Quantcast
Channel: جیو اردو
Viewing all 6004 articles
Browse latest View live

بلاول سے ندیم چن کی ملاقات، استعفیٰ منظور کرنے کی درخواست

$
0
0
Bilawal Bhutto

Bilawal Bhutto

اسلام آباد (جیوڈیسک) زرداری ہاؤس اسلام آباد میں بلاول بھٹو سے پیپلز پارٹی پنجاب کے مستعفی ہونے والے جنرل سیکرٹری ندیم افضل چن نے ملاقات کی۔

ملاقات میں ندیم افضل چن نے اپنے استعفے کی وجوہات سے پارٹی چیئرمین کو آگاہ کیا اور درخواست کی کہ ان کا عہدے سے استعفیٰ منظور کیا جائے، تاہم وہ پارٹی کے ساتھ بدستور کام کرتے رہیں گے۔

ندیم افضل چن نے لاہور میں دو روز قبل آصف علی زرداری سے بھی ملاقات کی تھی جس میں آصف علی زرداری نے انہیں استعفیٰ واپس لینے کی ہدایت کی مگر ندیم افضل چن نے ایسا کرنے سے معذرت کر لی تھی۔

The post بلاول سے ندیم چن کی ملاقات، استعفیٰ منظور کرنے کی درخواست appeared first on جیو اردو.


جاپان میں وزیر آعظم شنزو آبے کی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کی دوتہائی اکثریت سے کامیابی

$
0
0
Shinzō Abe

Shinzō Abe

واشنگٹن (جیوڈیسک) جاپان میں اتوار کو ہونے والے انتخابات میں حکمران لبرل ڈیوکریٹک پارٹی نے جاپانی پارلیمان کے ایوان زیریں میں دوتہائی سے زیادہ اکثریت حاصل کر لی۔ لبرل ڈیموکرٹک پارٹی نے اپنی چھوٹی اتحادی جماعت کومیٹو کے ساتھ ملکر 465 ارکان پر مشتمل ایوان میں 312 نشستیں حاصل کر لی ہیں۔ ان انتخابات میں ووٹروں کا ٹرن آؤٹ 54 فیصد رہا۔ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کو ایون بالا میں پہلے ہی برتری حاصل ہے۔

انتخابات میں زبردست کامیابی کے بعد وزیر اعظم شنزو آبے نے اعلان کیا ہے کہ وہ جنگ کے بعد تشکیل پانے والے آئین میں قومی مفاہمت کے ساتھ مثبت تبدیلیوں کی کوشش کریں گے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ آئینی تبدیلیوں کے بارے میں جاپان میں رائے عامہ منقسم ہے کہ وزیر اعظم کو حمایت حاصل کرنے کیلئے کافی محنت کرنا پڑے گی۔

انتخابات سے قبل وزیر آعظم آبے نے پارلیمان تحلیل کر کے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا تھا۔ یوں وہ 2021 تک جاپان کے وزیر اعظم برقرار رہیں گے۔ اگر وہ پارلیمان تحلیل نہ کرتے تو اُن کی مدت دسمبر 2018 تک برقرار رہتی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم آبے کا قبل از وقت انتخابات منعقد کرانے کا اقدام دراصل اپنے عرصہ اقتدار کو بڑھانا تھا۔ یوں ان انتخابات میں کامیابی کے بعد آبے جاپان کے سب سے طویل عرصے تک رہنے والے وزیر اعظم بن جائیں گے۔

2012 میں وزیراعظم کا منصب سنبھالنے والے شنزو آبے کو ان انتخابات میں بھرپور کامیابی کے بعد اپنی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کا موقع مل جائے گا۔ ان میں شمالی کوریا اور امریکہ کے ساتھ تعلقات، اُن کی مالیاتی پالیسی اور جوہری توانائی کے فروغ کی پالیسیاں شامل ہیں۔

وزیراعظم آبے نے انتخابات سے قبل شمالی کوریا کی طرف سے خطرے کو ’قومی بحران‘ قرار دیا تھا اور اس سے نمٹنے کیلئے امریکی صدر ٹرمپ کی شمالی کوریا کے بارے میں سخت پالیسی کی حمایت کی تھی۔ موجودہ انتخابات میں کامیابی کے بعد امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ فون پر بات چیت کے دوران اُنہوں نے شمالی کوریا پر دباؤ مزید بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ صدر ٹرمپ اگلے ماہ جاپان کا دورہ کریں گے اور توقع ہے کہ اس دورے کے دوران وہ اور جاپانی وزیر اعظم گولف بھی کھیلیں گے۔

The post جاپان میں وزیر آعظم شنزو آبے کی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کی دوتہائی اکثریت سے کامیابی appeared first on جیو اردو.

کوئی مک مکا تسلیم نہیں کریں گے، حدیبیہ کیس کھولا جائے۔ عمران خان

$
0
0
Imran Khan

Imran Khan

سیہون (جیوڈیسک) چیرمین تحریک انصاف عمران خان نے حدیبیہ کیس کو کھولنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم کوئی مک مکا تسلیم نہیں کریں گے۔

سیہون میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا کہ تحریک انصاف کی سندھ میں مہم شروع ہوچکی ہے، ہمیں روک سکو تو روک لو، ہم نے سندھ کی پولیس کو ٹھیک کرنا ہے، سندھ کی پولیس ٹھیک ہوجائے تو سندھ کے عوام کا خوف ختم ہوجائے گا۔

عمران خان نے کہا کہ حضرت شہباز قلندر کے مزار پر حاضری دینی تھی لیکن وہاں کس طرح بندوقوں والے کھڑے کیے ہوئے ہیں، سندھ میں کسی قسم کی آزادی نہیں، لوگوں کو غلام بنایا جارہا ہے، کبھی نہیں دیکھا کہ مزار پر حاضری دینے سے کسی کو روکا گیا ہو۔

چیرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ سندھ کے لوگ آصف زرداری اور فریال تالپور سے تنگ ہیں، سندھ کی پولیس زرداری اور فریال تالپور کے لیے استعمال ہوتی ہے، گزشتہ روز ہمارے جلسے میں بھی مسائل پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ نیب سمیت تمام اداروں کے سربراہ انہوں نے لگائے ہوئے ہیں، اب عوام کی امیدیں آزاد عدلیہ پر ہیں جب کہ ہم لوگوں کو تیارکررہے ہیں، اب سندھ میں پیپلزپارٹی کو شکست ہوگی۔

عمران خان نے کہا کہ انتخابات آج ہوں یا چار ماہ بعد ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن قبل از وقت انتخابات ملک کی ضرورت ہیں، ریاست ایک نااہل وزیراعظم کے خلاف کیس کررہی ہے لیکن ریاست کے وزیراعظم اور وزیر اس نااہل کے ساتھ کھڑے ہیں، یہ کبھی نہیں ہوا، ریاست کا کام تو لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہے لیکن وہ مجرم کے ساتھ کھڑی ہے۔

چیرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ جب ملک کا وزیراعظم ایک نااہل شخص کو اپنا وزیراعظم کہے تو یہ لمحہ فکریہ ہے، جہاں حکومت نہیں چل رہی ہو اور سب کرپٹ شخص کو بچانے کے لیے لگے ہوئے ہیں تو وہاں جمہوری طریقہ الیکشن ہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب آصف زرداری نوازشریف کو گرفتار کرنے کا کہیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے کیونکہ زرداری خود اتنا پیسہ پاکستان سے باہر لے کر گئے، یہ دونوں کی نورا کشتی ہے کیونکہ جب زرداری صدر تھے تب شریف برادران نے نورا کشتی کھیلی، چار سال یہ لوگ چپ رہے اور الیکشن سے چند ماہ قبل شہبازشریف کے بیانات آنا شروع ہوگئے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ اب عوام کسی قسم کے این آر او کو نہیں مانے گی، مشرف نے نوازشریف اور زرداری کو این آر او دیا، مشرف کا کوئی حق نہیں بنتا تھا کہ وہ ایک کرپٹ آدمی کو معاف کریں۔

چیرمین تحریک انصاف نے کہا کہ اس بار کوئی این آر او ہوا تو پورے پاکستان کو سڑکوں پر نکال دیں گے، حدیبیہ کا کیس اوپن ہے جو سپریم کورٹ میں پڑا ہے، ہم اس کیس کو سماعت کے لیے لگانے کا مطالبہ کرتے ہیں، ہم کوئی مک مکا تسلیم نہیں کریں گے، قوم کرپٹ مافیا کے خلاف کھڑی ہے ہم انہیں جیلوں میں دیکھیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر میں الیکشن کا مطالبہ کررہا ہوں تو اس میں اسٹیبلشمنٹ کا کیا کردار ہے، ملک میں معاشی بحران ہے اور خارجہ پالیسی کا کچھ پتا نہیں، ملک وزیراعظم کرپٹ آدمی کے ساتھ ملا ہوا ہے۔

ایم کیو ایم سے متعلق عمران خان نے کہا کہ ایم کیوایم پاکستان خود کو الطاف حسین سے جدا کرلے تو اس کا مستقبل ہے، الطاف حسین اب کھل کر ریاست کے خلاف آگئے ہیں وہ ملک کی تقسیم چاہتے ہیں اور ہندوستان کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں اس لیے ایم کیوایم کو ان سے خود کو علیحدہ کرنا چاہیے۔

The post کوئی مک مکا تسلیم نہیں کریں گے، حدیبیہ کیس کھولا جائے۔ عمران خان appeared first on جیو اردو.

ہر توقع ہی اب اٹھا دی ہے

$
0
0
Prayer

Prayer

ہر توقع ہی اب اُٹھا دی ہے
اُس نے جو بھی ہمیں سزا دی ہے
اُس کے بدلے میں بس دعا دی ہے
ہم نے دل کے نصابِ ہِجرت میں
تیری یادوں کو ہی جگہ دی ہے
ایک کشتی تھی آرزوئوں کی!
غم کے دریا میں جو بہا دی ہے
جو بھی دولت تھی نیک نامی کی
سب تیرے عشق میں لُٹا دی ہے
نسلِ انساں کے قِصہء غم نے
اپنی بے چارگی بھلا دی ہے
ہم نے ورثے میں مفلسی پا کر
کیا امیری کی خُو نِبھا دی ہے
آخری بار اس سے مِل کے زریں
ہر توقع ہی اب اُٹھا دی ہے

زریں منور

The post ہر توقع ہی اب اٹھا دی ہے appeared first on جیو اردو.

روٹی پاکستان میں بھی ملتی ہے

$
0
0
Saudi Arabia

Saudi Arabia

تحریر : انجینئر افتخار چودھری
لوگوں کا خیال ہے کہ سعودی عرب کی نئی پالیسیاں اسے اپنے قدموں پر کھڑا کر دیں گی جب کہ میرا خیال ہے سعودی عرب کے قدم کاٹے جا رہے ہیں ہر آنے والے سال میں اجنبیوں پر لگائے گئے ٹیکس اس ملک سے لوگوں کو فارغ کر دیں گے اور وہاں کے ایک معروف صحافی نے لکھا ہے کہ سالانہ بیس لاکھ لوگ ملک سے چلے جائیں گے۔٢٠١٨ میں بیس ٢٠١٩ میں پچیس لاکھ اور کرتے کرتے صرف وہی لوگ رہ جائے گیں جو یا تو بہت اعلی مشاہروں پر کام کریں گے یا سنگل کیمپوں میں رہنے والے مزدور۔پتہ نہیں ان سعودی دوستوں کا کون مشیر ہے جو اس طرح کے مشوروں سے مملکت کا بیڑہ غرق کر رہا ہے۔

مملکت کی تعمیر و ترقی میں باہر کے رہنے والوں کا بڑا ہاتھ ہے میں تو اس دور کا مسافر ہوں جب عمرے ویزے پر دھڑا دھڑ لوگ وہاں پنچے تیل کی دولت سے مالا مال اس ملک کے پاس سیاہ سونا نکلا اس کی قیمت بڑھی۔پھر یوں ہوا کہ مسلم ٤٤ ویزے کے تحت اس ملک میں آنے والے مسلمانوں کو داخلی اقامے دئے گئے یہ شاہ خالد کا دور تھا پھر یوں ہوا کہ مکان ملنے مشکل ہو گئے اسی کی دہائی میں معمولی فلیٹ کا کرایہ چالیس ہزار ریال سالانہ تک پہنچ گیا تھا۔وہاں بھیڑ چال چل نکلی اور تعمیرات کی دنیا میں انقلاب آیا دنیا بھر سے لوگ وہاں پہنچے۔گزشتہ چند سال سے تیل کی قیمتیں کم اور تیل پر کم انحصاری کی وجہ سے وہ ریل پیل ختم ہوئی اور لوگوں کی نوکریاں ختم ہو کر رہ گئیں لوگ بڑی تعداد میں بے روز گار ہو گئے اور اپنے اپنے ملکوں کو واپس ہو گئے تیل نے ریل پیل کی اور اب اسی نے قلاش بھی لیکن اس کے پیچھے بڑا مجرم کون ہے وہ میں اور آپ بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔

سعودی حکومت کی موجودہ پالیسیاں شائد ایک گھبراہٹ کے نتیجے میں بنائی گئی ہیں کہ وہاں فیملیوں کے افراد پر بھاری ٹیکس لگا دئے گئے ہیں۔ہر آنے والے سال میں ان پر حکومت نے بھاری ٹیکس لگا دیا ہے انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں اور کھانے پینے کی اشیاء پر بھی ریلیف ختم کیا جا رہا ہے یعن جس پر مقامی باشندوں کو چیزیں سستی ملیں گی اور اجنبی لوگ اس پر ٹیکس دیں گے۔یہ چیز ان کے لئے بہت آسان ہے کہ ہر بندہ وہاں رجسٹرڈ ہے کائونٹر پر شناخت دکھا کر وہ چیزیں خریدے گا۔مکانات کی بڑی تعداد خالی ہے اور مزید خالی ہو جائے گی کرائے دو سال بعد پچاس فی صد کم ہو جائیں گے۔جو لوگ فیملیز کے ساتھ رہ کر پوری توجہ سے جاب کر رہے تھے اب شائد ان کے لئے یہ ممکن نہیں رہے گا۔فیملیز سے الگ ہو کر رہنا دونوں جانب پریشانی کا باعث بنے گا۔جس کا نتیجہ ہو گا کہ لوگ اس ملک کو چھوڑ کر چلے جائیں گے اور سعودی لوگ مظلوموں کو تلاش کرتے پھریں گے۔جس کا اثر سعودیوں پر ہو گا۔اس وقت تک لاکھوں لوگ اپنے اپنے ملکوں میں پہنچ چکے ہیں شہر میں مکانات خالی ہیںجن کے کرائے تیزی سے کم ہو رہے ہیں ایسے میں مزید انخلاء اس ملک کی اکانومی پر برا اثر ڈالے گا۔پچھلے سال سے لگے ان ٹیکسوں میں ہر آنے والے سال پر اضافہ ہو گا جس کی وجہ سے لوگوں کو فیملیز رکھنا مشکل ہو جائے گا۔یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ بہت سے فارنر وہاں سعودیوں کے نام پر کام کرتے ہیں اور یہ کام ان کے ذاتی ہوتے ہیں جس کا وہ سعودیوں کو ٹیکس دیتے ہیں میری مراد ہے سعودی کفیلوں کو حصہ دیا جاتا ہے۔

مکتب عمل کی فیسیں الگ انشورنس کارڈ کے خرچے اپنی جگہ سعودی کفیل کی فیس ڈال کر وہ پہلے ہی ہزاروں ریال تجدید پر لگا دیتے ہیں اب ان کے ساتھ جڑے لوگوں پر بھی بھاری ٹیکس لگائے گئے ہیں۔اس کا نتیجہ ہوگا کہ ان لوگوں کو فیملیز پاکستان یا اپنے ملکوں میں منتقل کرنی ہوں گی۔وہ ملک جہاں کا امن و امان مثالی تھا لوگ بڑے خوبصورتی سے وہاں رہا کرتے تھے اب بڑی فیملی والوں کو رکھنا نا ممکن ہو جائے گا۔اس سے پاکستانیوں اور دیگر غیر ملکیوں کے لئے معاشرتی مسائل پیدا ہوں گے ایسے میں فیملی سے الگ ہو کر رہنا مشکل ہو جائے گا۔
ایک وقت آئے گا کہ آئیندہ آنے والے چند سالوں میںبہت کم فیملیز وہاں رہنے کے قابل ہوں گی۔یہ چیز بیرون ملک کی ورکنگ فورس کے لئے مشکل تو ہو گی لیکن خود سعودی جو مکانات کے کرایوں اور دیگر کاروبار سے کما کر کھاتے تھے ان کے لئے ایک عذاب ہو گا۔ایسے میں بے روزگاری کا ایک ایسا طوفان آئے گا کہ یہ طوفان سعودی نظام کی چولیں ہلا سکتا ہے۔

یاد رہے سعودی عرب قبائلی سسٹم میں زندہ ہے اب تک پیسے کی ریل پیل نے اسے جوڑے رکھا ہوا ہے۔بے کار سعودی نوجوانوں کو فارن لوگوں کی کمپنیوں میں تیس فی صد تک ملازمتیں ملتی تھیں اب اگر ایک شخص جس کی عمر پچاس سال ہے اور وہ اپنی لمبی چوڑی فیملی کو وہاں نہیں رکھ سکتا تو اس نے ملک چھوڑ کر دبئی وغیرہ میں منتقل ہونا ہے تو کیا وہ کاروبار جاری رکھ سکے گا۔ایسا نا ممکن ہے۔

ایسے میں سعودی عرب کے لئے سخت مشکلات پیداہو جائیں گی یمن سے جڑے علاقے پہلے ہی حالت جنگ میں ہیں نجران جیزان خمیس مشیط ابہاء بالجرشی نماس طایف ادھر ساحلی شہر غنفدہ جیزان تک کی پٹی میں یمن سے میل جول اس ملک سعودی عرب کے لیئے خطرہ پیدا کر سکتا ہے۔جیزان نجران اور یمن سے جڑے علاقے انتہائی پسماندہ ہیں ان میں اب ترقیاتی کام ہو رہے ہیں ٢٠١٢ تک جیزان میں لکڑی کے کھمبے لگے ہوئے تھے۔وسطی سعودی عرب نجد تو پہلے ہی اپنے آپ کو سپر سعودی کہلواتا ہے اور وہ حجازیوں کو بقایةالحجاج کہتے ہیں اور مکہ کے لوگ بدو نجدیوں کو کسی کام کا نہیں سمجھتے مہکہ والے تو کہتے ہیں انا من مکہ میبغی کلام دادی(میں مکہ سے ہوں فالتو بات نہ کرنا)۔ ادھریہ بریدہ قسیم ریاض الحساء الحفوف کے بدو اپنے برابر کسی کو سمجھتے ہی نہیں اور صیح عرب کلچر کے وارث یہ لوگ اپنی مثال آپ ہیں ۔جو منطقہ شرقیہ ہے تیل کی دولت سے مالا مال ہے مگر یہاں قطیف دمام الخبر الخفجی حفرالباطن کے ایرئے ایران سے ہمدردی رکھنے والوں پر مشتمل ہیں۔ دوسری بڑی بات آرامکو کی وجہ سے یہ انتہائی پڑے لکھے مہذب لوگ ہیں

ایسے میں سعودی عرب کو یمن کی بے مقصد اور بے فائدہ جنگ سے نکلنا ہو گا۔سعودی عرب اور ایران کی دوستی ناگزیر ہے ورنہ ڈر ہے ریچھ کیک کھا جائے اور یہ دو مسلمان لوگ سخت نقصان اٹھائیں گے۔پیسہ سعودی عرب کو جوڑنے میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے سعودیوں نے جو اچھے دن دیکھے ہیں اب وہ برے دنوں کی تکلیفیں کسی صورت نہیں برداشت کر سکتے۔

اس ملک کے حکمرانوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ نئی امریکی پالیسیاں انہیں عوامی غیض و غضب سے نہیں بچا سکتیں۔البریدہ القصیم کے علاقے مذہبی شدت پسندوں کا گڑھ ہیں یہ وہ علاقہ ہے جہاں سگریٹ نہیں بیچے جاتے جہاں اب بھی نظام صلوة بہت مضبوط ہے یہاں عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت پر بہت کچھ ہو سکتا ہے۔پوری دنیا کے مسلمان سعودی عرب کے پرانے نظام سے خوش ہیں ہمارا معاشرہ سعودی عرب کو دیکھ دیکھ کر انہی کے رنگ میں ڈل رہا ہے عبایہ پاکستان میں معروف کیوں ہوا سعودی لوگوں کے عظیم کلچر کی وجہ سے قوم پانچ وقتی نماز کے لئے ایک وقت کی متلاشی کیوں اسی سعودی سسٹم کی بدولت؟سعودی سسٹم کی وجہ سے۔وہاں کے امن و امان کو دیکھ کر ہم آہ بھرتے ہیں لیکن اب جو نئی نئی سکیمیں جناب ٹرمپ دے گئے ہیں یہ ا س ملک کا خانہ خراب کر سکتی ہیں۔

سعودی عرب کو اپنے اسلامی سیاحتی پروگرام کے علاوہ جنادریہ میلے تک رسائی ایک عام زائر کو دینی چاہئے اسے بریدہ دکھانا چاہئے جہاں کے کھجوروں کے باغ جنت نظیر ہیں اسے حائل دکھایا جائے جو صحراء کا دولہا شہر ہے۔ سیاسی طور پراسے چاہئے کہ وہ امن کا راستہ تلاش کرے ایران کے ساتھ نرمی کا برتائو کرے جہاں ان سے درخواست ہے وہاں ایران کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے خمینی انقلاب کو جیب میں رکھے اور اسے ایکسپورٹ کرنے کی کوشش نہ کرے۔

ہم پاکستانیوں کو آئیندہ چند سالوں میں ایک طوفان کو سنبھالنے کی تیاری کرنی چاہئے کم از کم بجلی کے منصوبے مکمل کرے تا کہ باہر سے آنے والی فیملیز کو پنکھے کی ہوا تو ملے ۔میں سمجھتا ہوں فیملیز یہاں کی گرمی مچھر سے تڑپتے چیختے چھوٹے بچوں کی وجہ سے دو ماہ کی چھٹی کو پندرہ دن میں بدل دیتی تھیں اگر بجلی کا بحران قابو میں آ کر لیا گیا تو مسئلہ کم ہو جائے گا۔باقی رہی بات اوور سیز پاکستانیوں کو بلکل نہیں گھبرانا چاہئے انہیں یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اب پاکستان بدلنے کے قریب ہے اس ملک میں استعمال شدہ مشینری کی بڑی مانگ ہے جو لوگ کسی زمانے میں دبئی سے کنسٹرکشن مشینیں جدہ لاتے تھے انہیں چاہئے پاکستان آ جائیں سڑکوں پلوں کی تعمیر میں ان مشینیوں کی سخت ضرورت ہے ایک معمولی شاول ایک لاکھ روپے ماہانہ کرایہ پر چلتا ہے(ڈیزل مالک کا شاول والے کا نہیں) اب آپ اندازہ لگا لیں کہ اس ملک می کس قدر مزدوری ہے۔ویسے بھی نظام قدرت ہے کہ اللہ اپنے بندوں کے لئے مواقع پیدا کرتا رہتا ہے۔جس ملک میں ایک پڑھا لکھا نوجوان صرف آٹھ دس لاکھ کی گاڑی سے پچاس ساٹھ ہزار آرام سے کما لیتا ہو وہاں اب بھوک ننگ افلاس کی بات کرنا مناسب نہیں گڈ گورننس کی کمی ہے وہ بھی دن دور نہیں اللہ اس ملک کو اس کرم سے نواز دے گا۔

اوور سیز پاکستانیوں گھبرانے کی کوئی بات نہیں میرا اللہ کرم کرے گا۔سعودی عرب کے لوگ اگر آپ کو بوجھ سمجھتے ہیں تو سمجھتے رہیں ہم نے ان کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرنے جو آ رہے ہیں ان کا شکریہ ادا کر کے آئیے کبھی وقت تھا عرب ریاست حیدر آباد میں چوکیداریاں کرتے تھے اور ایک وقت آیا کہ ہم ان کے حارث بنے یہ ایک سرکل ہے ہاں عزت وقار کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔خوبصورتی سے علیحدگی کمال کی چیز ہوتی ہے ۔مجھے جدہ میں گزاری ربع صدی بہت یاد آتی ہے ہم نے اس ملک سے بہت کچھ لیا سیکھا اور دیا بھی بہت کچھ۔طارق المعیناء نے کیا خوب کہا ہے کہ ان لوگوں کو نیشنیلٹیاں دو یا طویل المدتی اقامت۔وہاں کوئی سر خاب کے پر نہیں یورپ کینیڈا دیکھیں وہاں پاکستانیوں نے جہاں آباد کر لئے اور یہاں عشروں رہنے کے بعد بھی ہم اجنبی ٹھہرے یہی فرق ہے جو سعودی عرب کو عالم میں بدنام کر رہا ہے اسے انسانی حقوق کی حالت کو بہتر کرنا ہو گا۔ باہر کے لوگو! یہاں کے مسٹر ڈاکو جا چکے ہیں اور اب ان سے زیادہ برا کوئی نہیں جو اقتتدار میں آئے گا سی پیک ایک دستک ہے اللہ روٹی دے گا گھبرائیے مت۔

Engr Iftikhar Chaudhry

Engr Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری

The post روٹی پاکستان میں بھی ملتی ہے appeared first on جیو اردو.

خود کشی سے گریز کیجئے‎

$
0
0
Suicide

Suicide

تحریر : عماد ظفر
اختلاف رائے کسی بھی نظریے , عقیدے یا خیال کیلئے لٹمس ٹیسٹ کا کام دیتا ہے. اختلاف رائے دراصل افکار کی وسعتوں کی مدد سے نظریات یا تھیوریز کو مختلف زاویوں سے پرکھتے ہوئے انہیں نئے پہلووں سے روشناس کرواتا ہے. اگر تو کوئی بھی نظریہ عقیدہ یا سوچ حقیقتا درست سچی اور خالص ہو تو اختلاف رائے اسے مزید جلا بخشنے کا کام دیتا ہے جبکہ خود ساختہ نظریات یا روایات اختلاف رائے کی تاب نہ لاتے ہوئے دلیل و منطق کی طاقت سے زمین بوس ہو جاتے ہیں. روس کی مثال اس ضمن میں سب کے سامنے ہے.ایک طرف جہاں کولڈ وار کے زمانے میں روس اندر سے ٹوٹ رہا تھا، بھاری بھرکم اسلحہ ضرورت سے زیادہ بڑی فوج اور اس پر خرچ ہونے والے وسائل نے روس کی معیثت کا پٹھا بٹھایا ہوا تھا تو دوسری جانب اظہار رائے پر مکمل قدغن تھی. جو بھی شخص روس کے اصل حالات کی جانب توجہ دلانے کی کوشش کرتا وہ کے جی بی کے ہاتھوں لاپتہ ہو جاتا اور پھر کچھ عرصے بعد اس کی لاش ورثا تک پہنچ جاتی تھی. اسـں قدغن نے روس کے اندر ایک خوف کی فضا طاری کر دی تھی عوام خوف کے عالم میں ایک گھٹن زدہ فضا میں سانس لیتے رہے اور پھر روس افغانستان پر حملہ کرنے کے بعد معاشی طور پر دیوالیہ ہو گیا اور عسکری محاذ پر بھی اسے شکست فاش ہوئی نتیجتا متحدہ روس کے ٹکڑے ہوئے اور عوام نے خوشی خوشی آزادی کی چاہ میں چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ کر رہنے کو ترجیح دے دی. نہ تو اسـوقت کوئی بھی جذبہ حب الوطنی انہیں ٹکڑوں میں بٹنے سے روک پایا اور نہ ہی کوئی طاقت ان کی آواز کو معاشی محاذ پر شکست کے بعد کسی جبر سے دبا سکی.

اسی طرح مشرقی پاکستان کا سانحہ بھی سیکھنے والوں کیلئے ایک عبرتناک سبق ہے. مـشرقی پاکستان میں بسنے والوں کو ان کے حقوق نہ دے کر رفتہ رفتہ ان کے دلوں میں نفرت کے بیج پروان چڑھائے گئے. ان کے دانشوروں اور رہمناؤں کو آہستہ آہستہ غدار اور سیکیورٹی رسک قرار دیا گیا اور پھر تنقید یا اختلاف کرتی آوازوں کو جبر سے دبانے کی کوشش کی گئی. یہاں تک کے سن ستر کے انتخابات کے بعد واضح اکثریت سے انتخابات جیتنے والی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار دینے سے انکار کرتے ہوئے اس کے سربراہ شیخ مجیب کو غدار اور سیکیورٹی رسک قرار دیا گیا.مشرقی پاکستان کے ووٹرز اور شیخ مجیب کو ادھر ہم ادھر تم جیسے نعروں کا بھی سامنا کرنا پڑا. اور پھر شیخ مجیب نے بغاوت کرتے ہوئے ایک علحدہ وطن کے قیام کا مطالبہ کر دیا. شیخ مجیب اور اس کی جماعت کو کچلنے کیلئے عسکری طاقت استعمال کی گئی لیکن سقوط ڈھاکہ ہو کر رہا. مشرقی پاکستان کے عوام کے دلوں میں دبی نفرت جو احساس محرومی، اظہار رائے کو کچلنے اور حق نمائندگی کو تسلیم نہ کرنے سے پیدا ہوئی تھی اس نے پاکستان کو دو لخت کر دیا.ان دونوں واقعات سے ایک انتہائ سیدھا اور آسان سبق ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خوف کے دم پر قائم ریاستیں ریت کے ڈھیر کی مانند ہوتی ہیں جنہیں حالات و واقعات کے سیلاب کا ایک معمولی سا ریلا بھی بہا کر لے جایا کرتا ہے.

ریاستیں اسی صورت قائم و دائم رہا کرتی ہیں جب وہاں بسنے والے خوف کے بجائے محبت اور اعتماد کی وجہ سے ریاست سے ایک رشتے میں بندھے ہوتے ہیں اور یہ رشتہ ماں بیٹے جیسا ہوتا ہے.ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے اور شہری بیٹوں کی مانند. لیکن اگر ریاست چوہدری کا کردار ادا کرنا شروع کر دے اور پرامن طور پر اختلاف رائے رکھنے والوں کو اپنے لیئے خطرہ تصور کرتے ہوئے ان کو کچلنا شروع کر دے تو پھر خوف کا یہ رشتہ معاشرے میں حبس کی فضا پیدا کر دیتا ہے اور تاریخ کا سبق یہی ہے کہ حبس زدہ معاشرے ایک نہ ایک دن خود حبس کا شکار ہو کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں. بدقسمتی سے تاریخ سے سبق سیکھنا بہت کم انسانوں یا اقواموں کو نصیب ہوتا ہے. مینڈیٹ کو کچل کر اور اظہار رائے کو دبا کر مشرقی پاکستان دو لخت ہوا.اسی طرح جنوبی افریقہ میں سیاہ فاموں کو کچلا گیا اور آخرکار انہوں نے گوری اشرافیہ سے آزادی حاصل کر لی. نفرت اور جبر کسی بھی طور دلیل کا سامنا نہیں کرنے پاتے. اگر کسی کا نظریہ یا خیال غلط ہے اور اس کا پرچار پرامن طریقے سے کیا جاتا ہے تو پھر اسے بزور طاقت کچلنے کی ضرورت ہی نہیں ہوا کرتی کہ وہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے لیکن اگر کسی کو کچلا جائے اور اس کے اظہار رائے ہر پابندی لگائی جائے یا اس کے مینڈیٹ کو مختلف طریقوں سے رد کیا جائے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جبر کرنے والا دراصل خوفزدہ ہے اور طاقت کے دم پر اس نظریے یا سوچ کو کچلنا چاہتا ہے. طوفان کبھی بھی بتا کر نہیں آیا کرتے لیکن طوفانوں کے آنے سے پہلے ایک گہرا سکوت اور خاموشی ضرور ہوا کرتی ہے.

معاشرے میں اس خاموشی کو نہ پیدا ہونے دینا ریاست اور ریاستی ستونوں کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے. توہین یا حب الوطنی کے فتوے لگا کر صدیوں پہلے مخالفین کو کچلا جاتا تھا لیکن اب دنیا تبدیل ہو چکی ہے. خبر اور حقائق سیکنڈز میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں پہنچ جاتے ہیں ایسے میں یہ گمان کرنا کہ صدیوں پرانے فارمولے کو اپنا کر اس بدلتی دنیا میں بھی شعوری طور پر پچھلی صدی میں عوام کو بسایا جا سکے گا یہ ایک خوش فہمی تو ہو سکتی ہے لیکن حقیقت نہیں. گھر ہوں یا معاشرے ان میں شور شرابے سے ہی رونق ہوا کرتی ہے سکوت قبرستانوں کی پہچان کہلاتا ہے. اختلاف کا حق اظہار رائے کا حق اورعوام کے دیئے گئے مینڈیٹ کا احترام معاشروں کی بقا کا ضامن اور ان کے پھلنے پھولنے کا باعث ہوا کرتا ہے.روس نے یہ سبق ٹوٹنے کے بعد سیکھا عرب دنیا کو اس امر کی نشاندہی عراق مصر شام کو آگ وخون میں نہلانے کے بعد ہوا. امید غالب ہے ہم سقوط ڈھاکہ کے تلخ تجربے کو مد نظر رکھتے ہوئے اب اس حقیقت کا ادراک کر لیں گے اور جانتے بوجھتے خود کشی کی کوشش نہیں کریں گے.

Imad Zafar

Imad Zafar

تحریر : عماد ظفر

The post خود کشی سے گریز کیجئے‎ appeared first on جیو اردو.

خانہ کعبہ کے مہمان

$
0
0
Khana Kaba

Khana Kaba

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
اللہ کا گھر بیت اللہ آج بھی ہمیشہ کی طرح آباد تھا ‘حرمِ کعبہ پر لمحہ ہر پل یو نہی آباد و شاد رہتا ہے ‘عشق و محبت میں ڈوبے دیوانوں کا قافلہ بیت اللہ کے گر د دن و رات ‘دھو پ چھا ئوں ‘سرد گرم کی پروا کئے بغیر ہر وقت مسلسل حر کت کر تا نظر آتا ہے ‘حج کا مو سم دنیا جہاں سے آئے دیوانوں سے حرم کعبہ بھر چکا تھا میں آج کا سارا دن حرم کعبہ میں گزارنے آیا تھا ‘دنیا جہاں ‘دوستوں ‘رشتہ داروںسے کٹ کر صرف حرم کعبہ اور میں اور کچھ بھی نہیں ‘میںرشک بھری نظروں سے حرم کعبہ کے درو دیوار کو دیکھ رہا تھا ‘یہاں کے سیکورٹی اہلکار صفائی کے کاموں پر ما مور لوگ جن کی قسمت میں کعبہ کا دیدار لکھ دیا گیا تھا میں طواف کر چکا تھا اب میں ریلیکس ہو کر ادھر اُدھر گھوم رہاتھا میں جب تھک جاتا تو آب زم زم پی کر کسی جگہ بیٹھ جا تا اور خا نہ کعبہ کو ٹکٹکی با ند ھ کر دیکھنا شروع کر دیتا ‘خانہ کعبہ کو آپ جب بھی دیکھتے ہیں تو اُس کے شکو ہ و جلال سے آپ کا ذہن حواس خمسہ کی قید سے آزاد ہو نے لگتا ہے آپ کے رگ و پے میں ہلچل سی مچ جا تی ہے ‘نشے و سرور کی ایمانی بو ندیں آپ کے با طن کو روشن اور سرشاری سے ہمکنا ر کر تی ہیں ‘میں اللہ کے گھر اور اُس کے بندوں کو دیکھ رہا تھا جو طواف کر رہے تھے بلند آواز میں تلبیہ پڑھ رہے تھے خدا کو پکا ر رہے تھے دنیا کے چپے چپے سے آئے ہو ئے دیوانوں کے جسموں پر کفن جیسی جو دو چادریں تھیں ‘ایک لبا س ‘ایک جنوں ‘ایک احساس ‘نہ کو ئی با دشاہ نہ کو ئی فقیر ‘نہ کو ئی خوبصورت نہ کو ئی عام شکل کا ‘سب کی رگوں میں خون کی جگہ عشق و مستی کا نشہ دوڑ رہا تھا یہ سارے لو گ دنیا جہاں کے آرام و آسائش چھو ڑ کر بیت اللہ کے دیدار کو آئے ہوئے تھے۔

صدیوں کے پیا سے ایک ایسے جزیرے میں آگئے تھے جہاں پر ایمان افروز محبتوں کرموں شفقتوں کی رم جھم جا ری تھی اور سالوں کے پیا سے اپنی روحانی جسمانی پیا س کو بجھا رہے تھے ہر ایک خو د کو دنیا کا خو ش نصیب ترین فرد سمجھ رہا تھا ‘اپنی قسمت پر نازاں تھا ایک ایک لمحے کو خوب انجوائے کر رہا تھا یہاں پر گزرا ایک ایک لمحہ صدیوں پر بھا ری تھا یہ لمحے صدیوں پر محیط صدیاں اِن لمحوں کے سامنے ذرے سے بھی کم حیثیت رکھتی تھیں اِن میں اکثر یت ایسے دیوانوں کی تھی جنہوں نے ساری عمر ریزہ ریزہ جو ڑ کر اِس گھر میں آنے کے خوا ب کی تعبیر دیکھی تھی بے شمار راتیں اِس خوا ب کی تعبیر کے انتظار میں کا ٹی تھیں ‘لاکھوں دعائوں کا ثمر پایا تھا ‘ہزاروں رکو ع و سجو د کے بعد آج یہ دن دیکھنا نصیب ہوا تھا اور آج وہ اِس نشے میں تھے کہ دنیا جہاں کی دولت اُن کے ساتھ آگئی ہے یہ وہ لو گ ہو تے ہیں جو زندگی میں پہلی اور آخری با ریہاں آتے ہیں اور یہ ایک ہی با ر میں ایسا نشہ سرور آسودگی اپنے دامن میں بھر کر لے جاتے ہیں جو اُن کی با قی زندگی کے لیے کافی ہو تی ہے با قی زندگی جب بھی یہ یہاں پر گزارے لمحوں کو یا د کر تے ہیں اِن کی آنکھوں میں چمک اور لہروں پر نو ر پھیل جاتا ہے یہ اُن لوگوں سے بلکل مختلف ہو تے ہیں جو یہاں بار بار آتے ہیں یا یو رپ امریکہ جا تے ہیں ‘ انتظا ر کی طویل راتوں کے کر ب کے بعد وصل یا رکی لذتیں یہی سادہ لو گ سمیٹتے ہیں جو یہاں صرف ایک بار آتے ہیں اِن میں سے زیا دہ دن رات حر م میں گزارتے ہیں یا حرم سے دور کسی سستے عام ہو ٹل میں زمینی بستروں پر ڈیرے ڈالتے ہیں ایک وقت کا کھا نا کھا تے ہیںسار ا وقت بیت اللہ کے دلان میں گزارتے ہیں یہ دن رات خدا کی کبریا ئی کے نغمے الا پتے ہیں کر ہ ارض کے چپے چپے سے آئے ہو ئے یہ لو گ اپنی جسموں کی پیا س یہا ں بجھا تے ہیں جب یہ اپنے گھروں سے چلتے ہیں تو دعائوں کی پو ٹلیاں اپنی بغلوں میں دبا کر چلتے ہیں پھر انہیں جب بھی مو قع ملتا ہے نما ز سے پہلے یا بعد میں بیت اللہ کے کسی گو شے میں آب زم زم پی کر اپنی دعا ئوں کی پو ٹلی کھو ل کر ایک ایک کر کے خدا کے حضور پیش کر تے جا تے ہیں انہوں نے اپنی ڈائریوں اور کاغذ کے ٹکڑوں پر اپنے دوستوں اہل خا نہ رشتہ داروں کی حاجتوں کے گوشوارے بنا رکھے ہو تے ہیں اور پھر یہاں خا لق کا ئنات کے حضور پیش کر دیتے ہیں۔

اِن دعائوں کو دیکھ کر مجھے بھی بہت سارے عزیزوں دوستوں کے نا م اور دعائیں یا د آتی ہیں لیکن میں دعائیں نہیں کر پا تا کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ بیت اللہ کا مالک خدا ئے بزرگ و برتر تو ہر خیال سے واقف ہے پھر میں ملتجی نظروں سے آسمان کی طرف دیکھ کر پکا ر اُٹھتا ہوں اے خدا تو تو سب جا نتا ہے سب پر کر م فرما اور پھر میں بیٹھ کر سب دوستوں رشتہ داروں کے نام اور دعائیں یا د کر نے لگتا ہوں جنہوں نے سلام اور دعا کا کہا تھا دما غ کے پر دے پر سارے نام بار ی بار ی آنا شروع ہو جاتے ہیں حیرت اُس وقت ہو تی ہے اِ س کیفیت میں ایسے نا م بھی یاد آتے ہیں جن سے ملے آپ کو برسوں بیت گئے جنہوں نے آپ کو کچھ کہا بھی نہیں ہو تا لیکن اُ ن کے لیے دعائیں زمزموں کی طرح لبوں سے پھو ٹتی ہیں اور پھر یہ دعا اہل پاکستان سے گزر کر کر ہ ارض پر مو جو د تما م مسلمانوں کی دعائیں کر نے کے بعد اب میں یہاں پر آتے ہو ئے مہمانوں کو دیکھنا شروع کر دیتا ہوں ‘دن رات دنیاجہاں سے ہزاروں لوگ قافلوں کی شکل میں دیوانہ وار بیت اللہ کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں۔

عشق و محبت میں ڈوبے یہ قافلے چودہ صدیوں سے مسلسل یہاں آرہے ہیں اور آتے رہیں گے ہر روز لا کھوں لوگ حرم کعبہ میں آتے ہیں دو چار دن گزار کر واپس اپنی بستیوں میں لو ٹ جا تے ہیں لیکن بیت اللہ کا دلان اِن قافلوں سے ہمیشہ بھرا رہتا ہے پروانوں کے قافلے شب و روز دلان کعبہ میں اُترتے رہتے ہیں اِن مہمانوں سے سرائیں ہمیشہ بھری رہتی ہیں یہاں پر آنے والے زیا دہ تر دیوانے چند دن گزار کر چلے جاتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہو تے ہیں جو ایک بار یہاں آئے اور پھر کبھی مُڑ کر واپس نہ گئے ‘خانہ کعبہ کا نظا رہ اِس طرح رگ و جان دل و دما غ میں اُتر تا ہے کہ پھر اِسے خا نہ کعبہ کو نظروں سے اوجھل نہیں ہو نے دیتے حرم کعبہ کا نظا را انہیں اپنا قیدی بنا لیتا ہے پھر وہ کبھی پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھتے اپنے گھر بار رشتے داروں کو چھوڑنے والے یہ لوگ بہت عجیب اور پر اسرار ہو تے ہیں جو مکہ مدینہ کی خا ک کو اپنی آنکھ کا سرما بنا لیتے ہیں جو دنیا سے منہ مو ڑ کر صرف یہاں کے ہو جا تے ہیں ‘جو دن رات حر م کعبہ میں ہیں گزار لیتے ہیں ما دیت پر ستی میں غرق اربوں انسانوں میں یہی چند لو گ ایسے ہو تے ہیں جو دنیا کو ٹھو کر ما ر کر صرف یہاں کے ہو کر رہ جا تے ہیں ‘یہی ہو تے ہیں خدا کے دوست جو ہاتھ اٹھا دیں تو رحمت کر م چھلک چھلک پڑے جو قسم کھا لیں تو خدا اُن کی ہی ما نے اِن دیوانوں کے قرب میں چند لمحے آپ کی سالوں کی عبا دت پر بھا ری ہو تے ہیں جو کثا فت سے لطا فت کے پیکر میں ڈھل چکے ہو تے ہیں اب میں ایسے ہی پر ااسرار نوا رانی پیکر وں کی تلا ش میں تھا اِس میں کو ئی شک نہیں کہ ایما ن کے نو ر میں نہا تے ہی پراسرار بندے مشکل سے ہی ملتے ہیں اور اگر کسی کو مل جا ئیں تو اُس کے بھا گ جا گ جا ئیں اب یہ لو گ دنیا داروں کی نظر وں سے گم ہو چکے ہیں جبکہ سچ یہ ہے کہ گم ہو کر بھی اتنا کچھ پا چکے ہو تے ہیں بھا ری خزا نے اِن کے سامنے مٹی کے ذرات سے زیا دہ اہمیت نہیں رکھتے۔

PROF ABDULLAH BHATTI

PROF ABDULLAH BHATTI

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org

The post خانہ کعبہ کے مہمان appeared first on جیو اردو.

متشد بھارت کا روشن چہرہ

$
0
0
India

India

تحریر : میر افسرامان، کالمسٹ
ہم نے اپنے گزشتہ کالموں میں بھارت میں جاری پاکستان خلاف مہم کا کچھ احاطہ کرتے رہے ہیں کہ پاکستان خلاف مہم میں بھارت سرکار کے دہشت گرد وزیر اعظم نریدر مودی، اس کے وزیر داخلہ، شرپسند مذہبی رہنما،ا س کا میڈیا، اور کچھ ضمیر فروش سیکولر مسلمانوںنے اسلام کے خلاف نظریاتی اور پاکستان کے خلاف جنگ کا سا سماں پیدا کیا ہوا ہے۔ اب اس کالم میں بھارت کے امن پسند لوگوں کے بارے میں کچھ عرض کریں گے۔بھارت کے مسلمان بھارت میں مشاعرے خوب منعقد کرتے ہیں۔ جن میں شاعر اپنا اپنا تازہ کلام پیش کرتے ہیں۔

شاعر مسلمانوں کے ساتھ روا رکھی گئی زیادتیوں اور اپنے ہزار سالہ ہندوستان کی شاندار تاریخ اور اس میں ہندوئوں کے ساتھ برتی گئی بھائی چارے اور ان کے معاشی، تہذیبی ،ثقافتی اور مذہبی رواداری کا ذکر کرتے ہیں۔ہم بھی اپنے کالموں میں اس باتوں کو اُجاگر کرتے رہے ہیں تاکہ بھارت میں جاری مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی میں کچھ کمی واقعہ ہو۔ہم نے اپنے کالموں میں لکھا کہ بھارت کے حکمرانوں تم نے تو اپنی آزادی کے ستر سالوں کے اندر اپنی مسلم اقلیت کا جیناحرام کر دیا ہے۔ وہ بھارت میں ایک اور پاکستان بنانے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ جبکہ مسلمانوں نے تو تم پر ایک ہزار سال حکومت کی ہے۔ اس ہزار سالہ تاریخ میں مسلمانوں نے ہندوئوں کے ساتھ رواداری برتی۔ ان کے مذہبی معاملات میں دخل نہیں دیا جس سے عام ہندو مطمئن تھے۔

مغل سلطنت کے بانی بادشاہ بابر نے اپنے بیٹے ہمایوں کو ہندوئوں کے بارے نصیحت کی تھی کہ ان کے مذہبی جذبات کا خیال رکھنا ۔ شاید ہی وجہ تھی کہ اس کے بیٹے مغل اعظم اکبر کے دور میں تو ہنددئوں سے اس حد تک رعایت برتی گئی کہ اکبر نے نیا مذہب ہی ایجادد کر ڈالا۔ مگر متعصب ہندو حکمرانوں نے مغل بادشاہ بابرکی بنائی ہوئی یادگار باری مسجد کو شہید کر دیا۔ مغل شہنشاہ جہانگیر نے رعایا کے ساتھ عدل کی گھنٹی کا انتظام کیا تھا۔ مگرمتعصب ہنددئوں نے اس کے شاہکار تاج محل کے خلاف اب مہم شروع کر دی ہے۔ شیر شاہ سوری نے کلکتہ سے پشاور تک شاہراہ (جی ٹی روڈ) پر جہاں مسلمانوں کے لیے پانی اور آرام گائیں بنائی تھی ان کے ساتھ ساتھ ہنددئوں کے لیے بھی علیحدہ پانی اور آرام گائوں کا بھی انتظام کیا تھا۔ مسلمان حکمرانوںنے ہنددئوں کے مذہبی معاملات میں کبھی بھی دخل نہیں دیا۔ بلکہ ان کو چین اورراحت دی ۔ مسلمان بزرگوں کے انسان دوست رویہ اور روحانی فیض کی وجہ سے کروڑوں ہندو اسلام کے پرامن مذہب میں داخل ہوئے۔ہمیں مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کے زمرے میں ایک تحقیق کی گئی تھی یاد آئی۔ وہ اس طرح کہ تقسیم ہندوستان ایک سروے کیا گیا تھا۔ جس میںتیس کروڑ ہنددئوں میں سے کسی نے بتایا کہ ہم دہلی کے مسلمان بزرگ، کسی نے کہا کہ میں اجمیر کے برزگ اور کسی نے کہا کہ میں ہم سیون کے برزگ سے بیعت ہیں ہوں اور ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ ہمارے کچھ ہندو دوست ہیں وہ بھی ہمارے سامنے کچھ ایسی ہی باتوں کااقرار کرتے ہیں۔

ایک ہندو دوست جو وکیل ہیںنے بتایا کہ ہم ہندومرودں کو جلاتے نہیں بلکہ مسلمانوں کی طرح احترام سے قبروں میں دفناتے ہیں۔بھارت کے راجستان کے ہندوئوں کے متعلق کہیں پڑھ تھا کہ وہ مسلمانوں کی کافی رسم و رواج پر عمل کرتے ہیں۔ یہ تو سب مسلمان مذہبی پیشوائوں کی پر امن تبلیغ اور انسانیت سے پیار اور اسلام کی پر امن روایات کو بیان کرنے سے ہوا۔ اے کاش کہ برصغیر پر ہزار سالہ حکمرانی کرنے والے حکمران بھی اسلام کو پھیلانے میں مدد کرتے تو آج ساراصغیر پر امن اسلام کے دائرے سے منسلک ہو چکا ہوتا۔ ہم بھارت میں منعقد ہونے والے مشاہروں کی بات کر رہے تھے۔ جیو ٹی وی پروگرام جرگہ میںبھارت کی برہمن خاندان کی شاعرہ لتا حیا صاحبہ کے انٹرویو دیکھ کر خوشی ہوئی۔ وہ ایک ہندو خاندان کا فرد ہونے کے باوجود مسلمانوں پر مودی سرکار کے روا رکھے گئے مظالم کے خلاف اپنے شعروں میں اعلانیہ بغیر خوف خطر آواز اُٹھاتی ہیں۔ وہ بھارت کے مشہور معروف شخص روشن صاحب کے مشاہرے میں کئی سالوں سے شرکت کر رہی ہیں۔

مشاہروں میں اپنے شعروں کے ذریعے ظلم کے خلاف بولتیں ہیں۔ اپنے ایک شعر میں بھارت میں جاری ہندی اردو زبان کے مسئلہ پر کہتی ہیں کہ اگرتمھاری ہندی اُتم ہے۔ تو میری اردو اعلیٰ ہے۔ بھارت کی قوم پرست ٧٠ سالہ دور حکمرانی کے مقابلے میں مسلمانوں کے ہندستان پر ہزار سالہ حکمرانی کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے شعر میں بیان کرتی ہیں کہ اگر بھارت تمھارا ہے تو ہندستان ہمارا ہے۔ بھارتی حکمرانوں کی طرف کہ اگر مراعات دے کر ہنددئوںمال دار بنا دیا اور مسلمانوں پر نوکریوں پر پابندیوں اور اور تشدد کرکے ان کوغریب بنا دیا کو شعر کی زبان میں بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اگر گلستان تمھارا ہے۔ تو ریگستان ہمارا ہے۔ مودی کے گجرات میں مسلمانوں پر ظلم کی بھی اپنے شعروں میں رد کرتی ہو ئی نظر آتیں ہیں۔ ہندو مسلم اتحاد کی بات کرتے ہوئے کہتی ہیں۔ہندی کی ایک بہن ہے جس کا نام اُردو ہے۔ اس طرح ایک ہندو سادھو معاشرے میں مسلمانوں کے پیغمبر حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم کی شان میں تعریف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جیسے پیغمبرۖ مسلمانوں کے ہیں وہ ہندوئوں کے لیے بھی پیغمبر ۖہیں۔ اس لیے کہ اللہ نے انہیں رحمت العا لمین بنا کر ساری دنیا کے لیے پیغمبرۖ بنایا ہے اس لیے وہ صرف مسلمانوں کے پیغمبرۖ بلکہ ہندوئوں کے بھی پیغمبر ۖہیں۔

صاحبو!تاریخی طور پر بین الاقوامی اصولوں کے تحت پر امن اور جمہوری جدوجہد پر برصغیر کی تقسیم کو اگر بھارت کے حکمران اس کی روح کے مطابق عمل کرتے ۔ کشمیر کو کشمیریوں کی مسلم کانگریس کی الحاق پاکستان کی قرارد داد کے مطابق پاکستان سے ملے دیتے اور راجہ ہری سنکھ کی جعلی قراراداد کو بنیاد نہ بناتے آج بھارت اور پاکستان اچھے پڑوسیوں کی طرح رہ رہے ہوتے۔ کشمیر کے مسئلہ پر پاک بھارت جنگیں نہ ہوتیں۔بھارت نے تقسیم کے فارمولے پر کشمیر کو پاکستان سے نہ ملنے دیا۔ اس کے ساتھ پاکستان کو دل سے نہیں مانا۔ جنگ کے ذریعے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کر کے بنگلہ دیش بنا دیا۔ اب باقی ماندہ پاکستان کو توڑنے کی پالیسی پر عمل کر رہا ہے۔ بلوچستان،گلگت بلتستان اور کراچی کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کے لیے پاکستان میں خود اور قوم پرست افغانستان کے ذریعے دہشت گردی کروا رہا ہے۔ اس سے امن پسند قوتوں کے کمزور کرتا ہے۔بھارت کو چاہیے کہ کشمیریوں کو اپنے وعدے جو اس نے اقوام متحدہ میں کیا تھااستصواب کی اجازت دے کر پاکستان کے ساتھ پرامن رہنے کی پالیسی اختیار کرے۔ بھارت اور پاکستان کے عوام ایک دوسرے سے شیر و شکر ہو کر اچھے پڑوسیوں کی طرح رہیں یہی متشدد بھارت کا روشن چہرا ہو گا۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ

The post متشد بھارت کا روشن چہرہ appeared first on جیو اردو.


چوہدری طاہر محمود گجر کی اپنے دوستوں کے ساتھ ناروے آمد پر والہانہ استقبال اور شاندار عشائیہ کا اہتمام کیا گیا

$
0
0

ناروے (میاں عرفان صدیق) مسلم لیگ ن یوتھ ونگ فرانس کے نائب صدر چوہدری طاہر محمود گُجر جب اپنے دوستوں کے ساتھ پیرس سے ناروے کے دارالحکومت اوسلو ائیرپورٹ پر پہنچے تو ائیرپورٹ پر ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ گُجر برادرز نے بے شمار محبتوں سے نوازا اوسلو کے بزنس مین الیکٹرک انجینئر چوہدری اسد حسین آف کھاریاں نے فخر سعادت پور چوہدری طاہر محمود گجر،رانا محمد یاسین،میاں عرفان صدیق کی ناروے آمد پر ان کے اعزاز میں ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں اپنی رہائش گاہ پر پُرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا اس موقع پر راجہ سہیل حنیف، راجہ محمد عمر حنیف، چوہدری حاجی عنصر اقبال آف مراڑیاں، ارسلان بٹ، عمر، چوہدری صلابت علی آف کھاریاں، چوہدری وسیم اکرم، چوہدری وقاص اکرم، چوہدری آصف محمود گجر آف سعادت پور اور دیگر معززین کو بھی مدعو کیا گیا- چوہدری طاہر محمود گجر نے اس موقع پر چوہدری اسد حسین کا اس شاندار عشائیہ پر شکریہ ادا کیا۔

Dinner

Dinner

Dinner

Dinner

Dinner

Dinner

Dinner

Dinner

Dinner

Dinner

Dinner

Dinner

Dinner

Dinner

The post چوہدری طاہر محمود گجر کی اپنے دوستوں کے ساتھ ناروے آمد پر والہانہ استقبال اور شاندار عشائیہ کا اہتمام کیا گیا appeared first on جیو اردو.

لندن میں واقع لوٹن میں آزاد کشمیر سے آئے ہوئے راجہ فاروق حیدر کے اعزاز میں ایک جلسہ منعقد ہوا

$
0
0
Raja Farooq Haider

Raja Farooq Haider

لوٹن (زاہد مصطفی اعوان) لندن میں واقع لوٹن میں آزاد کشمیر سے آئے ہوئے راجہ فاروق حیدر کے اعزاز میں ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں سیاسی و سماجی شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی جلسے کے دوران تقریر کرتے ہوئے لارڈ قربان اور زبیر گل کے درمیان لفظی جنگ شدت اختیار کر گئی۔

زبیر گل نے اپنی تقریر کے دوران لارڈ قربان پر جلسہ ہائی جیک کرنے کا الزام لگا دیا اور کہا کہ لارڈ قربان نے جلسہ ہائی جیک کرنے کی کوشش کی جسے محبوطن لوگوں نے ناکام بنا دیا- زبیر گل نے مزید کہا کہ مسلم لیگ نواز کئ جلسے میں نواز لیگ سے ہمدردی نہ رکھنے والوں کو قبول تو کیا جا سکتا ہے مگر کسی کو جلسہ ہائی جیک کرنے کی اجازت ہر گز نہیں دے سکتے۔

لارڈ قربان نے کہا کہ زبیر گل محض ایک پارٹی کے مقامی صدر ہیں ان کا میرے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا- انہوں نے جسطرح کل جلسے میں جارحانہ رویہ اختیار کیا وہ قابل مذمت ہے میری طرف سے کل جلسے میں کوئی متنازع اور دل آزار بات نہیں ہوئی مگر زبیر گل نے پتہ نہیں کیوں اس کو ذاتیات اور انا کا مسئلہ سمجھ لیا اور مجھ پر سرعام بے جا تنقید کی۔

لارڈ قربان نے مزید کہا کہ زبیر گل کو کسی موضوع پر ٹھوس انداز میں تقریر کرنا نہیں آتی اور ان کے پاس کوئی تقریر کرنے کا موضوع بھی نہیں تھا جو انہوں نے اس ہتھکنڈے کا استعمال کیا – لارڈ قربان نے کہا کے میں سب کا متفقہ نماہندہ ہوں پتہ نہیں زبیر گل نے اسے متنازعہ کیوں بنایا- یاد رہے کہ لارڈ قربان اور زبیر گل کے درمیان لفظی جنگ کی وجہ سے جلسے کے ماحول میں گرمی پیدا ہو گئی تھی۔

The post لندن میں واقع لوٹن میں آزاد کشمیر سے آئے ہوئے راجہ فاروق حیدر کے اعزاز میں ایک جلسہ منعقد ہوا appeared first on جیو اردو.

شعبہ اردو تلنگانہ یونیورسٹی کے زیر اہتمام آج ڈاکٹر تقی عابدی کا توسیعی لیکچر

$
0
0
Dr Taqi Abedi lecture

Dr Taqi Abedi lecture

نظام آباد : ڈاکٹر اطہر سلطانہ پرنسپل و صدر شعبہ اردو تلنگانہ یونیورسٹی کی اطلاع کے بموجب نامور محقق و ماہر اقبالیات و غالبیات اور وزیٹنگ پروفیسر تلنگانہ یونیورسٹی ڈاکٹر سید تقی عابدی کناڈا ایک توسیعی لیکچر بعنوان” مولانا ابوالکلام آزاد شخصیت اور فن” بتاریخ 24اکٹوبر بروز منگل صبح10بجے بمقام سیمنار ہال کامرس اینڈ بزنس مینجمنٹ بلڈنگ تلنگانہ یونیورسٹی میں پیش کریں گے۔

اس توسیعی لیکچر کے مہمان خصوصی پروفیسر پی سامبیا وائس چانسلر تلنگانہ یونیورسٹی ہوں گے جب کہ مہمان اعزازی پروفیسر بی ودیا وردھنی رجسٹرار محمد نصیر الدین سابق ایکزیکٹیو کونسل ممبر تلنگانہ یونیورسٹی ہوں گے۔

ڈاکٹر اطہر سلطانہ خیر مقدمی کلمات پیش کریں گی۔ڈاکٹر موسیٰ اقبال اسسٹنٹ پروفیسر نظامت کے فرائض انجام دیں گے۔ڈاکٹر گل رعنا شکریہ ادا کریں گی۔ ڈاکٹر سید تقی عابدی اپنے دورہ ہند کے موقع پر تلنگانہ یونیورسٹی پہونچ رہے ہیں۔ اس دانشورانہ توسیعی لیکچر سے استفادہ کے لئے اردو دوست احباب’کالج کے لیکچررز’ اساتذہ صحافیوں شعرا اوار ادیبوں سے شرکت کی خواہش کی گئی ہے۔

The post شعبہ اردو تلنگانہ یونیورسٹی کے زیر اہتمام آج ڈاکٹر تقی عابدی کا توسیعی لیکچر appeared first on جیو اردو.

شعبہ اردو گری راج کالج کے زیر اہتمام ایم اے حفیظ کا امتحان کی تیاری موضوع پر اردو پاور پوائنٹ لیکچر

$
0
0
lecture

lecture

نظام آباد : زمانہ طالب علمی میں طلبا کو چاہئے کہ وہ اپنے امتحانات کی بروقت اور مناسب منصوبہ بندی کریں اور منصوبے پر مسلسل عمل کرتے ہوئے امتحانات میں کامیابی حاصل کریں۔ ان خیالات کا اظہار ایم اے حفیظ متعلم بی اے سال سوم اردو میڈیم گری راج کالج نے شعبہ اردو کے زیر اہتمام منعقدہ اردو پاور پوائنٹ لیکچر بعنوان” امتحانات کی تیاری کیسے کریں؟” سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ نے انسان کو باصلاحیت بنایا ہے ۔ طلبا کو چاہئے کہ وہ زندگی’صحت’دماغ’وقت اور صلاحیت جیسی اللہ کی نعمتوں کا درست استعمال کریں۔ والدین کو اپنی اولاد سے امید ہوتی ہے کہ ان کے بچے زندگی کے عملی میدان میں ترقی کریں گے۔اس لئے طلبا کو چاہئے کہ وہ امتحانات کی تیاری منصوبہ بندی کے ساتھ کریں۔ کامیابی کے لئے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ مناسب منصوبہ بندی’زندگی کے لئے مقا صد طے کرنا اور ان کے حصول کے لئے منصوبے کے ساتھ جہد مسلسل کرنا چاہئے تب ہی درکار کامیابی کا حصول ممکن ہے۔ امتحان سے قبل ٹائم ٹیبل بنا کر تمام مضامین کو پڑھنا چاہئے ۔ سبق کے اہم نوٹس خود بنانا اہم نکات کو خط کشیدہ کرلینا۔چارٹ بنانا۔ رٹنے سے احتراز کرنا۔ پڑھے گئے سبق کا اعادہ کرتے رہنا چاہئے۔ ایم اے حفیظ نے کہا کہ پڑھای کے لئے پرسکون ماحول ہو۔ پڑھنے کے دوران مناسب وقفہ لیا جائے شام کے وقت کچھ کھیل بھی سکتے ہیں۔

انہوں نے طلبا پر زور دیا کہ نماز کی پابندی کریں کیوں کہ اس سے دنیاوی اور اخروی فائدے ہیں۔ ہمیں۔ اپنی کمزوریوں کا اندازہ ہو اور ان پر قابو پایا جائے۔ امتحان سے عین ایک دن قبل اسباق کا اعادہ ہو وقت پر سو کر امتحان کے دن تمام درکار سامان کے ساتھ وقت سے قبل مرکز امتحان پہونچا جائے اور پرسکون انداز میں سوالات کے جواباد دی گئی ہدایات کے مطابق لکھے جائیں۔ سوال نمبر واضح لکھے جائیں۔ چمکدار قلم استعمال نہ کیا جائے امتحان سے دس منٹ قبل تمام پرچے پر نظر ڈالی جائے اور اپنا پرچہ ممتحن کے حوالے کردیا جائے۔ اللہ سے دعا کی جائے کہ وہ انہیں زندگی کے ہرامتحان میں کامیاب کرے۔ محمد حفیظ نے کہا کہ زندگی کے امتحانوں سے اہم آخرت کا امتحان ہے جس کا پرچہ ہمیں معلوم ہے اس لئے ہماری ذمہ داری ہے کہ ایمان کی دولت کی قدر کریں اور اسوہ رسول ۖ کے مطابق زندگی گزارتے ہوئے اپنی دونوں جہاں کی کامیابی کو یقینی بنائیں۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صدر شعبہ اردو نے کہا کہ یہ ہمارے لئے اعزاز کی بات ہے کہ ہمارے بی اے اردو میڈیم کے طالب علم نے ایک گھنٹے تک اردو پاور پوائنٹ کی مدد سے یہ اہم لیکچر دیا۔ جسے فیس بک کے ذریعے دنیا بھر میں پیش کیا گیا۔ اور لوگوں نے شعبہ اردو گری راج کالج کے فروغ اقدامات کی ستائش کی۔

The post شعبہ اردو گری راج کالج کے زیر اہتمام ایم اے حفیظ کا امتحان کی تیاری موضوع پر اردو پاور پوائنٹ لیکچر appeared first on جیو اردو.

عوامی پریس کلب کاہنہ رجسٹرڈ کے الیکشن 2018ء میں میاں محمد اشفاق چیئرمین، محمد اشفاق بھٹی صدر منتخب

$
0
0
Chairman Elected

Chairman Elected

لاہور : عوامی پریس کلب کاہنہ (رجسٹرڈ) کے سالانہ الیکشن سال 2018ء گزشتہ روز منعقدہوئے جس میں سینئرصحافی میاں محمداشفاق کو چیئرمین اور محمداشفاق بھٹی کو صدر منتخب کرلیا گیا،اس موقع پر سابق عہدیداران وممبران کی کثیر تعدادبھی موجودتھی جنہوں نے اپنا قیمتی ووٹ دے کر اہم کردارادا کیا۔

چیف الیکشن کمشنرکے فرائض ایم اے تبسم نے ادا کئے جبکہ دیگر عہدیداران وممبران میں غلام مصطفی بھٹی، ڈاکٹرمحمدعدنان، سیدصدا حسین کاظمی،زاہدصدیقی،منیراحمدیاسر، میاں نوازاشرف ،سیدارشدشاہ ودیگر ممبران نے شرکت کی اور نومنتخب عہدیداران کومبارکباد دی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

The post عوامی پریس کلب کاہنہ رجسٹرڈ کے الیکشن 2018ء میں میاں محمد اشفاق چیئرمین، محمد اشفاق بھٹی صدر منتخب appeared first on جیو اردو.

پیرمحل کی خبریں 24/10/2017

$
0
0
Pir Mahal

Pir Mahal

پیرمحل (نامہ نگار) غیر نصابی سرگرمیوں سے طلبہ کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے سمیت تعلیمی سرگرمیوں پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں وزیراعلیٰ پنجاب ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کے تحت تحصیل بھر کے سکولوں میں کھلاڑیوں کا چنائو کرکے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کو بہترین کھلاڑی مہیاکریں گے ان خیالات کا اظہار محمد خالد گجر اسسٹنٹ کمشنر پیرمحل نے ہمراہ محمدفاروق زاہد ، میڈم نسرین ، عبدالقیوم خان تحصیل سپورٹس آفیسر کے ہمراہ ضلعی حکومت کی طرف سے مہیا کیے گئے کوچز سے میٹنگ میں کیا انہوںنے کہا ملک سے غربت، جہالت، بیروزگاری کے خاتمے اور پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا واحد راستہ تعلیم ہے تعلیم کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کے تحت وزیراعلیٰ پنجاب ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کے تحت تحصیل بھر میں بہترین کھلاڑیوں کا چنائوہماری اولین ترجیح ہے جس کے لیے ضلعی حکومت کی طرف سے مہیا کیے گئے کوچز سے بھرپور استفادہ کریں گے انہوںنے ایجوکیشن افسران کو ہدایات کی کہ بہترین کھلاڑیوں کے چنائوکے لیے کوچز سے بھرپور تعاون کریں اور بہترین چنائوکے نتیجہ میں کھلاڑیوں کی ٹریننک کرکے انہیں مقابلہ جات کے مواقع فراہم کریں تاکہ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی سمیت نیا ٹیلنٹ سامنے آسکے خادم اعلی پنجاب ٹیلنٹ سپورٹس پروگرام سے کھیلوں کو گراس روٹس لیول سے فروغ کے مواقع ملیں گے

پیرمحل ( نامہ نگار ) بنک سے رقم نکلوا کر واپس آتے ہوئے تین کس نامعلوم ڈاکوئوں کی رقم چھیننے کی کوشش مزاحمت پر ڈاکوفرار بنک گارڈ نے متاثرہ شخص کی مدد کرنے کی بجائے آسانی سے واردات کرنے والوں کوجانے دیا تفصیل کے مطابق چک نمبر319گ ب کا رہائشی گل شیر ولد محمد سلیم ایم سی بی بنک پیرمحل سے رقم نکلواکر واپس بنک سے نکل رہا تھا کہ ایک بنک کے اندر سے نامعلوم شخص نے تعاقب شروع کردیا گل شیر یونہی بنک کے باہرنکلا تو تینوں ملزمان نے رقم چھیننے کی کوشش کی مزاحمت پر موقع پر موجود گارڈ جس کو مبینہ طورپر واردات کرنے والوں کا ساتھی قرار دیا ہے نے متاثرہ شخص کی کوئی مدد نہ کی جس سے واردات کرنے والے آسانی سے فرارہوگئے یادرہے کہ چند دن پہلے چک 665/6گ ب کے بزرگ شخص کو اسی طریقہ سے موٹرسائیکل پر بٹھاکر نقدی سے محروم کردیا تھا متاثرہ شہری گل شیر نے بنک گارڈ اور تین کس نامعلوم ڈاکوئوں کے خلاف تھانہ پیرمحل پولیس کو اندراج مقدمہ کی درخواست دے دی

پیرمحل ( نامہ نگار ) صفائی نصف ایمان ہے صحت مند زندگی کے لیے صفائی اہم جزو ہے ان خیالات کا اظہار محمد فاروق زاہد ڈپٹی ایجوکیشن آفیسر اور محمد عمیر اے ای او مرکز پیرمحل نے ہمراہ چوہدری محمد اسلم ، ہیڈماسٹر سہیل محمود گورنمنٹ پرائمری سکول غریب آباد پیرمحل میں تحصیل سطح پر صفائی سے آگاہی کے سلسلہ میں بچوں کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کیا ہاتھوں کی صفائی سے ہونے والی بیماریاں زیادہ تر گندے اور سہولیات سے محروم علاقوں میں رہائش پذیر افراد اور خصوصا بچوں کو لاحق ہوتی ہیں جوحفظانِ صحت کے اصولوں سے دور ہوتے ہیں ہم اپنے ہاتھوں کو درست اور بروقت طریقے سے صاف کرکے مختلف اینٹی بائیوٹک کے پھیلائوکو روک سکتے ہیں۔ہاتھوں کی صفائی صحت وصفائی سے متعلق ایک بہت اہم مسئلہ ہے کیونکہ جب ہم ہاتھوں کے حفظانِ صحت پر مناسب طریقے سے عمل کرتے ہیں تو یہ مختلف بیماریوں کے پھیلائو سے روک تھام کرنے کا بہترین طریقہ ہے، ہاتھوں کی باقاعدہ صفائی نہ ہونے سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہر سال بہت زیادہ تعداد میں بچے5سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔پورے دن میں ہم کئی مختلف اقسام کے ذرائع مثلا مختلف لوگوں اور آلودہ سطحوں کے ساتھ براہ راست رابطے سے اپنے ہاتھوں پر جراثیم جمع کرتے رہتے ہیں اگر ہم ہاتھوں کے حفظانِ صحت پر درست طریقے سے عمل نہ کریں تو ہم اپنی آنکھوں، ناک یا منہ کو چھونے سے اپنے آپ کو اِن جراثیم سے متاثر کرسکتے ہیں، اور یہ جراثیم ہمارے دوسرے افراد سے رابطہ کرنے یا دیگر سطحات کو چھونے کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں اور ہاتھوں سے پھیلنے والی مختلف بیماریوں مثلا نمونیا، دست، نزلہ، انتڑیوں کی بیماریاں، مختلف پیراسائیٹ سے ہونے والی بیماریاں اور ساتھ ساتھ جلداورآنکھوں کی بیماریاں شامل ہیں میں باآسانی مبتلا ہوسکتے ہیں، ان کے علاوہ بھی ہم اپنے ہاتھوں کے ذریعے اپنے جسم میں بہت سارے مختلف جراثیم داخل کرتے ہیں جو ہماری صحت کیلئے بے حد خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں اور پھر ان کے علاج کیلئے ہمیں مختلف اینٹی بائیوٹک استعمال کروائی جاتی ہیں جن کا واحد حل صرف اور صرف مکمل اور بھرپور طریقے سے ہاتھوں کی صفائی میں پوشیدہ ہے اس موقع پر سکول کے بچوں کو ہاتھوں کی صفائی کے متعلق عملی تربیت دی گئی

The post پیرمحل کی خبریں 24/10/2017 appeared first on جیو اردو.

آغا شورش کا شمیری

$
0
0
Agha Shorish Kashmiri

Agha Shorish Kashmiri

تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری
پاکستان کے مشہور و معروف شاعر، صحافی، سیاستدان اور بلند پایہ خطیب آغا شورش کا شمیری کو آج ہم سے بچھڑے بیالیس سال بیت چکے ہیں- انکی خطابت ، صحافت ، شاعری اور ادب کا مقصد صرف خوف خدا ہے انسان سے ڈرنا ربوبیت کی توہین ہے ۔ انکی قلم نے جو لکھا وہ معاصر ادیبوں کو نصیب نہیں ، جہاں الفاظ بولتے ہیں ، جملے دہکتے ہوں ، تحریر آتش فشاں ہو ، فکر پختہ اور روشن ہو اور نشاء کے قواعد کی پاسداری ہو ، خیالات کسی طوفانی بارش کی طرح آتے ہوں اور الفاظ موتی بنتے چلے جاتے ہوں ، اگر صاحب قلم جری اور بے باک نہ ہو تو ایسا لکھنا ممکن نہیں ہوتا۔

یہ جری خطیب اور صحافی حالات اور واقعات کے الجھاؤ کے باوجود اپنی ذات اور شخصیت کا صحیح مشاہدہ کرنے پر اس قدر قادر تھا ، اس کا انداز ان کے لکھے ہوئے مر ثیے سے ہوتا ہے – انہیں اپنی شاعرانہ صلاحیتوں اور ادیبانہ کمال اور خطی اُمّہ جوہر کا احساس تھا ہی لیکن وہ پروردہ زمانہ یاران آستین بدستا ں کے دو گانا رویوں سے بھی ے خبر نہ تھے۔

آغا شورش کاشمیری کا ہفت روزہ “چٹان “ بہت معروف اور مقبول رسالہ تھا۔ان کا اشاعتی ادارہ ۰مطبوعات چٹان” بھی بہت فعال تھا ۔ اس ادارہ نے شورش کاشمیری کی 18 تصانیف اور تالیفات شائع کیں – جن میں انکے دو شعری مجموعے بھی شامل ہیں- مو لانا ظفر علی خان ، سید عطا اللہ شاہ بخاری ، مولانا ابو آلکلام آزاد اور حمید نظامی پر شورش کی کتابیں لاجواب ہیں ۔ اقبال اور قادیانیت ‘ تحریک ختم نبوت اور فن خطابت کے موضوع پر شورش کی کتابیں نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہیں ۔ انکی کتابوں “پس دیوار زنداں” اور “شب جائے کہ من بودم” کے مطالعہ کے بعد ہی ہماری نئی نسل کو شورش کے زور قلم کا پوری طرح اندازہ ہو سکتا ہے ۔ گو شورش ہم میں نہیں مگر ان کے قلم سے روشن کئے ہوئے چراغ آج بھی پاکستان کی نظریاتی منزل کی سمت ہماری حقیقی رہنمائی کر سکتے ہیں۔

جناب شورش کاشمیری کو علم و نظر کی رفعتیں اورازمائش و ا بتلا میں سیاسی اجلا پن ے بے حد متاثر کیا ۔ اس ئیے انکے نزدیک ہر علمی وجود ادبی شخصیت اور سیاسی عظمت لائق تحسین ہے ۔ انہوں نے ابو الکلام آزاد سے انکے اسلوب نگاری اور اعجاز تحریر سے خطابت اور انشاء میں بیسو ں ادائیں سیکھیں ۔ علامہ اقبال نے انکو فکری جلا بخشی اور اسلام سے غیر متزلزل شعور بیدار کیا ۔ مولانا ظفر علی خان نے ان میں شعر گوئی کا ملکہ پیدا کیا اور صحافت میں آشہب خطابت کی شہسواری سکھائی ۔ سید عطا اللہ شاہ بخاری نے مجھے توحید کی راہ پر ڈالا اور رسول پاک سے میرے عشق کو پروان چڑھایا ۔ مولانا ابو اعلی مودودی کی تعلیمات میرے لئے مشعل راہ ہیں جنہوں نے یورپ کی علمی قیادت کو اسلام کا پیغام دے کر مسلمانوں کے معاشرے میں ایک ایسی تحریک پیدا کی جس کی فکری بنیادوں پر مسلمانوں کی نشاۂ ثانیہ کاسورج طلوع ہو سکتا ہے۔

آغاشورش کاشمیری کے تین رشحاتِ قلمِ ہیں ۔پہلی نظم کاعنوان “مسلمان “ہے جوعام مسلمانوں کے لیے طرز ِعمل اور فکر کی غما زہے، دوسری نظم “ہم اہل قلم کیا ہیں ؟”حکومتی دہلیزوں پر جُبّہ سائی کرنے والے صحافیوں کا پردہ چاک کرتی ہے ۔جبکہ تیسری نظم “دعائے نیمِ شَبی”بنیادی طور پر عام شہریوں خصوصاًسیاسی کارکنوں او ر صحافیوں کی ایک آرزو کااظہار ہے، جو آپ کی نذر ہے

دُعائے نِیم شَبی
زورِ بیان و قوّتِ اظہار چھین لے
مجھ سے مِرے خدا، مرِے افکار چھین لے
کچھ بِجلیاں اُتار، قضا کے لباس میں
تاج و کُلاہ و جبّہ و دستار چھین لے
عِفّت کے تاجروں کی دکانوں کو غرق کر
نظّارہ ہائے گیسو و رُخسار چھین لے
شاہوں کو اُن کے غرّۂِ بے جا کی دے سزا
محلوں سے اُن کی رفعتِ کہسار چھین لے
میں اور پڑھوں قصیدۂ اربابِ اقتدار
میرے قلم سے جُرأتِ رفتار چھین لے
اربابِ اختیار کی جاگیر ضبط کر
یا غم زدوں سے نعرۂ پَیکار چھین لے

قیام پاکستان سے پہلے انگریزی سامراج کے خلاف شورش کاشمیری کی جدوجہد اور لا زوال قربانیوں کی داستاں ہر ایک پر عیاں ہے اور پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد تحفظ ناموس رسالت کے لئیے شورش کی بے مثال خدمات حالات حاضرہ کی نوجوان نسل پر جادۂ حق پر چلنے کے لئیے حوصلہ اور استقامت پیدا کرنے میں اہم رول ادا کر سکتی ہیں – شورش میں قومی مقاصد کے لئیے قربانی دینے جذبہ بدرجہ اُتم موجود تھا – آج ہم اپنے گردو پیش پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں شورش کاشمیری جیسا ایک بھی مرد مومن ، مرد میدان اور قوم کی خاطر قربانیاں دینے والا ایک سیاست دان بھی دکھائی نہیں دیتا ۔ شورش اکثر اپنی تحریروں اور تقاریر میں یہ شاد عارفی کا یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔

ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھرے ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

شورش کے نزدیک سیاست تماش بینی نہیں بلکہ قوم و ملک کی خاطر ایک مقدس فرض ادا کرنے اور قربانیاں دینے کا نام تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست میں قومی آزادی کے لئیے ان کی عمر عزیز کا طویل عرصہ جیل کی نظر ہو گیا ۔ اپنی ہی سیاسی جدوجہد کے پس منظر میں انہوں نے یہ شعر کئے تھے۔

ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا
جب سیاست کا صلہ آہنی زنجیریں تھیں
از افق تا بہ افق خوف کا سناٹا تھا
رات کی قید میں خورشید کی تنویریں تھیں

آج ہمارے قافلے میں ایک بھی شورش کاشمیری جیسا امیر کارواں نہیں اور نہ ہی اقلیم صحافت کا ایسا تاجدار جو ان کی طرح بیک وقت ایک آتش نوا مقرر ، ایک صاحب اسلوب ادیب ، ایک قادر الکلام شاعر اور ایک جرآت مند و بہادر سیاست دان بھی ہو ۔ شورش نے “ہمارا جواب پیدا” کے عنوان سے ایک نظم لکھی جس کے ایک شعر پر میں اپنے مضمون کا اختتام کرتا ہوں۔

تاریخ مرے نام کی تعظیم کرے گی
تاریخ کے اوراق میں آیندہ رہوں گا

ختم نبوت کی خاطر اذیتیں اور قید وبند کی تکالیف جھیلنے والا شورش کاشمیری کچھ ایسے انداز سے رخصت ہوا کہ اپنے مشن کو بھی زندہ کر گیا اور ختم نبوت کے لئے جان دینے کا جذبہ بھی پیدا کر گیا.,۔

Dr. Muhammad Riaz Chaudhry

Dr. Muhammad Riaz Chaudhry

تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری

The post آغا شورش کا شمیری appeared first on جیو اردو.


کمالیہ کی خبریں ڈاکٹر غلام مرتضیٰ سے

$
0
0
Kamaliya

Kamaliya

کمالیہ (ڈاکٹر غلام مرتضیٰ) کمالیہ کے نواحی علاقہ 740 گ ب کے محمد خالد نے تحریری درخواست دی کہ چمن وغیرہ نے سائل کے ساتھ بد فعلی کر کے ویڈیو بنا کر زیادتی کی ہے کاروائی کی جائے۔ جس پر تھانہ صدر پولیس کمالیہ نے تحریری درخواست پر چمن وغیرہ کے خلاف دفعہ 377ت پ 18موشن پکچر ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمالیہ (بیوروچیف ۔ ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ) دوران تفتیش اسلحہ برآمد ہونے پر مقدمہ درج ۔تفصیل کے مطابق تھانہ صدر پولیس نے اڈا کلیرہ کے ملزم نصیر خان بضمن تفتیش مقدمہ نمبر 286/17بجرم 324/337F4/A1بر ریمانڈ جسمانی سے کاربین برآمد کر کے دفعہ2A/13-20-65 A0کے تحت مقدمہ درج کر لیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمالیہ (بیوروچیف ۔ ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ) ڈنڈے سوٹے سے وار کر نے والے کے خلاف تحریری درخواست پر مقدمہ درج۔ تفصیل کے مطابق 58/1ٹکڑا کے محمد اجمل نے تھانہ صدر پولیس کمالیہ کو ایک تحریری درخواست گزاری کہ امداد ،ہیتم نے جاوید اقبال وغیرہ کے مشورہ پر والدہ بشیر بی بی اور چچا زاد بہن منور بی بی کو بذریعہ ڈنڈے سوٹے مضروب کر کے سخت زیادتی کی ہے کاروائی کی جائے۔ پولیس نے تحریری درخواست پر ملزمان کے خلاف دفعہ 337A3-A1L2/109/34PPCکے تحت مقدمہ درج کر لیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمالیہ (بیوروچیف ۔ ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ) 2 نامعلوم ملزمان کی بذریعہ فائر کر کے واردات کرنے کی کوشش ۔تفصیل کے مطابق چاہ شاموں والا کے محمد سرور نے تھانہ صدر پولیس کمالیہ کو ایک تحریری درخواست دی کہ 2نامعلوم ملزمان نے سائل کو بذریعہ فائر واردات کی نیت سے مضروب کر کے سخت زیادتی کی ہے کاروائی کی جائے ۔جس پر پولیس تھانہ صدر نے تحریری درخواست پر نامعلوم ملزمان کے خلاف دفعہ 394ت پ کے تحت مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ۔

The post کمالیہ کی خبریں ڈاکٹر غلام مرتضیٰ سے appeared first on جیو اردو.

غریب اور خوراک

$
0
0
World Food Day

World Food Day

تحریر : عابد رحمت
گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کے ادارے برائے خوراک وزراعت کے زیراہتمام پوری دنیا میں خوراک کا عالمی دن منایا گیا۔ اس ادارے کے بنیادی مقاصد میں یہ شامل ہے کہ عالمی سطح پر خوراک کی پیداوار میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیاجائے ۔خوراک کی قلت کے خاتمے کے لئے جلدازجلدمؤثراقدامات کیے جائیں ۔عالمی خوراک کے متعلق عوام میں شعوروآگہی کواجاگرکیاجائے ۔غربت وافلاس کے خلاف بھرپورجدوجہدکی جائے اورغذائی قلت پرقابوپایاجائے، تاکہ آنے والی نسلیں خوراک کی قلت کاشکارنہ ہوں ۔یہ ادارہ سالہاسال سے اس کام میں کوشاں ہے مگراس کے باوجودبھی دنیامیں غذائی قلت اورخوراک کی کمی دورہونے کی بجائے بڑھتی جارہی ہے ۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال غذائی کمی کے شکارافرادکی تعدادمیں 11فیصداضافہ ہواہے ۔یہ امربھی قابل تشویش ہے کہ 2برس قبل دنیاکاہرساتواں فردغذائی کمی کاشکارتھا، جبکہ اس سال دنیاکاہرپانچواں فردغذائی کمی کاشکارہے۔

پاکستان غربت اورخوراک کی کمی کے لحاظ سے بدترصورتحال سے دوچارہے ۔ورلڈہنگرانڈیکس برائے 2017 ء کے اعدادوشمارسے پتاچلتاہے کہ پاکستان بدترین غذائی کمی کا شکارہونے والے ممالک کی فہرست میں چودھویں نمبرپرہے ۔ملکی آبادی کاہرچوتھافردغذائی قلت کاسامناکررہاہے ۔پاکستان میں غریب افراداپنی آمدنی میں سے 70فیصدحصہ خوراک پرخرچ کرتے ہیں لیکن پھربھی سات کروڑافرادکوپیٹ بھرکرکھانانصیب نہیں ہوتا۔اس حوالے سے اگردیکھاجائے تومجموعی طورپرپاکستان میں غذائی قلت کے شکارافرادکی تعداد49فیصدہے ۔اگراس غذائی قلت پرجلدقابونہ پایاگیاتومستقبل قریب میں یہ تعداد70فیصدتک پہنچ سکتی ہے ۔ یہ حقیقت بھی قابل غورہے پاکستان کوہرسال سات ارب ڈالرمعاشی نقصان اٹھاناپڑتاہے ۔ہمارے ملک میں اس وقت ایک تہائی آبادی انتہائی غربت اورمفلسی میں زندگی بسرکرنے پرمجبورہے۔

اب یہاں یہ سوال اٹھتاہے کہ آخر پاکستانی قوم ان حالات سے کیوں دوچارہے ؟کیاہمارے ملک میں زراعت کاشعبہ سرے سے موجودنہیں ؟پاکستان زرخیزہونے کے باوجودبھی کیوں بانجھ بن چکاہے ؟ان حالات کومدنظررکھتے ہوئے اگرجائزہ لیاجائے تومعلوم ہوتاہے کہ پاکستان میں زراعت کاشعبہ سب سے بڑاشعبہ ہے اورملکی پیداوارکاچوتھاحصہ اسی سے حاصل کیاجاتاہے۔جہاں پاکستان کوغربت میں دھکیلنے والے کمزورمالیاتی ادارے، بے جاحکومتی اخراجات، کرپشن اور ناکام اقتصادی پالیسیاں شامل ہیں ، وہیں کسانوں کااستحصال اوران کے حقوق کی پامالی بھی سرفہرست ہے۔

پاکستان میںخوراک میں زیادہ ترگندم ، چاول ، دالیں ، گوشت اورسبزیاں وغیرہ استعمال کی جاتی ہیں ۔لیکن بڑے ہی افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ یہی چیزیں سب سے مہنگی ہیں ۔روزمرہ کی اشیائے خوردونوش میں روزبروزکئی گنا اضافہ ہوتاچلاجارہاہے ۔اس مہنگائی میں سبزیوں کی قیمتیں سب سے زیادہ ہیں۔ پیاز، ٹماٹر، ادرک ، لہسن ، دھنیا، لیموں ، آلواوردیگرسبزیوں کی قیمتوں میں گزشتہ کئی ماہ سے ہوشربااضافہ ہواہے ۔ٹماٹرکی قیمت نے توآسمانوںکوچھولیا، حالانکہ گزشتہ ہفتے 300ٹن ٹماٹردرآمدکیے گئے ، اس کے باوجودٹماٹرکی قیمت بدستورقائم ہے ۔ دس ہزارماہوارکمانے والاغریب اتنی مہنگی سبزیاں کیسے خریدے اورکیسے اپنی خوراک پوری کرے ۔پرائس کنٹرول کمیٹی اگرچہ اپنی سی کوشش کرتی ہے مگرپھربھی قیمتیں مسلسل بڑھتی جارہی ہیں ۔گورنمنٹ کی جانب سے سبزی فروشوں کونرخ نامے جاری کئے جاتے ہیں ، جس میں حدِقیمت مقررہوتی ہے مگردوکاندارمقررکردہ قیمتوں سے تجاوزکرتے ہوئے سبزی فروخت کرتاہے ۔میراذاتی مشاہدہ اورتجربہ ہے کہ سبزیوں کی اس مصنوعی مہنگائی میں سرمایہ داروں ، جاگیرداروں ، وڈیروں اورمفادپرستوں کاکردار95فیصدہوتاہے ، 4فیصدمنڈی لگانے والے آڑھتیوں اورایک فیصد کردا ر دوکاندرا شامل ہوتاہے۔

جب ایک دوکاندارمنڈی سے 150روپے کلوٹماٹرخریدتاہے اورگورنمنٹ کی مقررکردہ قیمت 100روپے ہے توپھرایسی صورت میں بیچارہ دوکا ند ا ر کیا کرے ۔یقیناوہ ایسے حالات میں نرخ نامہ لے کرایک سائڈپہ رکھ دے گااوراپنی بچت کے حساب سے ٹماٹرفروخت کرے گا۔جب سبزی مہنگی ہوتی ہے تواس میں سب سے زیادہ گاہکوں کوپریشانی ہوتی ہے ، اس کے بعددوکاندار،پھرمنڈی میں بیٹھنے والے آڑھتی اوراس کے بعدکسان کونقصان پہنچتاہے ۔کسان اورآڑھتی کے درمیان ایک ایساکرداربھی شامل ہوتاہے جوکہ مرکزی حیثیت رکھتاہے اوراس کونقصان کی بجائے کئی فیصدنفع ہوتاہے ۔یہی وہ کردارہوتاہے جوکسان سے سبزیاں لے کرآڑھتی تک پہنچاتاہے ، اسی کے ہاتھ میں قیمتوں کااتارچڑھائوہوتاہے ۔حکومت اس پرہاتھ ڈالنے کی بجائے عام دوکانداروںکولتاڑنے میں جتی ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ قیمتوں میں کمی ہوناتودرکناربسااوقات چیزیں تک نہیں ملتیں ۔اس معاملے میں سب سے مظلوم کسان ہوتاہے ، کسان کاجب استحصال ہوتاہے اوراس کے حقوق کی پامالی جاتی ہے توپھروہ کھیتی باڑی چھوڑکرکسی اورپیشے میں طبع آزمائی کرتاہے ، یوں فی ایکڑزرعی پیداوارمیںمطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہوتے اورزرعی شعبہ مسلسل جمودکاشکارہوتاجارہاہے ۔کسان اناج اگاناچھوڑرہے ہیں ، اصل کردارپوشیدہ رہ کراپنی ذخیرہ اندوزی اورمصنوعی مہنگائی جیسی مذموم سرگرمیوں میں مصروف ہے اورغریب خوراک کوترس رہے ہیں ۔ضرورت اس امرکی ہے کہ جلدازجلداس پوشیدہ کردارکے ہاتھوں کوروکاجائے تاکہ غریب کی خوراک پوری ہوسکے اوردنیاسے غذائی قلت کاخطرہ ٹل جائے۔

muhammad abid

muhammad abid

تحریر : عابد رحمت

The post غریب اور خوراک appeared first on جیو اردو.

پدرم سلطان بود

$
0
0
Ch Barkhuddar Khan

Ch Barkhuddar Khan

تحریر : انجینئر افتخار چودھری
آج اٹھائیس سال ہو گئے والد محترم کو اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔یہی عصر کا وقت تھا میں قبلہ والد صاحب کے پاس اتفاق ہسپتال میں تھا ان کے گلے کا آپریشن ہوا تھا خون رک نہیں رہا تھا جس ڈاکٹر نے آپریشن کرنا تھا وہ عین وقت پر نہ آ سکے اور کسی اورا ناڑی نے آپریشن تھیٹر میں آپریشن کر دیا۔اتفاق ہسپتال ماڈل ٹائون لاہور کو قتل کرنے کے لائیسینس اس وقت بھی تھا اور شائد اب بھی یہ کام جاری و ساری ہے۔اس زمانے میں ایک خطیر رقم بٹوری گئی۔ڈاکٹر رائونڈ پر تھے پوچھا کیا خون کی ضرورت ہے بولے جی ہاں بندوبست کر لیجئے بڑے بھائی کو کہا اور وہ خون لینے چلے گئے پھر ہوا یوں کہ میری دنیا کے رکھوالے بستر سے سر اٹھا کے اٹھے زور سے سانس لیا اور میں نے اونچی آواز میں کلمہ شہادت پڑھا اور دل کی دنیا اندھیر ہوئی۔یہ ہوتا ہے اس ملک میں۔پتہ نہیں کتنے ہی لوگوں کو ڈھیروں روپے لینے کے بعد اللہ کی مرضی کہہ کر چپ کرا دیا جاتا ہے۔ان لمحات میں شور کرنا مناسب نہیں ہوتا بھائی جان کو فون کیا انہوں نے پوچھا کیا حال ہے بتا دیا اب وہ سکون میں ہیں اور خون کی کوئی ضرورت نہیں آ جائیے گھر جانا ہے۔

ہم بنیادی طور پر ہزارہ کے ہیں ہے بہت خوبصورت زمین ہزارہ یہاں آدمی کا ہے مشکل گزارہ

گزر اوقات ہوتی تو ہزاروں فرزندان ہزارہ نگر نگر مک ملک خاک نہ چھانتے یہاں کے جاگیر داروں کے پیٹ ہی نہیں بھرتے اسی لئے جدھر بھی جائو ہزارے والے روٹی ٹکڑ کی تلاش میں مل جاتے ہیں۔والد صاحب بھی اپنے بڑے بھائی چودھری عبدالغفار گجر کے ساتھ گجرانوالہ آ بسے ایک بڑا بھائی چھوٹے کی انگلی پکڑتا ہے سو انہوں نے پکڑی۔پہلے کامونکی میں ایک آڑھتی کے ساتھ بعد میں کچے دروازے میں فیروز خان میٹل ورکس میں شراکت کی بعد میں چوہان میٹیل ورکس الگ سے برتن بنانے کی فیکٹری بنا لی۔بڑی با رعب شخصیت تھے قد کاٹھ کوئی پانچ فٹ دس انچ کے قریب تھا جناح کیپ پہنتے۔رنگ گندمی۔بڑے معاملہ فہم،زیرک انسان تھے۔اپنے باپ سے اچھا کون ہو گا لیکن والد صاحب جنہیں ہم چا چا جی کہا کرتے تھے سچ پوچھیں ایک منصف ایک شفیق باپ کے ساتھشہر کی جانی پہچانی شخصیت تھے ۔سیاسی میدان میں ایوب خان حکومت میں اترے پہلا زینہ بنیادی جمہوریت میں ممبر کی حیثیت طے کیا ممبر منتحب ہوئے۔اب تو کہتے ہیں کہ جنی کنی سرمہ ڈالتی ہے اور چودھراہٹ بنا لیتے ہیں اس وقت تصور کریں جب اکائیوں میں فاصلے بہت تھے پنجاب بہت پسماندہ تھا ہزارے وال اور وسطی پنجابیوں میں ثقافتی دوریاں تھیں زبان مختلف تھی کھانا پینا الگ۔کہتے ہیں جب محلے کی عورتیں بیمار ہوتیں تو پہلی دوائی ہمارے گھر سے لیا کرتی تھیں اور وہ چائے تھی جو پنجابی لوگ نہیں پیا کرتے تھے۔

بے جی نے ان کی سیاسی معاونت میں کمال کی حدیں طے کیں۔ہم گجر لوگ اس وقت بھینسوں کے بغیر اپنے آپ کو نامکمل سمجھتے تھے ہمارے دروازے پر دو نہیں تو ایک لویری ضرور ہوتی تھی۔ اس کی سنبھال بے جی کو کرنا ہوتی تھی والد صاحب دودھ دھوتے تھے۔سادہ زمانہ تھا سالن وغیرہ کا رواج بھی نہ تھا دودھ دہی لسی سے کام چل جاتا تھا۔بنیادی جمہوریت کے نظام میں حصہ دار بنے۔علاقائی تعصب کی بناء پر ایوب خان کا ساتھ دیا۔جس دن الیکشن تھے میں نے انہیں خوبصورت شیروانی میں دیکھا پھول کا نشان سینے پر آویزاں کیا اور ایوب خان کی کنونشن لیگ کو ووٹ دیا۔یوں ہم آمر کے ساتھی کہلائے جا سکتے ہیں۔ہم چھوٹے تھے ہمیں اتنا یاد ہے سال چوسٹھ تھا عمر نو سال ہمیں بس کچھ نعرے یاد تھے ایرہ وغیرہ چھوڑ دو برخور دار کو ووٹ دو یہ چودھری برخودار میرے والد تھے ۔ساتھ والی گلی میں چا چا حمید لوہار سیٹھ مبارک جیتے چیئرمین حاجی کریم بنے ۔قبلہ والد صاحب کا کمال یہ تھا کہ وہ فیکٹری میں کام بھی کرتے اور انتہائی نفیس لباس زیب تن کرتے جرگے کے بندے تھے مجال گئی فضول لغو لوگوں کے ساتھ بیٹھک کی ہو۔اپنی فیکٹری میں مہمان خانہ بنایا اور گھر میں ایک مہمان خانہ ضرور رکھا۔کبھی کسی کو گلی میں کھڑے ہو کر روانہ نہیں کیا دروازہ کھلواتے چائے وغیرہ پیش کرتے۔یہ کبھی نہیں ہوا کہ مہمان بغیر کھائے چلا گیا ہو۔ہم بھائی اوپر کے نیچے کے تھے مہمانوں کے آگے چائے رکھتے کوشش ہوتی جو بسکٹ بچ جائیں وہیں ہڑپ کر جائیں خاص طور پر کھنڈ والے بسکٹ مجھے آج بھی بہت یاد آتے ہیں ایک بچے کی تصویر والے بسکٹ جن کے اوپر چینی لگی ہوئی ہوتی تھی وہ ہمارا پسندیدہ بسکٹ تھے جو کبھی میں کھا جتا تو کبھی بھائی۔شہر میں ابھرتے ہوئے صنعت کار تھے گجرانوالہ ہنر مندوں پہلوانوں اور بٹوں کا شہر ہے۔

کسرت،ہنر مندی اور بٹ گردی میں ان کا رہنا اور بڑے دلیرانہ انداز سے رہنا ہمارے لئے فخر ہے۔کبھی کسی بدمعاش تلنگے سے نہیں ڈرے۔اور شائد یہ چیز ہمارے خون میں بھی ہے کہ کسی آمر ڈکٹیٹر اور رنگ باز سے ڈر نہیں لگا۔ایک ماجھو بدمعاش تھا جس کے نام پر فلم بنی ہے۔ایک بار فیکٹری اس کے دوست کو کرائے پر دی۔سندھ کی زمینوں سے ناکام واپس آئے تو اس نے خالی کرنے سے انکار کر دیا الٹا ماجھو وہاں آنے لگا باغبانپورہ کے لوگ کہنے لگے اب دیکھتے ہیں کہ چودھری صاحب کیسے کارخانہ خالی کرواتے ہیں۔ایک دن ماجھو کارخانے آیا ہوا تھا والد صاحب بندوق لے کر پہنچ گئے یہ شائد ١٩٧٥ کی بات ہے جاتے ہی مانے لوہار کو کہا یار یہ دیکھ بندوق ٹھیک ہے اس نے چیک کر کے کہا جی چودھری صاحب ٹھیک ہے اس کے بعد اس میں دو کارتوس بھرے اور بندوق سیدھی ماجھو پر تانی اور کہا مرنے کے لئے تیار ہو جائو۔اس نے منت سماجت کی اور ایک ہفتے بعد کارخانہ خالی ہو گیا۔

شہر میں کشمیری برادری بہت ہے اس کی سر پرستی غلام دسگیر خان والد خرم دستگیر جو اب اسی کے پیٹے میں ہیں کرتے تھے۔ایک بار خلیرے بھائی کی جگہ پر بٹ بھرا نے قبضہ کرنے کی کوشش کی ان کے گھر جا کر معاملات درست کروائے۔شہر میں جس جرگے میں بیٹھتے لوگ ان کے فیصلے کو سراہتے۔اولاد کو سونا کھلانے کے عادی مگر شیر کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔بائیں ہاتھ کے کھلاڑی تھے سجی ادا کے کھبی سے کام چلایا کرتے تھے۔گھر میں کوئی ہی ان کے نشانوں سے بچا ہو گا۔شرارتوں میں سجاد نمبر ون اور اس کے بعد میں تھا باٹا کا ہاف کوورڈ سلیپر پہنتے تھے زیادہ تر اسی سلیپر سے تواضح کیا کرتے تھے۔بڑا ظالم قسم کا سلیپر ہے اب بھی نظر آئے تو سر میں کھجلی سی ہو جاتی ہے۔عموما پنجابی چوکے والا لاچہ ہاف بازو بنیان اور باٹا کے ہاف کورڈ سلیپر پہنا کرتے جب چلتے تو لاچے کے بائیں کونے کو بائیں ہاتھ کی دو انگلیوں میں لئے چلا کرتے صدقے جائوں ان کی اس عادت کے۔مجھے سجاد سے کچھ کم ہی مار پڑی ہے لیکن اس کمی کا تذکرہ کروں تو کتابیں درکار ہیں۔اپنی جوانی بچپن کے قصے سنایا کرتے تو مزہ آ جاتا۔آدھے احاطے کے مکان میں کرسی پر بیٹھ کر حقہ پنجابی تازہ کروا کے پچھلی دنیا میں چلے جاتے تو مزہ آ جاتا۔ہم نیچے پائوں میں بیٹھے ان کی داستوں کو سنتے اور سر دھنتے۔ایک بار بتایا کہ میں ہری پور شہر گیا تو ایک انتہائی خوبصورت آواز میں تلاوت سنی گھر سے سودا سلف لینے گیا تھا۔گائوں نلہ سے ہری پور آنا کون سا آسان تھے فرمایا آواز مجھے اپنی سمت لے گئی میں نے دیکھا ایک توانا اور صحت مند مولانا اللہ کا کلام پڑھ رہے ہیں۔میں نے انہیں سننا شروع کیا اتنے میں سٹیج پر روشن لیمپ بجھنا شروع ہو گیا کوئی بھی اسے روشن نہیں کر پا رہا تھا میں گیا اور اسے پمپ کر کے چلا دیا ھضرت نے پاس بٹھا لیا فرمایا میں نے پیسے اپنے ساتھی کے حوالے کئے اور اسے کہا جائو سودا لے جائو اب میں حضرت کے ساتھ ہوں۔وہ مولانا امیر شریعت عطا اللہ بخاری تھے والد صاحب نے پورے ہند کا چکر لگایا اور ان کی خدمت میں رہے۔وقت گزر گیا ہے گجرانوالہ کا ایک لوکل اخبار ہوا کرتا تھا اس کا نام قومی دلیر تھا بشیر صحرائی اس کے مالک تھے۔اس میں امیر شریعت کے ساتھ ٹرین کے ڈبے میں قبلہ والد صاحب کی دروازے پر کھڑے امیر شریعت کی تصویر چھپا کرتی تھی۔میرا بیٹا دلدار ان کی طرح لگتا ہے والد صاحب کوئی انیس بیس کے ہوں گے ثابت ہوا یہ تصویر پاکستان بننے کی ہے۔

ایک بار کیمونسٹوں سے متآثر ہو گئے سی آر اسلم قسور گردیز ی کا ساتھ رہا وہاں ایک محفل میں آقائے نامدارۖ کے بارے میں کسی نے گستاخی کر دی تو باٹا کے سلیپروں سے مرمت کر دی۔کوئی بی کمیونسٹ نظر آئے تو چھتر بھائی لگتا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو سے خدا واسطے کا بیر تھا ان کا کہنا تھا کہ یہ شخص ملک کے ترقی کے پہیئے کو روکے گا۔اور تیزی سے بڑھتا ہوا پاکستان پیچھے چلا جائے گا۔میں زیادہ بات نہیں کرتا لیکن دیکھ لیجئے ١٩٦٨ سے پہلے کا پاکستان اور بعد کا۔اس وقت کی پی آئی اے اور اب کی۔

بھٹو کی تحریک سے ہمیں دور رکھا اور ہمارے ساتھ تفصیلات سے بحث کیا کرتے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔شروع میں جب جمعیت میں گیا تو مولانا مودودی کے بارے میں ان کے خیالات مسلم لیگیوں والے تھے لیکن میری نماز کی پابندگی تعلیم پر توجہ تقریری مقابلوں میں حصہ لینے کو پسندیدہ قرار دیا۔١٩٧٧ کی نظام مصطفی موومنٹ میں قومی اتحاد کا بھرپور ساتھ دیا غلام دسگیر خان کی مکمل حمائت کی۔ایک بار میری تقریر چھپ کر سنی تو عش عش کر اٹھے اور گھر آ کر بے جی کو مزے لے لے کر سنائی اور کہا کہ مودودی نے منڈہ بندہ بنا دتا اے۔

میں جب تحریک ختم نبوت میں گرفتار ہوا تو رہائی کے بعد مجھے سندھ زمینوں پر بلا لیا۔میں اپنے ساتھ مرزائیوں کی کتابیں لے گیا مجھے سر ظفراللہ خان کی بد نیتی جان کر حیر ت ہوئی یہ انگریزوں کا تحفہ تھا جسے قائد اعظم کو وزیر خارجہ رکھنا پڑا۔اس نے اسلام کے نام پر افریقہ میں قادیانیت پھیلائی۔سر ظفراللہ خان سابق وزیر خارجہ ڈسکہ کا ساہی جاٹ تھا یہ وہی شخص ہے جس نے قائد اعظم کا جنازہ نہیں پڑھا اور کہا تھاکہ یا یہ مسلمان ہے یا میں۔آج جب ختم نبوت کی بات چلی ہے تو مجھے وہ قادیانی یاد آ گیا۔

والد صاحب قدم قدم یاد آتے ہیں۔میں نے ان کی ذات سے جو سیکھا ہے وہ یہ بات ہے
دستر خوان وسیع رکھو
بات نپی تلی کرو

جس سوچ پر سوچ کے چلے ہو اس کے دفاع کے لئے کٹ مرو
اچھا مشورہ چاہنے والے کو ضرور دو چاہے وہ آپ کو ناپسند کرے
مجھے نواز شریف کے ساتھ ایک صحافی کی حثیت سے کام کرنے کا موقع ملا ایک بار فوج کے بارے میں انہوں نے نا زیبا کلمات کہے منہ پر منع کیا(اوبرائے سن ٢٠٠٠)
سی ای سی کی میٹینگ میں عمران خان صاحب کو باور کرایا کہ منشور میں تبدیلی کی ہے اسے پڑھا جائے اور اعظم سواتی نے سنایا تو ہاں کی۔

اپریل چار ٢٠١٣ کو میریٹ میں صدر پی ٹی آئی جاوید ہاشمی کو لوگوں کے سامنے کہا کہ آپ پارٹی کے گوربا چوف ہیں ٹکٹ بیچے ہیں آپ نے۔یہی کچھ بعد میں عمران خان نے تسلیم بھی کیا۔جاوید ہاشمی جمعیت سے صاف نکلا چوبیس سالہ مسلم لیگی تعلق نے بیڑہ غرق کر دیا اور یہ سب کچھ میرے والد کی عادات تھیںجو مجھ میں ہیں۔اب اس بات پر قائم ہیں کہ حق کے لئے لڑ جائیں گے۔سیاست میں ہیں میرا چیلینج ہے کوئی ایک بندہ بھی ہاتھ اٹھا کر کہہ دے کہ میں نے زیادتی کی ہے۔وقت گزر گیا لوگوں کا ساتھ دیا پارٹی کا ہر مقام پر ساتھ دیا۔انشا اللہ اب بھی ایسا ہی ہو گا مگر یہ بات واضح ہے کہ کسی چور کو آگے نہیں آنے دیں گے اور کسی لٹیرے کو عوام کی آوز بیچ گیا۔یہ میرا چیلینج بھی ہے اور درخواست بھی کہ حق دار کو حق ملنا چاہئے۔یہ میرے باپ کی سوچ تھی اور یہ میری بھی ہے۔چار اکتوبر مجھے اس سوچ پر کھڑے رہنے کی تلقین کرتا ہے۔پدرم سلطان بود اور اللہ کے کرم سے سلطان ہوں۔

Iftikhar Chaudhry

Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری

The post پدرم سلطان بود appeared first on جیو اردو.

612 بچوں کے قاتلوں کو پھانسی کب

$
0
0
Thar Children

Thar Children

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
تھر اور چولستان موت کے کنوئیں اور ایسی گہری کھائی ہیں جہاں آج تک ہزاروں نو مولود کم سن اور کم عمر بچے صرف غذائوں کی قلت اور پانی کی کمی کی وجہ سے ہلاک ہو کرمدفون ہیں ان علاقوں میں کوئی باقاعدہ قبرستان نہ ہیں لوگ دور دراز پانی کی تلاش میں گھومتے پھرتے اور ذاتی طور پر بنائی گئی جھونپڑیوں میں رہائش پذیر ہیںجونہی بچہ فوت ہوتا ہے اسے وہیں دفنا دیتے ہیں صرف امسال ہی دس ماہ کے دوران چھ سو سے زائد بچے صرف غذائوں پانی اور ادویات کی کمی کی وجہ سے اگلے جہاں کو سدھار گئے ہیں تھر اور چولستان کے لیے اربوں روپے کے فنڈزسندھ اور پنجاب کی حکومتیںبیرون ممالک امداد کرنے والی کمپنیوں سے وصول کر رہی ہیں مگر ان علاقوں کے غرباء اور مساکین بے حال وپریشان ہیں ان نو مولود ننھے بچوں کی امددا بھی ساری کی ساری اسی طرح ہضم کر لی جاتی ہے جس طرح یہ کرپٹ اژدھے سرکاری خزانہ کا مال ڈکار جاتے ہیں ۔زرداری صاحب ہوں یا نواز شریف یاسابقہ و حالیہ مقتدر افراد کی کھربوں روپوں کی دولت بیرون ممالک جمع پڑی ہے ہمہ قسم لیکس ،پلازوں ،کارخانوں اور فلیٹس میں پاکستانیوں کی خون پسینے کی کمائیاں لگی ہوئی ہیں۔ٹھگوں چوروں اور ڈاکوئوں کے منظم گروہ سیاسی روپے دھارے بڑی پارٹیوں میں اہم عہدوں پر قابض ہیں ا س لیے ایک دوسرے کا احتساب کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

حال ہی میں تین اور بچے تھر میں جان سے گزر گئے مگر صدر وزیراعظم گورنر مرکزی و صوبائی وزراء کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی آخر تھر کے اندرمٹھی کے مقام پر اربوں روپے کی لاگت سے تعمیر کردہ ہسپتال کس غرض سے بنایا گیا ہے ؟وہاں ادویات تو مہیا نہ ہیںاور غریب مریضوں کو خوراک تک بھی نہ دی جاسکے تو نئے پلازے عالیشان سڑکیںمیٹرو نما بسیں اور اورنج ٹرینیں چلانے کا کیا فائدہ ہے؟مریض بلکتے بلکتے مر جائیں اور انہیں صاف پانی اور ادویات بھی مہیا نہیں کی جاسکتیں تو ایسے چونچلے کرنے کا کیا فائدہ ہوگا۔صدر ممنون حسین نے حال ہی میں یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چار سالوں کے دوران کھربوں روپوں کے قرضے جو کہ صرف ہسپتالوں تعلیمی اداروں اور پانی کے ڈیم بنانے کے لیے حاصل کیے گئے تھے وہ کیا ہوئے خدا ایسے کرپٹ لٹیروں اور ٹھگوںکو لازماً سخت سزاسے گزاریں گے۔

پوری قوم بجا طور پر مطالبہ کرتی ہے کہ صرف دس ماہ میں ان603و مزیدنو مولود و کم سن بچوں کی ہلاکت کا سبب تلاش کرکے جو بھی ملوث ہو خواہ وہ وزیر اعلیٰ یا کوئی بیورو کریٹ ہی کیوں نہ ہو ان کے خلاف قتل عمد کے مقدمات چلا کر انہیں تختہ دار پر کھینچا جائے ہمارے دوسرے خلیفہ حضرت عمرنے فرمایا تھا کہ میری خلافت کے دوران اگرایک کتا بھی بھوکا مرگیا تو میں آخرت میں کیا جواب دوں گا؟ نہ کوئی نوٹس لیتا ہے اور نہ ہی کوئی انکوائری ہوتی ہے مرکزی و صوبائی حکومتیں زیادہ مال بنائو مہم میں مصروف ہیں تاکہ آئندہ انتخابات میں دوبارہ ووٹوں کی بندر بانٹ کرتے ہوئے انہیں خریدا جا سکے تاکہ دوبارہ مقتدر ہو کر اسی طرح ان کا لوٹ کھسوٹ کا کاروبار جاری رہ سکے۔شریفین سبھی پانامہ لیکس سے جان چھڑوانے اور مقدمات بھگتنے میں مصروف ہیںمعصوم بچے جس طرح بھی ہلاک ہوتے رہیں انہیں کیا پرواہ ہے؟ کہ تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو اگر سخت ترین ایکشن نہ لیا گیا تو یونہی ہلاکتیں ہوتی رہیں گی۔

کم ازکم جو خوراک بیرون ممالک سے ایسے علاقوں کے لیے بھجوائی گئی ہے وہی بھوک مرتے بچوں اور مریضوں میں تقسیم کردی جائے مگر کرپٹ بیورو کریٹ اسے دوکانوں پر بیچ ڈالتے ہیں۔ایسے انتظامی افسران محکمہ خوارک کے ذمہ داران کو ٹکٹکیوں پر باندھ کر سخت ترین سزائیں دیا جانا اشد ضروری ہے شریفین تو اپنے مقدمات میں الجھے ہوئے ہیں مگر سندھ اور پنجاب کی حکومتیں کیا گھاس چرنے گئی ہوئی ہیں؟ کہ ان بے آب وگیاہ ریگستانی علاقوں تھر اور چولستان میں رہنے والے بچے صرف غذائی قلت پانی کی عدم دستیابی اور ادویات کی عدم فراہمی ،ٹرانسپورٹ کی کمی کی وجہ سے ہلاک ہوتے رہیں حکمرانواور بیورو کریٹو!خدا کے عذاب سے ڈرو کہ وہ بہت طاقتور ہے اور وہ زلزلے ،طوفان ،سیلاب بھیج کر ہمیں تباہ کرنے کی مکمل طاقت رکھتا ہے اور اگر آتش فشاں پہاڑ پھٹ پڑے تو ظالم افراد بھسم ہو کر کوئلہ بن کر رہ جائیں گے کہ گہیوں کے ساتھ گھن بھی پس جایا کرتا ہے ۔بیرونی امدادوں سے ان علاقوں میں سڑکیں بنانے اور کنوئیں کھدوانے اور بجلی مہیا کرنے کی سکیموں پر آج تک عمل شروع ہی نہیں کیا جا سکا غالباً یہ رقوم بھی ہضم کی جاچکی ہونگی۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چند روز قبل ہی سول ہسپتال مٹھی (تھر)میں ایک ہی روز قبل ازوقت پیدائش اور غذائی قلت کے باعث 9بچے مزید انتقال کر گئے ہیںقاتلوں کو کون پھانسی پر لٹکائے گا؟ وما علینا الا البلاغ۔

Dr Mian Ihsan Bari

Dr Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری

The post 612 بچوں کے قاتلوں کو پھانسی کب appeared first on جیو اردو.

شریف خاندان اور اسحاق ڈار کیخلاف ریفرنسز، پیش رفت رپورٹ نگران جج کو جمع

$
0
0
Sharif Family

Sharif Family

اسلام آباد (جیوڈیسک) نیب نے نواز شریف خاندان اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کیخلاف کرپشن ریفرنسز کی پیش رفت رپورٹ سپریم کورٹ کے نگران جج کو جمع کرا دی۔

نیب کی جانب سے پیش رفت رپورٹ نگران جج جسٹس اعجاز الاحسن کے چیمبر میں جمع کرائی۔ نگراں جج کو نیب پراسیکیوٹرز کو سکیورٹی دینے سے متعلق الگ رپورٹ بھی دی گئی ہے۔

رپورٹ میں نوازشریف، مریم صفدر، کیپٹن (ر) صفدر اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر عائد فرد جرم کی تفصیلات شامل ہیں جبکہ نگراں جج کو حسن اور حسین نواز کو مفرور قرار دیئے جانے کے فیصلے سے بھی آگاہ کیا گیا ہے۔

نیب کی جانب سے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جائیداد منجمد کرنے کی تفصیلات بھی رپورٹ کا حصہ ہیں۔ رپورٹ میں احتساب عدالت کے حکمنامے، اسحاق ڈار کیخلاف اب تک ریکارڈ ہونے والی شہادتوں کی تفصیل بھی شامل ہے۔

سکیورٹی سے متعلق الگ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عدالت کے حکم پر نیب پراسیکیوٹرز کو سکیورٹی فراہم کی گئی ہے۔ پولیس اور ایف سی اہلکار نیب وکلاء اور تفتیشی افسران کی سکیورٹی پر تعینات ہیں۔

The post شریف خاندان اور اسحاق ڈار کیخلاف ریفرنسز، پیش رفت رپورٹ نگران جج کو جمع appeared first on جیو اردو.

Viewing all 6004 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>