،جسکی بنیادیں ڈالیں ،عرصہ پانچ ماہ قبل عمر ٹاون میں اسامہ اور محبوب نامی افراد نے مذکورہ پلاٹ کی بنیادیں کھود کر اینٹیں ، پتھر وغیرہ بھی چوری کر لئے،جبکہ والد کی ملکیتی اراضی پر ٹریکٹر چلا کر اسے برابر کردیا،سائل نے انکی منتیں کیں کہ یہ ہماری جگہ ہے،مگر انھوں نے میری ایک نہ سنی اور لاکھوں روپے ملکیتی پلاٹ پر ناجائز قبضہ کر لیا،جس کے ملکیت کے ثبوت میرے پاس ہیں،یتیم ارسلان نے تھانہ ٹیکسلا میں بھی اس ضمن میں تحریری درخواست دی اور استدعا کی ہے کہ امجھے انصاف دلایا جائے اور مذکورہ افراد جو لوگوں کی اراضی پر قبضہ کر کے انھیں فروخت کر رہے ہیں انکے خلاف جعلسازی اور لوگوں کو لوٹنے ، سامان چوری کرنے پر قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے،ادہر اسامہ نامی شخص نے ایک صحافی کو مذکورہ خبر کی اشاعت پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں ، یاد رہے کہ متاثرین توحید آباد ٹیکسلا کی جانب سے گزشتہ روز اخبارات میں غیر قانونی اقدامات اور لوگوں کو لوٹنے ، سرکاری اراضی اور ملکیتی افراد کی اراضی پر قبضہ کرنے کے حوالے سے خبریں شائع ہوئیں جس پر اسامہ و دیگر افراد سیخ پا ہوگئے اور صحافیوں کو انتہائی نتائج کی دھمکیاں دے ڈالیں،اس ضمن میں مزید سننی خیز انکشافات بھی سامنے آرہے ہیں جنہیں میڈیا کے توسط سے اجاگر کیا جائے گا،متاثرین کا کہنا ہے کہ اثرو رسوخ کے حامل قبضہ گروپ کے خلاف پولیس کوئی کاروائی عمل میں نہیں لا رہی ، متاثرین کا وفد اس ضمن میں آر پی او راولپنڈی سے جلد ملاقات کا ارادہ رکھتا ہے۔

یاد رہے کہ چند روز قبل سابق وفاقی وزیر چوہدری نثار علی خان نے کوہستان ہاوس میں پریس کانفرنس کی تھی جس میں اسلام آباد کے ایک صحافی نے بھی اسی قبضہ مافیا کے حوالے سے سوال کیا تھا جس کا جواب چوہدری نثار علی خان نے یہ دیا تھا کہ قبضہ مافیا سے انکا کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں انکو فوری ہتکڑیاں لگنی چائیں یہ لوگ نا قابل معافی ہیں۔

ڈاکٹر سید صابر علی تحصیل رپورٹر ٹیکسلا ِ، واہ کینٹ 0300-5128038

The post عمر ٹاون ٹیکسلا میں قبضہ مافیا کا ڈسا ایک اور یتیم نوجوان انصاف کی دھائی کے لئے تحصیل پریس کلب پہنچ گیا appeared first on جیو اردو.

صنف نازک اور ہراسیت

$
0
0
Harassment

Harassment

تحریر : عبداللہ
وائن سٹین کے جنسی سکینڈل سے لے کر ٹویٹر پر #MeToo جیسی آگاہی مہم چلانے تک،خواتین کو جنسی ہراساں کرنے کی خبریں گذشتہ کئی دن سے اخبارات اور سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں ۔ یہ کوئی نئی جنگ نہیں ہے کہ خواتین اب ایسے واقعات کو معاشرے کے سامنے لا رہی ہیں بلکہ تاریخ میں ایسی عورتوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے ان مظالم پر خاموشی اختیار کرنے کی بجائے انھیں معاشرے کے سامنے بے نقاب کیا ۔ لیکن موجودہ دور میں کچھ مختلف اور نئے انداز اس جنگ میں شامل ہو چکے ہیں اور افسوس کی بات ہے کہ خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات دنیا بھر میں مسلسل بڑھتے چلے جا رہے ہیں ۔ جنسی ہراساں کرنے کی تاریخ رومن دور سے ملتی ہے جب غلاموں کی شکل میں لائی گئی خواتین کو رومی تمام انسانی حقوق سے مبرا سمجھتے تھے اور ان پر ہر طرح کے مظالم ڈھاتے تھے جن میں ان کا جنسی استحصال بھی شامل تھا ۔ اس کے علاوہ قدیم آئرلینڈ کے علاقوں میں بھی خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات ملتے ہیں اور اسی وجہ سے وہاں کچھ قوانین بھی متعارف کروائے گئے تھے تاکہ خواتین محفوظ رہ سکیں ۔

جدید زمانے کی بات کریں تو 1979 اور 1980 کے ٹائم میگزین کے مطابق سالانہ 18 ملین امریکی خواتین کو دفتروں اور دیگر کام کرنے کی جگہوں پر جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح 1993 کے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن کے مطابق ہاؤس جاب کے دوران تقریباً تین تہائی خواتین جنسی طور پر ہراساں ہوتی ہیں ۔ 2014 کے ڈیلی بیسٹ کے مطابق سائینس ،ٹیکنالوجی،انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبوں میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات میں نہایت تیزی دیکھنے میں آئی ہے ۔ امریکہ جیسے آزاد معاشرے میں کھیل کے میدان سے لے کر میڈیا ہاؤسز، سلیکان ویلی تک اور تعلیمی اداروں سے سرکاری دفتروں تک ہر جگہ خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات آئے دن بڑھ رہے ہیں ۔ حتیٰ کے امریکی فوج میں بھی ساتھی خواتین فوجیوں کو جنسی ہراساں کرنے کے واقعات میں زیادتی دیکھنے کو ملی ہے ۔

ایک امریکی تاریخ دان ہاورڈ زن اپنی کتاب A People’s History of United States’میں لکھتے ہیں کہ قدیم امریکی قبائل اپنے خاندان کے ساتھ جن میں دادا، دادی، چچا وغیرہ موجود ہوتے تھے ، ایک ہی مشترکہ جگہ پر رہا کرتے تھے ۔ اور اس جوائنٹ فیملی سسٹم میں عورتوں سے آج کے تہذیب یافتہ اور الگ رہنے والے امریکی معاشرے کے مقابلے میں زیادہ عزت اور مہذب برتاؤ رکھا جاتا تھا ۔ سوچنے کا مقام ہے کہ آزاد اور مہذب معاشرے میں بھی خواتین پر ایسے مظالم کا ہونا اس معاشرے کی ذہنی تربیت کی عکاسی کرتا ہے اور یقیناً مذہب بیزاری ہی اس معاشرے کو اس حد تک لے جانے کا سبب بن رہی ہے ۔

پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں روزانہ تقریباً 80فیصد خواتین کومختلف طریقوں سے جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے ۔ ہراساں کرنے کے یہ واقعات ہمارے معاشرے کا مستقل مسئلہ بن چکے ہیں ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ عورتوں کی روایتی کمزوری سے فائدہ اٹھانا ہے ۔ چونکہ عورتوں کو ایسے معاملات پر زیادہ آگاہ کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا اور ایسے واقعات پر صرف خاموش رہنا ہی بتایا جاتا ہے ، جس وجہ سے خواتین بہت کم ہی منظر عام پر آ کر ایسے لوگوں کیخلاف مقدمات درج کروا پاتی ہیں ۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک جیسے انڈیا اور فلپائن میں قانونی طور پر جنسی ہراساں کرنے کی مکمل تشریح موجود ہے ۔ اس کے مطابق کسی کی مرضی کے خلاف کوئی بھی ایسا عمل اور رویہ چاہے وہ زبانی ہو، جسمانی ہو یا اشارتاً جس کا تعلق جنس سے ہو ہراساں کرنے کے زمرے میں آتا ہے ۔ ان میں فحش لطائف، ہوٹلنگ وغیرہ کے لیے زور ڈالنا، اور بلیک میل کرنے جیسے عوامل بھی شامل ہیں ۔

پاکستان میں بھی خواتین کے تحفظ کے لیے مختلف قوانین موجود ہیں لیکن پیچیدہ تھانوں کے نظام اورمعاشرے میں عزت کو داؤ پر لگ جانے کے خطرات کی وجہ سے بیشتر خواتین منظر عام پر آتی ہی نہیں جس وجہ سے ان واقعات میں اضافہ ہورہا ہے ۔ ایک مشہور ہیومن رائٹس وکیل کے مطابق ہر ادارے کو ایک ایسی کمیٹی بنانی چاہیے جو اس طرح کے واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیق کرے اور متاثرہ لوگ ان سے کھل کر بات بھی کر سکیں ۔ جنسی طور ہراساں کرنے کے واقعات کو کسی بھی ادارے میں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ۔ چند ملٹی نیشنل اور نیشنل کمپنیاں جن میں برٹش پٹرولیم پاکستان، شیل، یونی لیور پاکستان اور پاکستان سٹیٹ آئل شامل ہیں نے باقاعدہ خواتین کو ہراساں کرنے پر مؤثر پالیسیاں بنا رکھی ہیں جن پر مکمل عمل درآمد کیا جاتا ہے ۔ اور کسی بھی ایسے واقعے پر فوری ایکشن لے کر غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جاتی ہیں ۔

جنسی ہراساں کرنے کے واقعات میں کمی اسی صورت ممکن ہے جب خواتین کو ایسے معاملات سے مکمل آگاہ کیا جائے ۔ انکو اعتماد میں لے کر ہمت اور حوصلہ دلایا جائے اور باور کروایا جائے کہ ان کے واقعات رپورٹ کرنے سے مزید ایسے حادثات میں کمی آئے گی اور خصوصاً ان کی عزت اور مستقبل پر کسی قسم کی آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔ بصورت دیگر متاثرہ خواتین کی خاموشی دن بدن ایسے شیطان صفت افراد کو مزید حوصلہ فراہم کر کے ان واقعات میں اضافے کا باعث بنے گی۔

Ali Abdullah

Ali Abdullah

تحریر : عبداللہ

The post صنف نازک اور ہراسیت appeared first on جیو اردو.

سمٹے ہوئے ہیں آنکھ میں حسرت کے سلسلے

$
0
0

سمٹے ہوئے ہیں آنکھ میں حسرت کے سلسلے
صدمات ِماہ سال کی شِدّت کے سلسلے
انسانیت کا روگ ہیں غربت کے سلسلے
بکھری ہوئی ہیں چارسُو خوابوں کی کرچیاں
سمٹے ہوئے ہیں آنکھ میں حسرت کے سلسلے
دیکھے کوئی تو جادہء حُزن و ملال پر
رسوائے صبح و شام کی ہجرت کے سلسلے
عُقدہ کشانِ حشر سے کہدو کہ دیکھ لیں
فاقہ کشوں کے شہر میں ذِلت کے سلسلے
دیوانگانِ عشق کا رختِ نصیب ہیں
راہِ صلیب و دار کی حُرمت کے سلسلے
اُن کو نمودِ سحر کی آواز کہ جنہیں!
ڈستے رہے ہیں آج تک ظلمت کے سلسلے
ساحل سناں کی نوک پہ بھی چپ نہیں رہے
کیا کیا رہے ہیں حرف و حکایت کے سلسلے

Sahil Munir

Sahil Munir

ساحل منیر

The post سمٹے ہوئے ہیں آنکھ میں حسرت کے سلسلے appeared first on جیو اردو.

امام بارگاہ سجادیہ ویانا کے زیراہتمام پہلی مجلس اعزا بسلسلہ شہدا کربلا حضرت امام حسین علیہ السلام منعقد کی جائے گی

$
0
0
Hazrat Imam Hussain

Hazrat Imam Hussain

ویانا (محمد اکرم باجوہ) امام بارگاہ سجادیہ ویانا کے زیراہتمام آٹھ صفر 29 اکتوبر بروز اتوار پہلی مجلس اعزا بسلسلہ شہدا کربلا حضرت امام حسین علیہ السلام علی مسجد واقع Mollard Gasse 50 چھ ڈسٹرکٹ میں بعد مغربین منعقد کی جائے گی ۔جس میں مقامی زاکرین کے علاوہ مولانا سید محمد رضوی آف انگلینڈ شان اہلیت اور امام حسین علیہ السلام کی شہادت بیان فرمائیں گے۔

مجلس کے اختتام پر ماتم داری اور نیاز امام حسین علیہ السلام کا انتظام کیا جائے گا ۔ تمام مومینین سے شرکت اپیل کی جاتی ہے اور وقت کی پابندی کا خیال کریں۔

The post امام بارگاہ سجادیہ ویانا کے زیراہتمام پہلی مجلس اعزا بسلسلہ شہدا کربلا حضرت امام حسین علیہ السلام منعقد کی جائے گی appeared first on جیو اردو.

ظلم جاری ہے اور ہم بھول گئے

$
0
0
Oppression Muslims

Oppression Muslims

تحریر : عابد رحمت
پوری دنیامیں اس وقت مسلمان کس قدربے بس اورمجبوروبے کس ہیں ۔کیوں نہ آنسوئوں کے نوحے جاری ہوں ،مسلمان پوری دنیامیں کم وبیش ڈیڑھ ارب کی تعدادمیں ہیں اور57سے زائد ممالک پرمسلم حکمرانی ہے ،قدرتی وسائل میں مسلمان سب سے آگے ہیں مگرپھربھی یہودوہنودکے پنجہ استبدادمیں جکڑے ہوئے ہیں۔ رقص ابلیس کی فسوں کاری کے یہ دلخراش واقعات اور تلخ حقیقتیں کیسے بھول جائوں کہ فلسطینیوں پراسرائیل کے مظالم اوردرندگی کی انتہاء ہے،مقبوضہ کشمیرمیں بسنے والے مسلمان عرصہ درازسے سات لاکھ ہندوستانی فوج سے نبردآزماہیں اور ہزاروں قربانیوں کے باوجودبھی اپناحق خودارادیت منوانے سے عاجز ہیں۔

بوسنیا ہرزیگوینیامیں مسلمانوں کی نسل مٹائی گئی، چیچنیا میں انسانی حقوق کوپامال کیاگیا، افغانستان اورعراق میں لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کوموت کے حوالے کیاگیا،دنیا کے مختلف حصوں میں عیسائی، ہندو، بدھسٹ اوریہودی مسلمانوں پرظلم وستم کے پہاڑتوڑرہے ہیں ۔ہم کچھ کرنے کی بجائے اقوام متحدہ کادرکھٹکھٹاتے ہیں ، مگروہ دروازے کی چٹخنی چڑھائے ، کانوں میں روئی ٹھونسے ، آنکھوںپہ تعصب کی پٹی باندھے گونگابہرہ ہونے کاڈرامارچاتی ہے ۔ مسلمان اقوام متحدہ کوظالموں پردبائوڈالنے کی دہائیاں دیتے ہیں مگران کی آہ وفغاں عالمی طاقتوں کے سامنے دب جاتی ہے ۔اقوام متحدہ ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اوربااثرممالک اس وقت ہڑبڑاکراٹھ بیٹھتے ہیں جب خونی تشدد، خانہ جنگی، انسانی حقوق کی پامالی یاوحشیانہ سلوک جیسے واقعات میں ان کے مفادشامل ہوں یامظلوم مسلمانوں کے علاوہ کوئی اورقوم ہو۔ایسٹ تیمور، جنوبی سوڈان اورایسے ہی دیگرمقامات پرپیش آنے والے واقعات اقوام متحدہ کی اس منافقت کی غمازی کرتے ہیں ۔

ہم اس وقت تک متحرک رہتے ہیں جب تک میڈیابشمول سوشل اورپرنٹ میڈیاپرمسلمانوں پرڈھائے جانے والے ظلم وستم کی ویڈیوزاوران کی مسخ شدہ ، کٹی پھٹی لاشوں کی تصاویروائرل(جاری) ہوتی رہتی ہیں ۔جب میڈیا یہ دل سوزمناظردکھانابندکردیتاہے توہم مسلمان یہ سمجھتے ہیں ، اب امن قائم ہوچکاہے، ظالم مسلمانوں کی لاشیںچھوڑکرجاچکے ہیں ، وحشی درندوں نے مسلمان عورتوں کے جسموں کونوچنابندکردیاہے، مسلمانوں کوان کے حقوق مل چکے ہیں ، انہیں انسان تسلیم کرلیاگیاہے ، ایسی صورت میں ہم اپنابوریابسترلپیٹے ، دھرناچھوڑکر، احتجاج سے توبہ تائب ہوکراپنے پُرسکون گھروں کولوٹ آتے ہیں ، مسلمانوں کے حق میں لگائے گئے نعروں سے گلے میںپڑی خراشیں ،دوا’داروسے دورکرتے ہیں ، اس رات ہم پرسکون نیندلے کرجب اٹھتے ہیں تویہ سوچ کراپنی خرمستیوں میں دوبارہ کھوجاتے ہیں کہ ہم نے اپنے مسلمان ہونے کاحق اداکردیا،ہم یہ سوچ کرکہ مسلمانوں کے حق میں اپنی آوازکے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ بھی دعاکے لیے بلندکرکے خودکومسلمانوں کے محافظ ہونے کاثبوت فراہم کرچکے ہیں،لہٰذاعالم اسلام کے مظلوم مسلمانوں کوبھلادیناہمارااتناتوحق بنتاہی ہے۔ ہم اپنی بے حسی پرماتم کرنے کی بجائے غفلت کالبادہ اوڑھ کر، اقتدارکے نشے میں چور، طائو س ورباب کی جھنکاروں میں دھت پڑھے ہوتے ہیں ۔

ہم یہ بھول چکے ہیں کہ مسلمانوں کے گھرکھنڈرات بن چکے ہیں ،مسلمانوں کی گردنیں کاٹی جارہی ہیں ، ہماری عفت مآب مائوں ،بہنوں کی عزتیں تارتارکی جارہی ہیں ، گھروں کوجلاکرراکھ کاڈھیربنایاجارہاہے ۔ہم یہ نظراندازکرچکے ہیں کہ میانمارمیں مسلمانوں کے اعضاء دوردورتک بکھرے پڑے ہیں ، ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی جارہی ہے ، لاشوں کوسڑکوں پرگھسیٹاجارہاہے ۔ہم اس حقیقت سے آنکھیں چراتے ہیں کہ میانمارکی سیکیورٹی فورسزمردوں کوگولیاں مارنے، بچوں کوذبح کرنے اور بنت حواکی عزتیں لوٹنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑرہیں ۔ہم بھول رہے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم میں بھی بدھوں کی اتنہاپسندتنظیم تھاکن نے ایک لاکھ مسلمانوں کوموت کے گھاٹ اتاردیا ،صرف چندہفتوں کے اندراندرمیانمارسے چارلاکھ مسلمان ہجرت کرنے پرمجبورہوئے۔ہم کیوں اس حقیقت کااعتراف نہیں کرتے کہ جس میانمار کی آبادی چالیس لاکھ سے زائدہے اور80فیصدمسلمان ہیں مگرپھربھی وہ اپنے ہی وطن کی شہریت سے محروم ہیں ۔کیایہ واقعہ آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی نہیں کہ صرف تین دن میں تین ہزارروہنگیامسلمانوں کوشہیداور2600گھروں کوآگ لگادی گئی ۔ہماری یادداشت اس قدرکمزورہوچکی ہے کہ ہمیں یہ بھی یادنہیں کہ ہیومن رائٹس واچ نے روہنگیائی مسلمانوں کودنیاکی مظلوم ترین قوم قراردیاہے ۔ہمیں تاریخوں کایہ تسلسل جھنجھوڑجھنجھوڑکرکچھ یاددلانے کی کوشش کرتاہے کہ 1978ئ، 1992-1991ئ،2012ئ، 2015ء اور2017ء میں مسلمانوں کوکس بے دردی سے صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے ظلم وجبرروارکھا گیااورخون کی ندیاں بہائی گئیں ۔ہمیں ان تڑپتے ہوئے بچوں کی چیخیں تک یادنہیں جن کی گردنیں کاٹ کران کی مائوں کے سامنے تڑپنے کے لئے چھوڑدیاگیا۔چنگیزاورہلاکوخاں سے کہیں زیادہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔

درختوں سے مسلمان عورتوں کی برہنہ لاشوں کالٹکایاجانا، مساجدمیں عورتوں کی عصمت دری کے بعدانہیں قتل کردیاجانا،سینکڑوں حفاظ کاجلایاجانا، 13 مسلمان بستیوں کابربادہونا،4862مکانات کامنہدم اورزمین بوس ہونا، 600مساجدکامسمارہونا اورخونِ مسلم کاارزاں ہونا، کچھ بھی توہمیں یادنہیں ، ہم سب کچھ بھول گئے ۔یہ سب کچھ ہنوزجاری ہے مگرہم چپ سادھے ، اسے قصہ پارینہ سمجھ کربھول گئے۔

ویسے بھی دنیاکایہ دستورہے کہ وہ جدیدکوپسندکرتی ہے اورقدیم کوفرسودہ سمجھ کربھول جاتی ہے ۔اب ہم کسی نئے مسئلے، المیے، حوادث اورسانحے کے انتظارمیں ہیں ، تاکہ ہم بے کارنہ بیٹھیں ، پھرسے واویلا، آہوکار، احتجاج اوردہائیوں کاوردکرکے دنیاکواپنے مظلوم ہونے کاعندیہ دیں ۔ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ طوفان جب اٹھتے ہیں ، زلزلے جب آتے ہیں ، منہ زورآندھیاں جب چلتی ہیں ، سیلاب جب ابھرتے ہیں اورآگ جب بھڑکتی ہے تواس کی زد میں صرف ایک گھریافردنہیں آتابلکہ بسااوقات پوری قوم ان کی نذرہوجایاکرتی ہے۔

Muhammad Abid

Muhammad Abid

تحریر : عابد رحمت

The post ظلم جاری ہے اور ہم بھول گئے appeared first on جیو اردو.


مہنگائی کا شدید دھماکہ

$
0
0
Inflation

Inflation

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
731 در آمدی اشیاء پر80%تک ریگولیٹری ڈیوٹی کے اعلان کی ہر فرد شدید مذمت کر رہا ہے غریب دشمن حکومت کا منی بجٹ سال میں کئی بار آتا ہے یہ بجٹ اب کی بار تو سرکاری ملازمین کسانوں مزدوروں اور عام غرباء پسے ہوئے طبقات پر بم دھماکہ سے کم نہیں ہے غریب عوام تو پہلے ہی روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کی مہنگائی کے قبرستان میں زندہ دفن ہونے پر مجبور تھے اور بیوی بچوں سمیت خود کشیاں اور خود سوزیاں کی جارہی تھیں کہ اب یہ قیامت آن پڑی ہے نااہل شریفوں اور ناکام اور کرپٹ وزیر خزانہ کی سزا غریب عوام کو دینا قرین انصاف نہ ہے 25ارب کے نئے ٹیکس لگا نا انتہائی ظلم اور عوام پر مہنگائی کا ڈرون حملہ کرنے کی طرح ہے ریگولیٹری ڈیوٹی کے ذریعے لوگوں کے کندھوں پر مزید بہت بڑا بوجھ ڈالنا حکومتی معاشی ناکامیوں کا تسلسل ہے اگر اس کو واپس نہیں لیا جاتا تو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں سمگلنگ بھی مزید بڑھے گی اور لا محالہ اس کا سارا بوجھ بھی بے سہاراغریب پاکستانیوں پر ہی پڑے گا۔کہ یہاں تو اسی ریٹ پر چیزیں بکیں گی مگر سرمایہ دار ،اور نودولتیے سودخور تو خوب کمائیاں کریں گے اس طرح ہماری قرضوں میں جکڑی معیشت کا مزید بھٹہ بیٹھ جائے گا اور ایسا عمل سراسر ملک دشمنی کے مترادف ہے اب جبکہ انتخابات میں چھ ہی ماہ باقی ہیں تو ایسے ٹیکسوں کا فائدہ حکومتی جماعت ،اس کے ہم جولیوں ،اور ہم نوالہ ،ہم پیالہ سرمایہ داروں کو تو مالی طور پر بہت ہوگا مگر سیاسی طور پر حکمرانوں کے سیاسی تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے کی طرز پر ہو گاگو کہ اشیائے تعیش کی در آمد کو روکنا اور ان پر پابندی لگانا ضروری ہے مگر اس کی آڑ میں ضروری خام مال تو متاثر نہیں ہو نا چاہیے کیونکہ ہمارا صنعتی شعبہ ہی ان سے صنعتی اشیاء کا مال تیار کرکے بیرون ملک بھجواتا ہے خام مال پر پابندی یا اس پر ڈھیروں ریگولیٹری ڈیوٹی سے لامحالہ صنعتی پیداوار کی کمی ہو گی اور ہماری مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں گی اور برآمد میں بھی شدید کمی ہو گی بیرون ممالک ہمارا مہنگا مال بک ہی نہیں سکے گاا س لیے صنعتی خام مال پرریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنا سخت کم فہمی اور بے عقلی ہے۔

غیر ضروری عیاشیانہ اشیاء کی در آمد پر تومکمل پابندی عائد کرڈالی جاتی تو بہتر ہوتا مگر 731 درآمدی اشیاء پر ڈیوٹی بڑھانا کسی صورت بھی ایسے مسائل کا حل نہ ہے چاہیے تو یہ تھا کہ جس ملک سے بھی تجارتی کاروبار کریں اس سے معاہدہ بھی کیا جائے کہ در آمدات کے برابر ہماری برآمدات بھی وہ خریدیں تاکہ ہمارا ٹرید بیلنس بہتر اور متوازن ہوتا رہے درآمدات میں تو اضافہ کا رجحان ہے مگر بر آمدات میں مسلسل کمی ہوتی جارہی ہے اس طرح ہمارے زرِ مبادلہ پر انتہائی برا اثر پڑ رہا ہے۔اسٹیٹ بنک کے مطابق 2سال میں روپے کی گردش میں اوسطاً 25فیصد اضافہ ریکارڈ ہو اہے جب کہ قبل ازیں11سال میں روپے کی گردش 14فیصد تھی ٹیکسوں کے نفاذ سے بنکوںمیں لین دین میںبہر حال کمی ہورہی ہے اور لو گ کھاتوں میں رقوم رکھنا ہی نہیں چاہتے بنکوں میں ڈیپازٹ کی کمی کی وجہ سے اسٹیٹ بنک کو بھی بینکنگ سیکٹر کو رقوم فراہم کرکے سہارا دینا پڑتا ہے۔اسٹیٹ بنک کی سفارش پر ود ہولڈنگ ٹیکس کا مکمل خاتمہ کیا جانا چاہیے وگرنہ بینکنگ سسٹم بھی دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ جائے گا۔ویسے تو دنیا کے پلید ترین اور غیر اسلامی سودی سسٹم کا ہی مکمل خاتمہ ہماری معیشت کو سنبھالنے کا بہترین ذریعہ ہے مگر چونکہ مرکز اور صوبوں میں حکمرانی بنچوں پر ظالم جاگیردار کرپٹ وڈیرے ڈھیروں منافع کمانے والے صنعتکار اور نودولتیے سود خور افراد ہی نوے فیصد سے زائد براجمان ہیں اس لیے سابقہ شریفوں کی حکمرانی کے دور میں لیا گیاسپریم کورٹ سے سودی نظام کو برقرار رکھنے کا اسٹے آرڈرواپس لیے جانے کا امکان نظر نہیں آتا۔

اب چونکہ نئے انتخابات سے قبل سرمایہ کی چھینا جھپٹی کا غلیظ عمل شروع ہو چکا ہے سبھی قسم کے ممبران اسمبلی آئندہ منتخب ہونے کے لیے ڈھیروں سرمایہ اور مال و دولت جمع کرنے پر تلے ہوئے ہیںتاکہ آئندہ پھر ووٹوں کی خریداری کرکے منتخب ہوسکیں اس لیے بجٹ کے چار ماہ بعدہی منی بجٹ کے ذریعے کھانے پینے سمیت سینکڑوںاشیاء پر ٹیکس عائد کرنے سے مہنگائی کا جو طوفان آئے گا وہ غربت میں بستے ہوئے نچلے طبقات کو سانس لینا تو درکنار موت کے قریب کر ڈالے گا موجودہ حکمرانوں کی 2013 کی انتخابی مہم میں لگائے گئے نعرے اور وعدے کہ اگر ہم اقتدار میں آگئے تو قیمتیں 1999کی سطح پر لے آئیں گے۔

کیا ان سابق نعروںپر رتی برابر بھی عمل ہوا ؟ہرگز نہیں ۔ مگر اب سرکاری اعلانات کے مطابق پولٹری مصنوعات دودھ مکھن کریم مچھلی گندم مکئی دھی پنیر شہد سبزیاں پھل خشک میوہ جات منرل واٹر آئس کریم پالتو جانوروں کی خوراک ان سب پر ٹیکس لگا کر ان کی قیمتیں بڑھانا ظلم ہی نہیں بیہودہ حرکت بھی ہے بجلی کی گھریلو مصنوعات اور سٹیل کی قیمتوں کو بڑھانا بھی احمقانہ حرکت ہے حکمران طبقات کے ہی تمام چینی کے کارخانے ہیں برآمدات پر وہ سبسڈی کے ذریعے اربوں کماتے ہیں پھر بھی عوام کی پہنچ سے چینی دور ہے اور دیہاتی لوگ بدستور گڑ شکر استعمال کرتے ہیں۔

نئی گاڑیوں پر تو ٹیکس بڑھا دیا مگر پرانی گاڑیاں تو سستی ہونی چاہیے تھیں ایسا بھی نہ ہوسکا۔گندم پڑی خراب ہورہی ہے گوداموں اور کھلے آسمان تلے بنائے گئے گندم سینٹرز پر تو گندم کی حالت انتہائی خراب ہے اس کی سابقہ کھپت دو کروڑ تیس لاکھ ٹن تھی مگر پیداوراڑھائی کروڑ ٹن سے زائد رہی اس کو بھی بروقت برآمد نہ کرنا حکمرانوں کی کوتاہی ہے قرضوں میں ڈوبتی معیشت تباہ و بربادہورہی ہے صدر مملکت تک چیخ اٹھے ہیں اتنے کھربوں روپوں کا قرضہ کسی ہسپتال تعلیم صاف پانی کی فراہمی اور غربت بیروزگاری کے خاتمے کے لیے نہ لگ سکاچار سال سے اللے تللے کاموں میںہی رقوم لگا کر ملک سخت قرضوں میں جکڑا جا چکا ہے۔قسطوں کی واپسی ایک بڑا مشکل مرحلہ ہو گی۔

Dr Mian Ihsan Bari

Dr Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری

The post مہنگائی کا شدید دھماکہ appeared first on جیو اردو.

ہمیں پنجاب پولیس کے بہادر سپوتوں پر فخر ہے اور جان کی بازی لگا کر عوام کی حفاظت کرنا پنجاب پولیس کا خاصا ہے۔ رانا مبشر اقبال

$
0
0
MNA Shazia Mubashar

MNA Shazia Mubashar

لاہور : پاکستان مسلم لیگ ن کے قومی رہنما، کوارڈئینیٹر وزیر اعلیٰ پنجاب رانا مبشر اقبال نے گذشتہ روزصحا فیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب پر کہا کہ پنجاب پولیس شہداء کی فورس ہے جس کے افسروں اور جوانوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور عوام کو شرپسندوں، چوروں، ڈکیتوں سے محفوظ بنانے اور سماج دشمن عناصر کے خاتمے کے لئے اپنے خون کا نذرانہ دیا۔ ہمیں پنجاب پولیس کے بہادر سپوتوں پر فخر ہے اور جان کی بازی لگا کر عوام کی حفاظت کرنا پنجاب پولیس کا خاصا ہے۔

پولیس فورس کے ہر غازی کے دل میں تڑپ ہے اور وہ قیام امن کے لئے ہر قسم کی قربانی کیلئے تیار ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف نے پنجاب پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنے کرنے کیلئے ہر طرح کے وسائل دیئے ہیں اور پنجاب پولیس کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈولفن فورس کے باعث لاہور میں سٹریٹ کرائمز میں کمی واقع ہوئی ہے جبکہ پنجاب کے دیگر شہروں میں ڈولفن فورس کی تعیناتی سے وہاں بھی سٹریٹ کرائمز کم ہوں گے، ڈولفن فورس کی تربیت میں ترک نیشنل پولیس اور ترک حکومت نے بھرپور تعاون کیا ہے۔ ترکی میں ڈولفن فورس نے اپنی کارکردگی کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ امید ہے کہ آپ بھی وہی معیار قائم کریں گے۔۔ انہوں نے کہا کہ ڈولفن فورس سٹریٹ کرائمز سے پاک پنجاب کے مشن کی تکمیل کے حوالے سے معاون ثابت ہوگی۔

شعبہ نشرواشاعت
03226390480

The post ہمیں پنجاب پولیس کے بہادر سپوتوں پر فخر ہے اور جان کی بازی لگا کر عوام کی حفاظت کرنا پنجاب پولیس کا خاصا ہے۔ رانا مبشر اقبال appeared first on جیو اردو.

اساتذہ کے مسائل ہو جائیں گے

$
0
0
Teachers Issues

Teachers Issues

تحریر : وقار احمد اعوان
شنید ہے کہ صوبائی حکومت روا ںماہ کے آخر میں NTS پر بھرتی ہونے والے تمام اساتذہ کو مستقل کردے گی، اس کے علاوہ صوبائی حکومت اساتذہ کادیرینہ مسئلہ ٹائم سکیل کا بھی بھرپورارادہ رکھتی ہے ،تاہم یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کیونکہ اب تک صرف خبروں تک ہی اساتذہ کو محدودرکھاگیاہے۔حالانکہ صوبائی حکومت کی جانب سے صوبہ کی تاریخ کی سب سے بڑی بھرتی موجودہ دور حکومت میں کی گئی ہے جوکہ تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی جائے گی ،مگر انہی اساتذہ کو گزشتہ تین سالوں سے عارضی بنیادوں پر بھرتی کرکے انہیں شدید قسم کے ذہنی تنائو میں مبتلا کیا گیا ہے۔

صوبائی حکومت کی موجودہ این ٹی ایس پالیسی یقینا میرٹ کے عین مطابق ہے تاہم این ٹی ایس کے ذریعے بھرتی ہونے والے اساتذہ کو جس ذہنی کوفت کاسامنا کرناپڑا شاید ہی اتنا دیگر حکومتوں میں بھرتی ہونے والے اساتذہ کو بھگتنا پڑاہو۔این ٹی ایس کی معمولی سی رقم یقینا ماضی کی لاکھوںمیں لی جانے والی رقم سے ہزارہا درجہ بہتر ہے۔مگر اس بات میںبھی کوئی شک نہیں کہ این ٹی ایس کے ذریعے بھرتی ہونے والے اساتذہ اپنے پہلے دن سے ہی مسائل کا شکا رنظرآئے۔جیسے ان بے چاروںکوتنخواہ کی ادائیگی تب کی جاتی ہے جب ان کا محکمہ تعلیم کے ساتھ ایک سال کا کنٹریکٹ پوراہونے کو ہوتا ہے، ایسے میں ایک طر ف بے چارہ استاد خوشی کے مارے نڈھا ل تو دوسری جانب پریشان نظرآتا ہے کیونکہ اگلے ہی ماہ سے ان بے چاروںکی تنخواہیں کنٹریکٹ پوراہونے کی وجہ سے بند کردی جاتی ہے۔

یوں ساراسارادن سکول میں اپنے فرائض سرانجام دینا والا استاد جب سکو ل کے بعد دفتروںکے چکر کاٹتا ہے تب کلرک صاحبان دفتر سے رخصت ہوچکے تھے،یوں مذکورہ استاد کو ایک بار پھرسے چارسے پانچ تک تنخواہوںکی بندش کا سامنا رہتاہے ،او رایسا گزشتہ تین سالوں سے جاری ہے۔بہرحال صوبائی حکومت نے جاتے جاتے ان بے چاروںکو مستقل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کے لئے ٹیوٹا کے چیئرمین صاحبزادہ سعید کی سربراہی میںایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔جس نے سفارشات مرتب کرکے قریباً40ہزاراساتذہ کو مستقل کرنے کا باقاعدہ ڈرافت تیارکرلیا ہے۔جسے رواں ماہ کے آخر میں صوبائی اسمبلی سے منظورکرلیا جائے گا جس سے مذکورہ اساتذہ کے مسائل قریباً حل ہو جائیں گے۔اس سے ایک طرف ان بے چاروںکے سروںپر لٹکتی ہوئی کنٹریکٹ کی تلوارکا خطرہ ٹل جائے گا تو دوسری جانب انہیں محکمہ تعلیم میں کلرک صاحبان سے چھٹکارا حاصل ہوگا۔کیونکہ مذکورہ اساتذہ کے مطابق انہیں زیادہ پریشانی محکمہ تعلیم کے کلرک صاحبان کی بدولت اٹھانی پڑتی ہے۔

دفاتر میں کام کی انتہائی سست رفتا ر سے مذکورہ اساتذہ گزشتہ تین سالوںسے تنخواہوںکی بندش کا سامنا کرناپڑتاہے۔جسے جلد صوبائی حکومت مستقل کرکے حل کرنا چاہتی ہے۔چلیں دیر آست درآست کے مصداق صوبائی حکومت نے اساتذہ کو ان کا جائز حق دینے کا فیصلہ بھی کرلیاہے۔حالانکہ گزشتہ ماہ اخباری خبروں میں صوبائی حکومت کو سول سرونٹ ایکٹ بارے بڑی حد تک تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ جس میں اساتذہ کو سول سرونٹ کی بجائے پبلک سرونٹ قراردیا جانے کا قومی امکان تھا۔تاہم صوبائی حکومت نے حالات کی نزاکت کو مدنظررکھتے ہوئے بروقت فیصلہ واپس لیا جس سے صوبہ بھرکے اساتذہ میں پائی جانے والی بے چینی قدرے کم ہوئی۔حالانکہ صوبائی حکومت کی جانب سے ابھی تک واضح الفاظ میں ایکٹ کے ختم ہونے کی خبر سننے کو نہیںملی ۔تاہم اس پر فی الحال خاموشی ضرور اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اس بارے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے پارٹی سربراہ عمران خان سے باضابطہ ملاقات کے دوران ایکٹ پر تفصیلی بریفنگ بھی دی تھی جس پر خان صاحب نے فی الحال اساتذہ سے پنگا نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔بعدازاں وزیر اعلیٰ کی زیر صدارت ہونے والے ایک اجلاس میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جسے جلدازجلد ڈرافٹ تیار کرنے کی ہدایت دی گئی ،جس نے ایک ہفتہ کے دوران اساتذہ کے لئے باقاعدہ ڈرافٹ تیارکرلیا جسے رواں ماہ صوبائی اسمبلی سے منظور کرلیا جائے گا۔یاد رہے کہ ڈرافٹ میں 40ہزار اساتذہ کی مستقلی،سکول بیسڈ پالیسی ،ٹائم سکیل وغیرہ شامل ہیں۔جوکہ صوبہ بھر کے اساتذہ کا دیرینہ مطالبہ رہاہے۔حالانکہ یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب کسی بھی حکومت نے اساتذہ کے مطالبات ماننے کی بجائے محکمہ تعلیم میںاصلاحات کے نام پر کھلواڑکیا ہو۔جیسے موجودہ صوبائی حکومت نے تبدیلی کے نام محکمہ تعلیم کو ایک تجربہ کے سوا کچھ نہیں سمجھا ،بنایا۔جس کی وجہ سے محکمہ تعلیم ،اساتذہ کرام اور خاص طورسے قوم کے نونہال ایک عجیب کشمکش سے دوچارہوئے۔صوبائی حکومت نے اپنے دورہ حکومت میںپہلے ”تعلیم سب کے لئے” کا نعرہ لگایا جسے بعدازاں عملی جامہ پہنانے کے لئے صوبہ گیر بھرپور مہم بھی چلائی گئی ،تاہم صوبائی حکومت اپنے مذکورہ اقدامات کی بدولت بھی صوبہ میں شرح خواندگی کی عالمی سطح کو پہنچنے سے یکسر قاصر نظر آئی۔

اس کے بعد صوبائی حکومت نے اپنے دوسرے نعرہ”پڑھے گا پختونخوا ،بڑھے گا پختونخوا ”کا بھر پور آغازکیا،اسی کے ساتھ ”یکساں نظام تعلیم ”جیسے اقدامات بھی شروع کئے گئے ،تاہم گراس روٹ لیول پر غربت کے خاتمہ کے لئے کسی بھی قسم کے اقدامات کی عدم موجودگی نے صوبائی حکومت کو مشکلات سے دوچار کیا ۔جس سے اب تک صوبائی حکومت صر ف اخباری خبروں اور اشتہارات تک تبدیلی دکھانے اور ثابت کرنے میں مصروف نظرآتی ہے۔بہرحال جاتے جاتے صوبائی حکومت اگراپنے تبدیلی کے نعرہ کو عملی جامہ پہناناچاہتی ہے تو اسے ضروربالضرور اساتذہ کے دیرینہ مطالبات کوتسلیم کرناہوگا۔دریں اثناء عام انتخابات میں چند ہی ماہ باقی ہیں۔کہ جس میں پاکستان تحریک انصاف کے خواب چکناچور ہوجانے کا اندیشہ ہے،اس لئے وقت سے پہلے مثبت اقدامات کی ضرورت ہے۔

Waqar Ahmad

Waqar Ahmad

تحریر : وقار احمد اعوان

The post اساتذہ کے مسائل ہو جائیں گے appeared first on جیو اردو.

کراچی: سیکیورٹی فورسز کی کارروائی؛ انصارالشریعہ کے امیر سمیت 8 دہشت گرد ہلاک

$
0
0
Rangers Operation

Rangers Operation

بلدیہ (جیوڈیسک) کراچی کے علاقے بلدیہ میں رینجرز اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی کارروائی کے دوران کالعدم انصارالشریعہ کے امیر سمیت 8 دہشت گرد مارے گئے۔

ترجمان رینجرز کے مطابق کالعدم انصارالشریعہ کے دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاعات پر بلدیہ ٹاؤن کے علاقے رئیس گوٹھ میں سی ٹی ڈی اور رینجرز نے گزشتہ رات 11 بجے مشترکہ کارروائی کی۔

اس موقع پر دہشت گردوں نے سیکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کر دی اور دو طرفہ فائرنگ کے تبادلے میں 5 دہشت گرد موقع پر ہلاک اور 3 زخمی ہوگئے جنہیں حراست میں لے لیا گیا۔

ترجمان رینجرز کا کہنا ہے کہ زخمی دہشت گردوں کو اسپتال منتقل کیا جارہا تھا کہ وہ راستے میں ہی دم توڑ گئے۔

رینجرز کے ترجمان کے مطابق ہلاک دہشت گردوں میں شہریار عرف ڈاکٹر عبداللہ ہاشمی بھی شامل ہے جو کالعدم انصارالشریعہ کا امیر اور دہشت گرد حملوں کا ماسٹر مائنڈ تھا۔

ترجمان رینجرز کے مطابق ایک اور ہلاک دہشت گرد کی شناخت ارسلان بیگ کے نام سے ہوئی ہے جو کالعدم انصارالشریعہ کی ٹارگٹ کلنگ ٹیم کا حصہ تھا۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ ہلاک دیگر دہشت گردوں کی شناخت کا عمل جاری ہے جن سے متعلق تفصیلات رینجرز کی پریس بریفنگ میں دی جائے گی۔

The post کراچی: سیکیورٹی فورسز کی کارروائی؛ انصارالشریعہ کے امیر سمیت 8 دہشت گرد ہلاک appeared first on جیو اردو.

ایڈو آئی ہسپتال کی فلاحی خدمات قابل ستائش ہیں، دکھی انسانیت کی خدمت کرنے والے عظیم لوگ ہیں، محمد ادریس میاں

$
0
0
Mian Mohammad Idrees

Mian Mohammad Idrees

ٹیکسلا (تحصیل رپورٹر) ایڈو آئی ہسپتال کی فلاحی خدمات قابل ستائش ہیں، دکھی انسانیت کی خدمت کرنے والے عظیم لوگ ہیں، فلاحی کاموں میں میرا تعاون ایڈو کو ہمہ وقت حاصل رہے گا،ان خیالات کا کنٹڑولر ملٹری اکاونٹس پی او ایف واہ محمد ادریس میاں نے امراض چشم اور بحالی نابینا افراد پر کام کرنے والی واہ کینٹ کی معروف این جی او ایڈو آئی ہسپتال کے دورہ کے موقع پر منتظمین سے خصوصی گفتگو کے دوران کیا،ایڈو آئی ہسپتال آمد پر تنظیم کے سینئر نائب صدراور منتظم اعلیٰ سیّد عبداللہ مسعود اور جوائنٹ سیکریٹری عمران احمد نے اُن کا استقبال کیا بعد ازاں مہمان خصوصی کو ایڈو کی جانب سے عوام الناس کو مہیا کی جانے والی جملہ سہولیات سے آگاہ کیا گیا، جبکہ بصارت سے محروم بچوں کو دی جانے والی تعلیم و تربیت کے حوالے سے بھی کنٹرولر ملٹری اکاونٹس محمد ادریس میاں کو مکمل بریفنگ دی گئی، انھوں نے ایڈو ہسپتال کے مختلف شعبہ جات کا معائنہ کیا،اور بہترین انتظامات کی تعریف کی۔

کنٹڑولر ملٹری اکاونٹس نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہبہت جلد دوبارہ ایڈو آئیں گے اور ایک دن مریضوں اور نابیناطلبا و طالبات کیساتھ گزاریں گے، جبکہ ایڈو کے فلاحی اور رفاہی کاموں میں انکا ہر قسم کا تعاون انھیں درکار ہوگا،ایڈو آئی ہسپتال آمد پرپروٹوکول آفیسر سی ایم اے جاوید ملک اعوان ، آئی سی اے محمد علی، چیئرمین یونائیٹڈ ایمپلائز گروپ فیض احمد صدیقی بھی انکے ہمراہ تھے، سینئر نائب صدر سیّد عبداللہ مسعود نے مہمان خصوصی کاایڈو آمد پر اُن کا شکریہ ادا کیا۔

ڈاکٹر سید صابر علی تحصیل رپورٹر ٹیکسلا ِ، واہ کینٹ 0300-5128038

The post ایڈو آئی ہسپتال کی فلاحی خدمات قابل ستائش ہیں، دکھی انسانیت کی خدمت کرنے والے عظیم لوگ ہیں، محمد ادریس میاں appeared first on جیو اردو.

ہڈیوں کی کمزوری

$
0
0
Bone Weakness

Bone Weakness

تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا
انسان کا جسم جو اشرف المخلوقات ہے ۔دیگر مخلوقات کی طرح گوشت پوست خون اور ہڈیوں کا ڈھانچہ ہے۔ انسانی خدو خال کی چمک دھمک یا خوبصورتی کا دارومداد نقش و نگار پر محیط ہے وہاں ہڈیوں کی بناوٹ ہڈیوں کا صحیح نشونماکا عمل دخل ہے۔ ہڈیوں کی مظبوطی خوبصورتی اور تندرستی کی ضامن ہے۔ ہر سال اکتوبر میں ہڈیوں کا ایک دن منایا جاتا ہے جس کا بنیادی مقصدر مخلوقِ خدا کو ہڈی کی اہمیت اور ہڈی کے امراض بلخصوص ہڈیوں کی کمزوریوں کے متعلق آگاہی دی جاتی ہے تا کہ اس موزی مرض کا بروقت مقابلہ کیا جا سکے۔جدید ریسرچ بتاتی ہے کہ ہڈیوں کی کمزوری یا آسٹیو پوروسز کو خاموش مرض کہا جاتا ہے جس کا احساس ہونا لگ بھگ ناممکن ہوتا ہے۔ اس مرض کے دوران ہڈیوں کی کثافت کم ہوجاتی ہے اور وہ کمزوری کا شکار ہو جاتی ہیں۔

ہر دو میں سے ایک خاتون اور ہر چار میں سے ایک مرد اس کا شکار ہوتا ہے اور ہڈیاں ٹوٹنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔تاہم آسٹیو پوروسز کی ان خاموش علامات سے واقف رہ کر آپ اس خطرے کو کم کرسکتے ہیں۔ وہ علامات جو ہڈیوں کی کمزوری میں ظاہر ہو سکتیں ہیں مثلاً

(الف )قد چھوٹا ہوجانا۔ جب کسی فرد کو ہڈیوں کی کمزوری کا مرض لاحق ہوتا ہے، تو اس کے نتیجے میں قد میں کمی ہونے لگتی ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوانی کے قد سے اپنے موجودہ قد کا موازنہ کریں، خواتین میں عام طور پر اس مرض کے نتیجے میں ڈیڑھ انچ جبکہ مردوں میں دو انچ تک کمی آتی ہے۔

( ب ) دانت ٹوٹنا جب جبڑے کی ہڈی کمزور ہو تو دانت باہر گرنے لگتے ہیں، اگرچہ دانتوں سے محروم ہونا آسٹیو پوروسز کی علامت ہوسکتا ہے مگر یہ کوئی لازمی علامت بھی نہیں، اگر دانت ٹوٹ رہے ہوں تو اپنے ڈاکٹر سے بات کریں اور اس کے کہنے کے مطابق ہڈیوں کا ٹیسٹ کروائیں۔

( ج)بیٹھنے یا کھڑے ہونے کا ناقص انداز: اگر ریڑھ کی ہڈی میں موجود ہڈیاں جسمانی وزن کو سپورٹ نہیں کرپاتیں، وہ تو خم کھانے لگتی ہیں، اور انسان کچھ کبڑے پن کا شکار ہوجاتا ہے، یہ ہڈیوں کی کمزوری کی واضح علامت ہوتی ہے۔

(د) خاندانی طور پر ہڈیوں کا کمزور ہونا۔ خاندان میں کوئی آسٹیوپوروسز کا مریض ہے تو آپ کے اندر بھی اس کی تشخیص ہوسکتی ہے، طبی ماہرین کے مطابق جینز یقیناً اس حوالے سے کردار ادا کرتے ہیں مگر اس کا انحصار متعدد عناصر پر ہوتا ہے۔ اگر آپ کا کوئی پیارا اس کا شکار ہو تو ابتدائی علامات کے ساتھ ہی ہڈیوں کی اسکریننگ کروالیں۔

(ر)کیلشیئم کی کمی اگر ہڈیوں میں کیلشیئم اور منرلز کی کمی ہوجائے تو یہ آسٹیو پوروسز کی خاموش علامت بھی ہوسکتی ہے اور ہڈیاں کمزور ہوجاتی ہیں۔

(ک) کمزور ہڈی کی علامت ہے ! سیڑھی سے چھلانگ مار کر اتریں اور ایک یا دو ہڈیاں ٹوٹ جائیں، جبکہ ایسا ہونا عام طور پر ممکن نہ ہو تو یہ آسٹیو پوروسز کی واضح علامت ہوتی ہے۔ معمولی بلندی سے چھلانگ پر فریکچر ہونے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہڈیاں بہت کمزور ہوچکی ہیں اور آپ کو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے

(گ) یاد رکھنے کی باتیں

جدید طبی تحقیق چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ جوڑوں اور ہڈیوں کی بیماریاں اچانک نہیں گھیر لیتیں بلکہ اس میں بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں جیسے نوعمری اور جوانی میں ان تکالیف کا تدارک نہ کرنا جو بڑھاپے میں پیش آسکتی ہیں۔ عمر کے حساب سے غیرمتوازن خوراک کا استعمال کرنا، چوٹ لگنے پر پروا نہ کرنا، انسانی جسم کی استعداد سے بڑھ کر کام کرنا وغیرہ شامل ہے۔ اس کے علاوہ جوڑوں اور ہڈیوں کی بیماریوں کی ایک وجہ والدین سے نقص شدہ ڈی این اے کا بچے میں منتقل ہونا، لاپروائی برتنے سے بدن کے ڈھانچے کا متاثر ہونا، اعضا میں پیدائشی نقائص یا ایسا کام جس میں جوڑوں پر دبائو رہے، پریشان رہنا اور ذہنی دبائو میں گھرے رہنا شامل ہے۔ جوڑوں اور ہڈیوں کے درد کو معمولی سمجھ کر نظرانداز کردینا بہت سی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے۔ اگر ڈاکٹر اس کی وجہ کیلشیم کی کمی بتاتا ہے تو چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ پالک، شلجم، مچھلی، تل اور بادام کا استعمال کیا جائے۔ ایک پیالی دودھ روزانہ اور ناشتے میں گندم یا جو کا دلیہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ کیلشیم کی کمی کی وجہ سے ہڈیوں کی مضبوطی متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ دوسرا بڑا عنصر میگنیشم ہے جو ہڈیوں میں 90فی صد پایا جاتا ہے۔

میگنشیم دوسری دھاتوں کو ہڈیوں کا جزوبننے میں مدد دیتا ہے اس کی عدم موجودگی میں یہ ممکن نہیں ہوتا۔ اس کی کمی کے علاج کے طور پر سویابین، جھینگا، مونگ پھلی، سبزیاں اور اناج استعمال کرنا چاہیے، میگنشیم کی کمی سے گھٹنے کم زور رہتے ہیں اورسیدھی طرف کا کندھا اتنا سخت ہوجاتا ہے کہ مریض اسے اٹھا نہیں سکتا۔ چال میں لڑکھڑاہٹ اور کپکپاہٹ ہوتی ہے بازوئوں میں دردرہتا ہے اور بجلی کا جھٹکا سالگتا ہے ہڈیوں کا ایک اور اہم جزو زنک ہوتا ہے جو ہڈیوں کی نشوونما کا ذمے دار ہوتا ہے۔ زنک کی کمی کی صورت میں مٹر، پھلیاں، سبزیاں، ادرک، مونگ پھلی انڈا، گوشت، دودھ، دہی، خربوزے اور تربوز کے بیج کے علاوہ چاروں مغز کی تھوڑی مقدار روزانہ استعمال کرنی چاہیے۔ اس طرح ہڈیوں کے درمیان کا چکنائی والا مادہ کم زور ہوجائے تو ہڈیاں حرکت کے دوران اٹکنے اور پھٹنے لگتی ہیں خاص طور پر انگوٹھے کی حرکت متاثر ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر ہڈیوں سے تانبے کی کمی ہوجائے تو کلیجی، گردے، مونگ پھلی اور چیری کھانی چاہیے۔ کمر میں مفلوج کردینے والا درد ہو تو سمجھ لیں کہ سلینیم کی کمی ہے۔ اس صورت میں ہڈیوں کو مطلوبہ آکسیجن نہیں مل رہی ہوتی اس کے لیے بھی کلیجی، دل، گردے، سبزیاں، لہسن اور دودھ کا استعمال بڑھا دینا چاہیے اور اگر کہنیوں اور کندھے میں درد ہو۔ ہاتھ پائوں میں سوئیاں چبھنے کا احساس ہوتو ہڈیوںکے گودے میں خون بننے کا عمل سست ہونے کی نشانی ہے۔ جوکہ فاسفورس کی کمی کی نشاندہی ہے اس کے علاوہ پوٹاشیم بھی ہڈیوں کا ایک اہم جزو ہے۔ جوکہ اعصاب اور پٹھوں کو کم زور نہیں ہونے دیتا۔ وزن کی مناسبت سے ایک فرد کو روزانہ پوٹاشیم کی مقررہ مقدار کی ضرورت ہوتی ہے، اگر کسی شخص کی ہڈیوں کے جوڑوں کے گردورم ہو، جوڑوں میں چلنے کے دوران یا حرکت سے درد ہوتا ہو اور لکھنے کے دوران ہاتھوں میں سختی آجاتی ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ پوٹاشیم نمک ہڈیوں سے کم ہورہا ہے۔ اس نمک کی کمی سے پیدا ہونے والی علامات کے علاج کے دوران سویابین، بڑا گوشت، پھل، سبزسبزیوں اور سبز پھلوں سے بنی سلاد اور دودھ کا استعمال مفید رہتا ہے۔ بدن کو تقریباً 900ملی گرام روزانہ پوٹاشیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ دیگر غذائوں سے بھی پوٹاشیم کی کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ ہڈیوں کے امراض میں مریض کو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے اور پابندی سے ادویہ استعمال کرنی چاہییں۔ ساتھ میں معالج کی ہدایت کے مطابق بتائی گئی غذا کا استعمال جاری رکھیں۔ یادرکھیے ہڈیوں کے مرض میں ذراسی لاپروائی مریض کی پوری زندگی کو متاثر کرسکتی ہے۔

( ل) آخر میں اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں

صحت اللہ پاک کا بہت بڑا ایمان کے بعد تحفہ ہے۔ اپنی آخرت کے لئے ایمان کی حفاظت اور صحت کے لئے حفظان صھت کے قوانین پر عملدرآمد ہی آخری حل ہے۔ تندرستی کی حالت میں اللہ پاک کا شکر اور بیماری کی حالت میں صبرسے ہی نجات ممکن ہے۔ جلدی سونا اور صبح سویرے بیدار ہونا اور صبح کی ورزش کو معمول بنا کر ہم چست و چالاک اور تندرست رہ سکتے ہیں۔ رات سونے سے قبل ایک گلاس دودھ پینا امراض ہڈیوں سے بچاؤ کے لئے نعمت خداوندی ثابت ہوگا۔ان شااللہ ۔اللہ پاک مخلوق خدا کو موزی امراض سے بچائے رکھے آمین۔

Dr Tasawar Hussain Mirza

Dr Tasawar Hussain Mirza

تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا

The post ہڈیوں کی کمزوری appeared first on جیو اردو.

محکمہ صحت پنجاب

$
0
0
Department of Health Punjab

Department of Health Punjab

تحریر : چوہدری ذوالقرنین ہندل
تندرست و توانا شریر و جسم ہی توانا ذہن کو تعمیر کرتا ہے اور ذہن ایک مثبت سوچ کو جنم دیتا ہے ،تعلیم اس مثبت سوچ کو وہ راہ دکھاتی ہے جو قوم و وطن کو بہتری کی راہ پر گامزن کرے۔افسوس کہ ہمارا معاشرہ تو تعلیم اور صحت دونوں میں بہتری نہ ہونے کی بدولت نفسیاتی بیماری و کشمکش میں مبتلا ہے۔یہی کشمکش ہماری قوم کو دیمک کی طرح کھائے جا رہی ہے۔

تندرستی ہزار نعمت ہے! اس فقرے کا اندازہ ان لوگوں کو ہے جن کے گھر کی خوشیوں کو کسی مہلک بیماری نے گھیر لیا ہے اور ان کا اپنا پیارا کوئی مریض ہے۔بے بسی کا یہ عالم دیکھئے کہ کوئی بڑا طاقتور شخص بھی ہسپتال کی ہوا کھانے کے بعد اس نتیجے کو پہنچتا ہے کہ یا اللہ ہسپتال کا منہ تو کسی دشمن کہ بھی نہ دکھانا۔مرنا تو سب نے ہی ہے مگر پاکستان میں ہسپتالوں کی دیواروں سے لپٹے مریض اور فرشوں پر تڑپتے لوگ دیکھ کر تو اچھا خاصا تندرست شخص بھی بے چینی و مایوسی کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔یقین سے ہر شخص یہی دعا کرتا ہے یا اللہ ہمیں اس دنیا سے چلتے پھرتے ہی اٹھانا اور ہسپتالوں کے اس چکر سے بچانا۔ہسپتال بھی ایک قسم کا بوجھ ہے جسے اٹھانا کسی کی بھی خواہش نہیں ہر فرد اس سے میلوں دور رہنا چاہتا ہے۔اچھے ممالک میں اتنی دیر تک کوئی مریض ڈسچارج نہیں کیا جاتا جب تک وہ مکمل صحت یاب نہ ہوجائے۔ایسے ممالک میں لوگوں کی صحت کے شعبے سے منسلک پریشانیاں بہت کم ہوں گی۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ہر روز ہر ہزار میں سے ساڑھے سات فیصد لوگ زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔

کچھ کا وقت بیت چکا ہوتا ہے باقی مہلک بیماریوں اور روزمرہ کے حادثات کی نظر ہوجاتے ہیں۔پاکستان میں ناقص غزا اور ملاوٹ نے لوگوں کی زندگیوں میں زہر گھول دیا ہے،جس کے باعث ہمارے ہسپتال کھچا کھچ بھرے رہتے ہیں اور یہاں تک کہ ایمرجنسی کی صورتحال میں بھی بہت سی جانیں صرف اسی لئے گنوا دی جاتی ہیں کہ قریب کوئی ہسپتال نہیں ملا ،ملا تو ہسپتال میں مریض کے لئے جگہ نہ ملی۔پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہے جس کی آبادی گیارہ کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔پنجاب زراعت و صنعت کے وسائل سے مالا مال ہے۔یہ کہنا بجا ہوگا کہ پنجاب ترقی یافتہ ہے اور باقی صوبے ترقی پذیر ہیں۔اس میں ضرور پنجاب حکومت کا بھی کردار شامل رہا ہوگا۔بات محکمہ صحت کی ہو تو اس میں بھی پنجاب حکومت سر فہرست دکھائی دیتی ہے یہاں تک دوسرے صوبوں کی مدد کو بھی پہنچتی ہے۔ایسے ہی اپنے صوبے میں بھی محکمہ صحت کی بہتری کے دعوے بھی اپنے اپنے دور میں حکومتیں کرتی رہیں۔یہ دعوے تو ہمیشہ ہر دور میں ہنگامی صورتحالوں میں عیاں ہوتے رہے مگر دیکھنے والا میڈیا معاملے کو ہمیشہ سے ہی ذرا دیر سے بھانپتا ہے۔

قارئین آپ کا ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ کسی نہ کسی سرکاری ہسپتال سے واسطہ تو پڑا ہوگا، اور آپ کو باخوبی علم ہوگا کہ محکمہ صحت کیسے مسائل سے دو چار ہے اور گورنس کے دعوے کتنے جھوٹے ہیں۔یقین کیجئے جتنی مرتبہ بھی کسی مریض کی عیادت کے لئے کسی سرکاری ہسپتال میں گیا وہاں کا عالم اور لوگوں کی بے بسی دیکھ کر دل ہی دل میں حکومتی ذمہ داران کوبرا جانا۔یاد رکھئے کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں بنیادی چیزیں صحت و تعلیم ہوتی ہیں،یہی وجہ ہے کہ دنیا ان پر سمجھوتہ نہیں کرتی۔ایسے اداروں کو تحویل میں رکھ کر ان کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے، تا کہ عوام ان سہولتوں سے محروم نہ ہو اور ملکی ترقی کی رفتار جاری رہے۔ مگر ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں بلکہ ان دو محکموں کو ہی زیادہ نظر انداز کیا جاتا ہے، افسوس کہ گزشتہ روز لاہور گنگا رام ہسپتال کے باہر راہداری پر مجبور عورت نے بچے کو جنم دے دیا۔تفصیلات کے مطابق خاتون کو رات کے وقت ہسپتال لایا گیا مگر رات کو بیڈ نہ مل سکا صبح ہو گئی اور خاتون کی حالت بگھڑ گئی اس نے ایم ایس کے دفتر کے سامنے بچے کو جنم دے دیا۔ایک ہفتہ یہلے ایسا واقعہ رائیونڈ میں پیش آیا۔ایسے کئی واقعات اور بھی ہوں گے جو ہم سب اور میڈیا کی نظر میں نہیں آئے۔وزیر اعلی نے سخت ایکشن لیا مگر اب کیا حاصل کیا فائدہ محکمہ صحت کی اصلیت تو عیاں ہو چکی دنیا بھر میں پاکستان کی سبکی ہوئی،یہ نامی کلامی ایکشن ہونی کو واپس لا سکتے ہیں ؟وہ جن کے عزیز تڑپ تڑپ کر مرگئے ان کے دلوں میں پیدا محرومیاں کون ختم کرے گا؟ ۔کوئی نہیں کیونکہ سب اقتتدار کے لالچی ہیں ان کے نزدیک انسانیت کی کوئی قدر نہیں ۔ان کے اپنے تو برطانیہ میں کسی نامور ہسپتال و ڈاکٹر سے علاج کروا لیں گے مگر غریب یونہی گزشتہ برسوں کی طرح ہسپتالوں کی دیواروں سے چمٹے مرتے رہیں گے۔

جناب اعلی فقط ایک ایکشن سے کیا حاصل؟ یہاں تو پورا کا پورا محکمہ ہی توجہ طلب ہے۔پنجاب میں ہسپتالوں کی کمی ایک المیہ بن چکا ہے ،جسے ہماری حکومتیں برسوں سے نظر انداز کرتی آرہی ہیں۔ جس کی بدولت پرائیویٹ مافیا سرگرم عمل ہے اور کسی غریب کے لئے علاج کروانا یونہی ہے جیسے جائیدادیں بیچ کر زندگی کے چند سانس خریدنا۔ہر دوسرے روز کوئی نہ کوئی مریض بروقت بیڈ نہ ملنے یعنی ہسپتال میں جگہ نہ ملنے کے باعث تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے،اور اس کے پیارے اپنی اس بے بسی کو دیکھ کر خود مریض بن جاتے ہیں اور برسوں خود کو اور پاکستان کو کوستے رہتے ہیں۔ہمارے اکثر سرکاری ہسپتالوں کا تو کوئی معیار ہی نہیں مگر جن چند ہسپتالوں کا معیار بہتر ہے وہاں علاج کے لئے مہینوں کا وقت ملتا ہے اکثر بے چارے لوگ تو مقررہ وقت سے پہلے ہی کسی پرائیویٹ ڈاکٹر کے ہاتھوں اپنی جمع پونجی گنوا بیٹھتے ہیں اور اکثر مریض تو علاج کے مقررہ وقت سے پہلے ہی ایسی سیرئیس حالت بیماری میں پہنچ جاتے ہیں جن کا بچنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ایسے حالات میں لوگ کریں تو کیا کریں ،جائیں تو کہاں جائیں؟ذرا سوچئے!

Zulqarnain Hundal

Zulqarnain Hundal

تحریر : چوہدری ذوالقرنین ہندل

The post محکمہ صحت پنجاب appeared first on جیو اردو.


شہداء کربلا نے دین اسلام کے لئے عظیم قربانی کی مثال قائم کی۔ شہیر سیالوی

$
0
0
Shaheer Sialvi

Shaheer Sialvi

اسلام آباد : صدر اسٹیٹ یوتھ پارلیمنٹ شہیرسیالو ی نے کہا کہ شہداء کربلا نے اسلام کی سربلندی اور بقا کے لئے میدان کربلا میں عظیم قربانی کی داستان رقم کی جو تاقیامت یاد رکھی جائے گی امام حسین اور اُن کے رفقاء نے اسلام کو متحد اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ و تابندہ کردیا،امام حسین اور شہداء کربلا کی عظیم قربانی ہمیں ظالم قوتوں کے سامنے ڈٹ جانے اور اسلام کی سربلندی اور بقاء کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا درس دیتی ہے۔

شہیرسیالو ی نے کہاکہ ہمیں فلسفہ حسینی کو نہ صرف اپنانے بلکہ اس پر عمل کرتے ہوئے لادین اور وطن کے دشمنوں کے سامنے ڈٹ جانے کا درس دیتی ہے انہوںنے کہاکہ فلسفہ حسینی کو عام کرنے کی ضرورت ہے جب ہی ہم معاشرے سے ظلم و بربریت کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔

The post شہداء کربلا نے دین اسلام کے لئے عظیم قربانی کی مثال قائم کی۔ شہیر سیالوی appeared first on جیو اردو.

نواز لیگ پر دور ابتلاء

$
0
0
Captain Mohammad Safdar,Nawaz Sharif, Maryam Nawaz

Captain Mohammad Safdar,Nawaz Sharif, Maryam Nawaz

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر پر فردِ جرم عائد ہو چکی۔ احتساب عدالت انتہائی تیزی کے ساتھ اِس ریفرنس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے رواں دواں ہے ۔کیونکہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اُسے بہرحال 19 مارچ 2018ء سے پہلے ریفرنس کا فیصلہ کرنا ہے،اِس لیے احتساب عدالت چھوٹی موٹی قانونی موشگافیوں کو خاطر میں نہیں لا رہی۔ طلال چودھری کہتے ہیں ”نامکمل ریفرنس پر فردِ جرم عائد نہیں ہو سکتی”۔ بھائی ! کبھی آپ نے سُنا یا پڑھا کہ اقامہ پر کسی ایسے وزیرِاعظم کو نااہل قرار دے دیا جائے جو پاکستان کی تاریخ کا واحد تین بار کا منتخب وزیرِاعظم ہو؟۔ یہ پاکستان ہے اور یہاں زورآوروں کا حُسنِ کرشمہ ساز جو چاہے کر سکتا ہے۔ میاں نوازشریف کی نااہلی تو ہو چکی ،اب سوال تو یہ ہے کہ کیا نوازلیگ اپنے وجود کو بچا بھی پائے گی یا نہیں۔ بظاہریہی نظر آ رہا ہے کہ زورآور صرف شریف خاندان ہی نہیں ،پوری نوازلیگ کو ہی سیاسی منظر نامے سے ”آؤٹ” کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُس پر چاروں طرف سے یلغار کی سی کیفیت ہے اور میاں نوازشریف ”چَومُکھی” لڑائی لڑ رہے ہیں۔

باوجودیکہ ڈی جی آئی ایس پی آر دوٹوک کہہ چکے کہ ملک میں مارشل لاء آئے گا نہ ٹیکنوکریٹس کی حکومت لیکن ٹیکنوکریٹس حکومت کی سرگوشیاں اب بھی پاکستان کی فضاؤں کو مسموم کر رہی ہیں۔ ہمارے تجزیہ نگار اپنے ارسطوانہ تجزیوں میں قومی حکومت کی ضرورت پر اپنا سارا زور صرف کر رہے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے تجزیہ نگاروں نے اپنا اپنا قبلہ اور اپنا اپنا کعبہ منتخب کر رکھا ہے۔ اب تو صورتِ حال یہ ہے کہ کسی تجزیہ نگار کا نام سنتے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ وہ کِس سیاسی جماعت کی بولی بولے گا۔ پیپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف کی شدید ترین خواہش ہے کہ نوازلیگ کی حکومت کو مارچ 2018ء سے پہلے گھر بھیج دیا جائے تاکہ وہ مارچ میں منعقد ہونے والے سینٹ کے انتخابات میں اکثریت حاصل نہ کر سکے لیکن چونکہ فی الحال مارشل لاء کا کوئی امکان نہیں،اِس لیے سارا زور قومی حکومت پر صرف کیا جا رہا ہے۔ میاں نوازشریف کا ایک دفعہ پھر مسلم لیگ نون کی قیادت سنبھالنا دیگر سیاسی جماعتوں کو ہضم نہیں ہو پا رہا،اِس لیے دیگر جماعتیں آگ اُگلتے ہوئے طنز کے تیر برسا رہی ہیں۔ محترم عمران خاںنے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر وہ نااہل ہو گئے تو تحریکِ انصاف کی قیادت چھوڑ کر خاموشی سے گھر چلے جائیں گے ،یہ نہیں کہیں گے کہ ”مجھے کیوں نکالا”۔ کپتان صاحب کے ماضی کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ نااہلی کی صورت میں بھی وہ ”یوٹرن” لے لیں گے کیونکہ یوٹرن لینے میں اُنہیں ذرا بھی جھجک محسوس نہیں ہوتی۔

بلاول زرداری کہتے ہیں کہ 2018ء کے انتخابات کے بعد عمران خاں بھی اصغر خاں بن کر منصّۂ شہود سے غائب ہو جائیں گے۔ ہمارا بھی یہی خیال ہے اور ہم اپنے کئی کالموں میں اِس کا ذکر بھی کر چکے ہیں۔ سوال مگر یہ کہ کیا عمران خاں کے اصغر خاں بن جانے سے پیپلزپارٹی برسرِاقتدار ّ جائے گی؟۔ ہمیں وہی گھِسا پِٹا لطیفہ یاد آگیا کہ جاٹ کے بیٹے نے اپنے باپ سے پوچھا، ابّا ! اگر بادشاہ مر جائے تو پھر کون بادشاہ بنے گا؟”۔ جاٹ نے جواب دیا ”پُتّر ! بادشاہ کا بیٹا”۔ بیٹے نے کہا ”اگر وہ بھی مر جائے تو پھر؟”۔ جاٹ نے کہا ”پھر اُس کا بیٹا”۔ جب جاٹ کے بیٹے نے چار، پانچ مرتبہ یہی سوال دہرایا تو جاٹ نے زچ ہو کر کہا ”پُتّر! ساری دُنیا دے بادشاہ مَر جاون ،فیر وی جَٹ دا پُتر بادشاہ نئیں بن سکدا”۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اب پیپلزپارٹی کے لیے اقتدار سہانا خواب ہی رہے گا کیونکہ اُس میں اندرونی طور پر اتنی ٹوٹ پھوٹ ہو چکی ہے کہ وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قصّّۂ پارینہ بنتی جائے گی۔ ویسے بھی سوائے قمر الزماں کائرہ کے پیپلزپارٹی کے سارے نامی گرامی ”پہلوان” تو تحریکِ انصاف میں ”پھُر” ہو چکے، شہیدوں کا” فیکٹر ” اب کام آنے سے رہا، تو پیپلز پارٹی کِس برتے پہ اقتدار کے خواب سجائے بیٹھی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ”زورآور” اب دینی جماعتوں کی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیںتاکہ اگر تمامتر کوششوں کے باوجود نوازلیگ متحد رہتی ہے تو کوئی تو ہو جو اُس کا مقابلہ کر سکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں متحدہ مجلسِ عمل جیسا کوئی اتحاد وجود میں آنے والا ہے جو 2018ء کے انتخابات میں بھرپور حصّہ لے گا۔

ملین ڈالر سوال تو یہ ہے کہ کیا چاروں طرف سے گھری نوازلیگ اپنا وجود بچا پائے گی؟۔ ہم سمجھتے ہیں کہ میاں نوازشریف کی پاکستان میں موجودگی (خواہ وہ جیل میں ہی کیوں نہ ہو) نوازلیگ کو متحد رکھے گی اور 2018ء کے انتخابات میں کامیابی بھی اُسی کے قدم چومے گی۔ یہی وجہ ہے کہ مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے میاں صاحب 24 اکتوبر کو واپس آرہے ہیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ پارٹی کو اُس کی اصلی حالت میں برقرار رکھنے ہی میں عافیت ہے۔ اُن کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ”پنچھیوں” نے ”چُر چُر” شروع کر دی اور پارٹی کے اندر سے یہ آوازیں اُٹھنے لگیں کہ میاں شہبازشریف کو قیادت سنبھال لینی چاہیے۔ رَدِ عمل میں یہ آوازیں بھی اُٹھنے لگیں کہ قیادت صرف میاں نوازشریف ہی کا حق ہے ،کسی اور کا نہیں۔یہ صورتِ حال بہرحال خطرناک ہے اور اِسی کا خاتمہ کرنے کے لیے میاں صاحب دیارِ غیر سے وطن لوٹ رہے ہیں۔

ہمارے خیال میں آنے والے وقتوںمیں اگر قیادت میاں شہبازشریف کے سپرد کر دی جائے تو اِس میں کچھ ہرج نہیں کیونکہ چھوٹے میاں صاحب آج بھی بڑے میاں صاحب کو اپنے قائد اور باپ کا درجہ دیتے ہیں لیکن فی الحال ایسی کسی بھی کوشش سے پارٹی یقیناََ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی۔ میاں شہباز شریف کی قیادت کا شور مچانے والے وہی لوگ ہیں جو 2008ء سے 2013ء کے دوران نوازلیگ میں شامل ہوئے ۔ اِن چڑھتے سورج کے پجاریوں کا کوئی سیاسی قِبلہ نہیں ہوتا۔ یہ ایسے پنچھی ہوتے ہیں جو ہواؤں کے رُخ پر ہی اُڑنا پسند کرتے ہیں۔ اِن میں ایک وفاقی وزیر ایسے بھی ہیں جو سات بار پارٹیاں بدل چکے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں ”شریف برادران” بھی خوب سمجھتے ہیں۔اِس لیے وہ اُن کی باتوں پہ کان نہیں دھریں گے۔ یہ لوگ تو میاں نوازشریف کی نااہلی کے ساتھ ہی ”پھُر” ہو جاتے لیکن میاں صاحب نے جب تمامتر مخالفت کے باوجود بروقت جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور واپسی کا فیصلہ کیااور اِس چار روزہ سفر کے دوران جگہ جگہ اُن کا فقید المثال استقبال ہوا تو ”پنچھی” وقتی طور پر کونوں کھدروں میں چھُپ گئے۔ میاں صاحب کی پاکستان آمد کے ساتھ ہی یہ ایک دفعہ پھر دَم سادھ لیں گے لیکن ایسے ناسوروں سے چھٹکارا ہی بہتر ہے۔

میاں صاحب کے لیے اگر کوئی بات پریشان کُن ہو سکتی ہے تو وہ میاں شہباز شریف اور چودھری نثار علی خاں کی اختلافِ رائے ہے جس کی وجہ سے سخت گیر اور نرم گوشہ رکھنے والوں میں واضح تقسیم ہوچکی ہے۔ باوجودیکہ میاں شہبازشریف اور چودھری نثار علی خاں آج بھی میاں نوازشریف کی قیادت پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں اور وہ میاں صاحب کی سنگت چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے لیکن اُن کی میاں صاحب کو نرم رویہ اپنانے کی تلقین ہی ”پنچھیوں” کو شہ دینے کا سبب بنتی ہے۔ اِس لیے درمیانی راستہ نکالنے کی اشد ضرورت ہے۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر

The post نواز لیگ پر دور ابتلاء appeared first on جیو اردو.

پارٹی سے کسی نے انحراف کیا تو اجتماعی استعفے دے دیں گے، فاروق ستار

$
0
0
 Farooq Sattar

Farooq Sattar

کراچی (جیوڈیسک) متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ فاروق ستار کا کہنا ہے کہ اگر کسی سینیٹر، ایم این اے یا ایم پی اے نے پارٹی پالیسی سے انحراف کیا یا کسی اور جماعت میں شمولیت اختیار کی تو اجتماعی استعفے دے دیں گے۔

کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان کے بہادرآباد میں قائم عارضی مرکز میں پارٹی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ابتدا میں پارٹی سے جانے والے ارکان شاید مرضی سے گئے ان پر اپنا دعویٰ واپس لیتا ہوں۔

فاروق ستار نے کہا کہ ڈیڑھ سال بعد بھی ثابت قدمی سے پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن آج بھی معاملہ جوں کا توں ہے اور اراکین پی ایس پی میں جا رہے ہیں۔

ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ارکان سندھ اسمبلی کو وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور اس کی وجہ ناقابل فہم ہے۔

فاروق ستار نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ یہ اداروں کی پالیسی ہے اور نہ ہی افواج پاکستان کی۔

انہوں نے کہا کہ کوئی دباؤ میں پارٹی چھوڑ کر جاتا ہے تو ہماری دل شکنی ہوتی ہے، ہمارا پارٹی کے کسی رکن پر کوئی دباؤ نہیں اس لئے اگر کوئی بتا کر جاتا ہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ہم نےآج آخری مرتبہ اپنے ارکان اسمبلی اور سینیٹرز سے واضح پوچھا کہ وہ مطمئن نہیں تو بتائیں، ہم وزیر اعظم اور آرمی چیف تک تحفظات نہ پہنچائیں تو جو چور کی سزا وہ ہماری ہے۔

خیال رہے کہ سلمان مجاہد بلوچ نے ایم کیو ایم پاکستان میں دھڑے بندیوں کا الزام عائد کیا اور کہا کہ کنور نوید جمیل اور کشور زہرا براہ راست جب کہ فاروق ستار بالواسطہ الطاف حسین سے رابطے میں ہیں۔

سلمان بلوچ نے یہ بھی الزام لگایا کہ بانی ایم کیو ایم کی سالگرہ کے موقع پر کراچی میں پارٹی رہنما کے گھر تقریب بھی منعقد کی گئی اور بذریعہ واٹس ایپ کال بانی کو سالگرہ پر مبارکباد بھی دی۔

ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار سلمان مجاہد بلوچ کے الزامات کی سختی سے تردید کرچکے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ پارٹی میں دھڑے بندی کسی کی خواہش ہو سکتی ہے لیکن اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔

The post پارٹی سے کسی نے انحراف کیا تو اجتماعی استعفے دے دیں گے، فاروق ستار appeared first on جیو اردو.

مرکزی جماعت اہلسنت کے زیر اہتمام چھٹی سالانہ عزت رسول ۖ کانفرنس کی قرار دادیں

$
0
0
Nouman Qadir

Nouman Qadir

لاہور : 1 ۔آج کی عظیم الشان عزت رسول ۖ کانفرنس میں ہزاروںعوام اہلسنت کا ٹھاٹھیں مارتا یہ سمندرروہنگیاکے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے امریکہ کے لے پالک اور پالتو ملک برماکی روہنگیا کے نہتے اور معصوم لوگوں پر وحشیانہ بربریت اور ظلم کی پرزور مذمت کرتا ہے اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ روہنگیا کے معصوم بچوں پر وحشیانہ ظلم بند کرائے کیا آپ کو یہ منظور ہے ۔۔۔۔۔؟

2۔آج کی عظیم الشان عزت رسول ۖ کانفرنس میںہزاروں عوام اہلسنت کا ٹھاٹھیں مارتا یہ سمندرمقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے انڈیا کے جارحانہ رویے اور مسلمان خواتین کی چُٹیا کاٹنے کی شدید مزمت کرتا ہے اور حالیہ ملکی سر حدوں پر بلا اشتعال فائرنگ کو ملکی سا لمیت کے خلاف انڈیا کے وحشیانہ عزائم تصور کرتا ہے آج ہزاروںعوام اہلسنت ہندو بنیے کو خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ مودی اپنی حد میں رہیں حدود کراس نہ کریں ورنہ ناکوں چنے چبوادیں گے ہمارے امن کے نعرہ کو کمزوری نہ سمجھا جائے کیاآپ تائید کرتے ہیں ۔۔۔؟

3۔آج کی عظیم الشان عزت رسول ۖ کانفرنس میں ہزاروں عوام اہلسنت کا ٹھاٹھیں مارتا یہ سمندراسلامی جمہوریہ پاکستان میں موجود ایسے گماشتوں کی بھر پور مزمت کرتا ہے جو ہندو بنیے کو خوش کرنے کے لیے دو قومی نظریہ کی دھجیاں بکھیرنے پر اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہے ہیں ایسے ”روغن خیال ”سفلی ذہن کے مالک دانشوروں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہیں ، کشور حسین ، پاک سر زمین اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیاد لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۖ کے آفاقی نظریے پر رکھی گئی ہے ہم دو قومی نظریہ کے محافظ ہیں اورمرکزی جماعت اہلسنت کے پلیٹ فارم سے مرتے دم تک اس پاکیزہ نظریہ کی حفاظت کریں گے ، کیا آپ تائید کرتے ہیں
4۔آج کی عظیم الشان عزت رسول ۖ کانفرنس میں ہزاروں عوام اہلسنت کا ٹھاٹھیں مارتا یہ سمندرعالمی برادری خصوصاََ اقوام متحدہ سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق نکا لا جائے اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے تاکہ کشمیری قوم خود اپنی مرضی کا فیصلہ کر سکے کیونکہ اب تک لاکھوں معصوم مسلمان انڈیا کے فوجی درندوں کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں اقوام متحدہ انڈیا کی ان وحشیانہ حرکتوں کا فوری نوٹس لے کیا آپ تائید کرتے ہیں۔۔۔۔۔؟

5۔آج کی عظیم الشان عزت رسول ۖ کانفرنس حکومت وقت خصوصاََ فوجی اداروں کے اہم ذمہ داران کی توجہ ایک اہم مسئلہ کی طرف دلانا چاہتی ہے کہ کنٹونمنٹ کے ایریاز میں شامل مساجد میں اکثریت ایسے خطباء حضرات تعینات کیے گئے ہیں جن کے فسادی اور کالعدم تنظیموں سے براہ راست تعلق ہیں اور سننے میں آیا ہے کہ اِن مساجد اور اداروں میں دہشت گردوں نے پناہ بھی لی ہوئی ہے لہذا حکومت اور فوج کے اعلیٰ عہدیداران اور سیکیورٹی کے ادارے اس بات کا نوٹس لیں تاکہ دہشت گرد عناصر کی سر کوبی ہو سکے کنٹونمنٹ ایریاز کے رہائشیوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے کیا آپ تائید کرتے ہیں
6۔آج کی عظیم الشان عزت رسول ۖ کانفرنس میں شریک ہزاروں عوام اہلسنت حکومت وقت اور فوج کے اعلیٰ عہدیداران سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ لوگ جنہوں نے پاکستان کا وجود ہی تسلیم نہیں کیا اور ختم نبوت ۖ پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں یعنی ملک اور اسلام دشمن عناصر قادیانیوں کو ملکی اداروں کے اہم ترین عہدوں سے فی الفور علیحدہ کیا جائے یہ ملک دشمن عناصر اندرون کھاتے ملکی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لیے ریشہ دوانیاں کرتے رہتے ہیں اور اندر ہی اندر ملکی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں حکومت نوٹس لے کیا آپ تائید کرتے ہیں

7۔مینار پاکستان میں منعقدہ عزت رسول ۖ کانفرنس میں شریک ہزاروںلوگوں کا اجتماع عالمی برادری کے معتبر ترین اداروں سے پر زور مطالبہ کرتا ہے کہ چیچنیا ، برما ، فلسطین ، کشمیر ، افغانستان ، عراق و دیگر مقبوضہ علاقوں میں مظلوم مسلمانوں پر یہود و ہنود کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کا نوٹس لے خاص کر ان مقبوضہ علاقوں میں سنی مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اقوام متحدہ ، سلامتی کونسل و دیگر ادارے نوٹس لیں اور مسلمانوں کو مظالم سے نجات دلائیں کیا آپ تائید کرتے ہیں
8۔پاک سر زمین ، مرکز ِ یقین اسلامی جمہوریہ پاکستان کائنات ِ اسلام میں مدینہ طیبہ کے بعد دو قومی نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والی دوسری بڑی نظریاتی و فکری ریاست ہر لحظہ ،ہر لمحہ ،ہر گام قادیانیت نواز گماشتوں کو دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی رہتی ہے اور ہر گھڑی اور ہر آن گندے گٹر میں رینگنے والے گندے کیڑے کی طرح ان کے کثیف و غلیظ اذہان میں ہلچل مچائے رکھتی ہے قادیانیت نوازگماشتے اپنے ”تھنک ٹینکس ” کے ذریعے ڈالروںاور پائونڈز کی جھنکار میں تفرقہ و انتشار کا بیج بونے اور اس کو تن آور درخت کی شکل دینے کے لیے آئے روز گھنائونے منصوبے بناتے رہتے ہیں لہذاحکا مِ بالا اِن کو لگا م ڈالیں کیا آپ تائید کرتے ہیں

9۔ مرکزی جماعت اہلسنت کے پلیٹ فارم سے منعقدہ عزت رسول ۖکانفرنس میں شریک ہزاروںعوام اہلسنت حکومت وقت سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ وطن عزیز میں عوام کو بنیادی حقوق دیے جائیں حکمرانوں کی نا اہلیوں اور کرپشن کی وجہ سے ہماری معیشت کا ستیا ناس ہوا پڑا ہے ،بے روزگاری ، مہنگائی ، بے امنی ، فرقہ واریت عروج پر ہے ،دفاعی پوزیشن کو الجھا کر رکھ دیا گیا ہے ، سیاست بازی کا میدان خوب گرم ہے ہر سیاستدان اپنی اپنی ڈفلی بجا کر عوام کو گمراہ کر رہا ہے اور قوم کو اُلجھا رہا ہے لہذا ہم حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مہنگائی کم کرے ، لوگوں کو انساف فراہم کرے ، دہشت گردی کا خاتمہ کرے اور امن کی طاقت سے لیس قوتوں کو سپورٹ کرے کیا آپ تائید کرتے ہیں
10۔ مغربی این جی اوز کے گماشتے مسلمانوں کے دلوں سے محبت رسول ۖ کا جذبہ چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں اور گاہے گاہے 295Cپر ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں 295Cکے قانون کو چھیڑنے کی کوشش کی گئی اور ختم نبوت ۖ کے قانون میں ترمیم کی کوشش کی گئی تو حکمرانوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے کیا آپ تائید کرتے ہیں ۔۔۔۔؟
11۔آج کی بھر پور عزت رسول ۖ کانفرنس اپنے اکابر مشائخ عظام کو بھر پور خراجِ تحسین پیش کرتی ہے بر صغیر پاک وہند میں صوفیاء کی خدمات قابل تحسین ہیں اور یہی وہ خدا مست درویش تھے جنہوں نے اسلام کی آبیاری کی اوراپنے کردار سے اسلام کی شمع روشن کی ،پیر آف بھر چونڈی شریف ، پیر آف مانکی شریف ، پیر آف زکوڑی شریف ، پیر آف علی پور سیداں شریف ، پیر آف محدث کچھوچھوی ودیگر اکابر مشائخ نے تحریک پاکستان میں قابل قدر کاوشیں سر انجام دیں اور آج انہی مشائخ کی محنتوں کے ثمرات ہم سمیٹ رہے ہیں لہذا حکومت وقت سے پر زور مطالبہ کیا جاتا ہے کہ تحریک پاکستان کے اِن بنیادی اکابر کے ایام سرکاری سطح پر منائے جائیں اکیا آپ منظور کرتے ہیں ۔۔۔۔؟

The post مرکزی جماعت اہلسنت کے زیر اہتمام چھٹی سالانہ عزت رسول ۖ کانفرنس کی قرار دادیں appeared first on جیو اردو.

سونے کی فی تولہ قیمت 53000 روپے کی سطح پر مستحکم

$
0
0
Gold Price

Gold Price

کراچی (جیوڈیسک) سونے کی فی تولہ قیمت 53000 روپے کی سطح پر مستحکم ریکارڈ کی گئی، دس گرام سونا 45428 روپے جبکہ چاندی فی تولہ 770 روپے پر مستحکم رہی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق عالمی مارکیٹ میں گزشتہ روز سونے کی فی اونس قیمت میں 3 ڈالرز کی کمی ہوئی اور سونے کی فی اونس قیمت 1283 ڈالر کی سطح پر رہی۔

عالمی مارکیٹ میں سونے کے نرخوں میں کمی کے باوجود مقامی سطح پر سونے کی قیمتوں میں استحکام دیکھا گیا اور فی تولہ سونے کی قیمت 53000، دس گرام سونے کی قیمت 45428 روپے جبکہ چاندی کی فی تولہ قیمت 770 روپے پر مستحکم ریکارڈ کی گئی۔

The post سونے کی فی تولہ قیمت 53000 روپے کی سطح پر مستحکم appeared first on جیو اردو.

Viewing all 6004 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>