Quantcast
Channel: جیو اردو
Viewing all 6004 articles
Browse latest View live

حلف نامے میں ترمیم معمولی نہیں شریفوں کی قادیانیت نوازی ہے، مفتی محمد نعیم

$
0
0
Mufti Mohammad Naeem

Mufti Mohammad Naeem

کراچی : جامعہ بنوریہ عالمیہ کے رئیس وشیخ الحدیث مفتی محمد نعیم نے الیکشن ریفامز بل میں ختم نبوت پر حلف کو اقرار میں بدلنے کے شق پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ حلف نامے میں ترمیم معمولی نہیں حکومت کی قادنیت نوازی ہے ، حلف نامہ کو اقرار میں بدل کر قانون توہین رسالت کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ہے ،جس کے تحت حلف نامے کی اہمیت ختم ہوجائے گی ، ترمیم واپس نہیں لی گئی تو تمام مذہبی طبقہ اپوزیشن جماعتوں سے مل کر حکومت کیخلاف لائحہ عمل طے کرنے پر مجبور ہوگا۔ نوازشریف اپنے حالات سے سبق حاصل نہیں کررہے ہیں ،اللہ سے ڈریں ، ابھی عدالتوں میں رل رہے ہیں رویہ نہ بدلا تو کل جیلوں میں سڑنا پڑے گا، قانون توہین رسالت کیخلاف کسی بھی قسم کی سازش قابل قبول نہیں ہے۔ منگل کو جامعہ بنوریہ عالمیہ سے جاری بیان میں مفتی محمدنعیم نے کہاکہ نوازشریف اپنی ذات کیلئے ملک کو خطرات کی طرف دھکیل رہے ہیں ایک طرف ملک کو کرپشن کے ذریعے نقصان پہنچا یا جب پکڑے گئے ہیں تو اداروں کے کیخلاف غیر ذمہ دارانہ زبان استعمال کرکے ملک کو نقصان پہنچارہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ نوازشریف کبھی قادیانیوں کو اپنے بھائی کہتے ہیں کبھی ان کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کرکے آئین کو پامال کررہے ہیں جس سے صاف واضح ہوتاہے کہ لند ن میں اپنے ضمیر کو بیچ کر وطن واپس آئے ہیں ، انہوں نے کہاکہ گزشتہ روز منظور ہونے والا بل جس میں حلف کو اقرار سے بدل اور اس میں ترمیم کی کوشش کی گئی جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ، اتنے حساس معاملے پر مذہبی طبقے کی سیاسی جماعتوں کی خاموشی افسوسناک ہے اور ماضی میں قانون توہین رسالت کیلئے اکابر علماء نے بے شمار قربانیاں دی ہیں آج جمعیت کے اتحادی ہونے کے باوجود بھی یہ بل منظور کیاگیا جو ایک سوالیہ نشان ہے ، انہوں نے کہاکہ ملک پہلے سے ہی بحرانوں کو شکار ہے حلف میں ترمیم زیادہ خطرات کا باعث بنے گی ، انہوں نے کہاکہ پارٹی کی قیادت کوئی بھی نااہل کرے یا اہل کرے قوم کو اس سے کوئی سروکار نہیں مگر یہ ملک اسلام کے نام پر بنی اس مملکت میں قانون توہین رسالت یا آئین کی اسلامی شقوں میں تبدیلی غیور قوم کیلئے ناقابل برداشت ہے ، انہوں نے کہاکہ یہ ترمیم بظاہر معمولی ہے مگر اس سے میں سمجھتاہوں کہ اس حلف نامے کی اہمیت کو ختم کر دیا گیا۔

The post حلف نامے میں ترمیم معمولی نہیں شریفوں کی قادیانیت نوازی ہے، مفتی محمد نعیم appeared first on جیو اردو.


کمالیہ کی خبریں 4/10/2017

$
0
0
Dr.Ghulam Murtaza

Dr.Ghulam Murtaza

کمالیہ (بیوروچیف) برما میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم ناقابل برداشت ہیں۔ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ برما سے سفارتی اور تجارتی تعلقات ختم کرئے ۔برما نے مسلمانوں پر ظلم کی انتہا کر دی ہے’ برما کے مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہاہے۔ زندہ انسانوں کو جلایا اور معصوم بچوّں کو ذبح کیا جارہاہے، ان حالات میں ہم خاموش تماشائی نہیں بن سکتے۔ان خیالات کا اظہار سماجی و فلاحی ورکر ڈاکٹر غلام مرتضیٰ نے اپنے بیان میں کہا کہ دنیا بھر کے مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اور مظلوم کا ساتھ دینا اللہ کا حکم ہے۔ انہوں نے عالم اسلام کے حکمرانوں سے مطالبہ کیا کہ برما کے سفیروں کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر فوری طور پراپنے ممالک سے نکالا جائے اور پاکستانی سفیر کو بر ما سے واپس بلایا جائے۔ روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر برما کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ انہوں نے کہاکہ ہمارا مقصد اپنے ملک کی املاک کو نقصان پہنچانا نہیں، ہم احتجاج کے ذریعے عالمی ضمیر کو جگانے کی کوشش کررہے ہیں۔مقررین نے برما حکومت کو خبردار کیا کہ اگر تم نے برما کے مسلمانوں کا قتل عام بند نہ کیا تو پاکستان کا بچہ ّبچہ ّبرما کی طرف مارچ کرئے گا اور اسے صفحہ ہستی سے مٹا دے گا’ انہوں نے کہا کہ برمی حکومت کی دہشتگردانہ کارروائیاں عالمی امن کیلئے خطر ہ ہیںان کو فی الفور روکا جائے اور پاکستان سے برما کے سفارتی تعلقات ختم کریں۔لوگ کہتے ہیں کہ آنگ سان سوچی سے نوبل انعام واپس لیا جائے مگر میں کہتا ہوں کہ اس کو واصلِ جہنم کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمالیہ ( بیوروچیف ۔ ڈاکٹر غلام مرتضیٰ) کمالیہ اونچی آواز میں ڈیک چلانے پر رکشہ ڈرائیور کے خلاف مقدمہ درج ۔تفصیل کے مطابق تھانہ سٹی پولیس کمالیہ دوران گشت ریلوے روڈ نزد قبرستان کربلا کمالیہ کے قریب موجود تھے کہ ظہیر عباس نے اونچی آواز میں اپنے رکشہ پر ڈیک لگا رکھا تھا جس پر تھانہ سٹی پولیس کمالیہ نے ظہیر عبا س کے خلاف دفعہ6ُPSSR کے تحت مقدمہ درج کر لیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمالیہ ( بیوروچیف ۔ ڈاکٹر غلام مرتضیٰ) نامعلوم افرادگن پوائنٹ پر موٹر سائیکل سوار سے موبائل اور نقدی چھین کر فرار، مقدمہ درج۔ تفصیل کے مطابق موضع قادر بخش کے امتنان اللہ نے تھانہ صدر پولیس کمالیہ کو ایک تحری درخواست دی کہ 2نامعلوم افراد نے سائل کا موٹر سائیکل زبر دستی روک کر سائل سے موبائل نقدی اور ڈرائیونگ لائیسنس LTVچھین کر فرارہو گئے تھانہ صدر پولیس نے تحریری درخواست پر نامعلوم افراد کے خلاف دفعہ 382ت پ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمالیہ ( بیوروچیف ۔ ڈاکٹر غلام مرتضیٰ) پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ عوام پر ڈرون حملہ ہے اس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا۔ غریب عوام دووقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں جبکہ پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ پاکستانی عوام کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے ان خیالات کا اظہار حلقہ پی پی88کے امید وار برائے ایم پی اے رانا محمد نوید نے ہمارے نمائندے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا۔ انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات میں اس لیے اضافہ کیا گیا ہے کیونکہ اب آئی ایم ایف کی قسط دینی ہے اور یہ رقم انہوں نے پاکستان کے غریب عوام کی جیبوں سے نکالنی ہے جو کہ کسی ڈرون حملہ سے کم نہیں عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں اور ہماری موجودہ حکومت ان غریب عوام کے منہ ّ سے نوالہ تک چھیننے پر تلی ہوئی ہے انہوں نے مزید کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات سے اب ضروریات زندگی کی ہر اشیاء میں اضافہ ہو گا اور اس اضافے سے اب غریب عوام مذید خود کشیاں کریں گے پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کر کے پاکستانی عوام پر حکومت نے ڈرون حملہ کیا ہے جس سے عام آدمی بھی متاثر ہو گا ہم چیف جسٹس آف پاکستان اور صدر پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھی جائیں اور اضافہ فوری طور پر واپس لیا جائے ورنہ عوام سڑکوں پر نکل آئیں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمالیہ ( بیوروچیف ۔ ڈاکٹر غلام مرتضیٰ) کمالیہ سبزی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں مرغی کا گوشت سستا جبکہ سبزیوں اور پھلوں نے اپنے پر نکا ل لیے حکومت پاکستان مہنگائی پر کنٹرول کرنے میں ناکام عوام کی چیخین نکل گئیں۔ تفصیل کے مطابق دوسرے شہروں کی طرح کمالیہ شہر میں بھی سبزی اور پھلوں کی قیمتیں غریب عوام کی پہنچ سے دور ہو گئیں ہیں موجودہ حکومت نے عوام سے الیکشن سے پہلے وعدہ کیا تھا کہ اب ملک میں کوئی بھی غریب نہیں رہے گا اور بے روز گاری کا خاتمہ ہو گا حکومت کی یہ بات سچ ہوتے نظر آرہی ہے کیونکہ مہنگائی میں اس حد تک موجودہ حکومت نے اضافہ کر دیا ہے کہ اب ملک میں کوئی غریب آدمی زندہ نہیں رہتا نظر نہیں آرہا وہ بھوک اور بے روز گاری سے خودبخود ہی مر جائیگے اس طرح حکومت کے مطابق ملک میں مہنگائی ختم ہو جائے گی جب غریب زندہ ہی نہیںرہے گا تو پھر بے روز گاری بھی خود بخود ہی دم توڑ جائے گی موجودہ حکومت نے ملک میں مہنگائی کا جن بوتل سے ایسے باہر نکال دیا ہے کہ وہ سب غریبوں کو کھا رہا ہے اور لوگ بھوک اور افلاس کی وجہ سے بچے ّ فروخت کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور خودکشیوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے لہٰذا پاکستان کی غریب عوام نے موجودہ حکومت پر جتنا اعتماد کیا وہ سب کا سب چکنا چور ہو گیا ہے سیاست دان غریب کے منہ سے نوالہ چھین کر دوسرے ملکوں میں اپنا علاج معالجہ کروا رہے ہیں اگر حکومت نے مہنگائی کا جن بوتل میں بند نہ کیا تو عوام سڑکوں پر نکل آئیں پھر جن تو کیا حکومت کو بھی بھاگنے کا راستہ نہیں ملے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

The post کمالیہ کی خبریں 4/10/2017 appeared first on جیو اردو.

میری سمجھ سے ہے بالا تر

$
0
0
Inflation

Inflation

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
بیس کروڑ عوام کے چنیدہ راہنمایان قوم کی نظر میں اس وطن میں بسنے والے انکے ریوڑ کی بھیڑ بکریاں ہیں فقط ایک انسان ہے انکی چشم انسان شناس میں اور وہ ہے اس ملک کا سابق وزیر اعظم نواز شریف کیونکہ انسان کو انسانوں کی تکلیف سے اذیت پہنچتی ہے اس لئے یہ سب اسکے دکھوں کا مداوا بن کر میدان عمل میں کود پڑے ہیں باقی بیس کروڑ بھی اگر ان کی نظر میں انسان ہی ہوتے تو یہ سب وزراء انکے دکھوں کے مداوا کے لئے سوچ رہے ہوتے سارے کے سارے احتساب عدالت کے احاطے میں جمع نہ ہوتے مجھے تو ایسے لگ رہا ہے کہ یہ سارے گدڑیئے بیس کروڑ عوام کے ریوڑ کا مالک سمجھ کر ایک نا اہل شخص کے پیچھے پیچھے صف بستہ نظر آرہے ہیں ۔ان سارے وزراء کو ایسا لگ رہا ہے کہ بیس کروڑ بھیڑ بکریاں تو پیدا ہی ذبح ہونے کے لیئے ہوئی ہیں اگر بادشاہ سلامت ان سے ناراض ہو گئے تو ان بھیڑ بکریوں کو چرانے کی نوکری بھی انکے ہاتھ سے جاتی رہے گی۔

اسی لیئے تو کبھی وزارت پٹرولیم ان بھیڑ بکریوں کی کمر میں پترول کی قیمت بڑھا کر ایک زور کی لاٹھی جڑ دیتے ہیں تاکہ اس کی تکلیف کی شدت سے بھیڑ بکریاں کمر دوہری کر کے سر کو جھکا کر چلتی رہیں ،کبھی بجلی والا گدڑیا اس شدت کا شارٹ لگاتا ہے ان بھیڑ بکریوں کے وجودوں پرکہ انکی ساری اوون اور کھال جھلس کر رہ جاتی ہے ،کبھی تجارت والا گدڑیا ان بھیڑ بکریوں کے سامنے سے ٹماٹر تک پرے کر لیتا ہے جیسے وہ ٹماٹر نہ ہوں بلکہ عنبر و زعفران ہوں یہ تمام بھیڑ بکریاں منمناتی ،بلبلاتی ،تڑپتی جھلستی اپنی زندگی کی سانسیں پوری کر رہی ہیں مگر یہ سارے گدڑیئے معزول شہنشائہ معظم کی خوشنودی کی خاطر ان بیس کروڑ بھیڑ بکریوں کی طرف پشت کیئیاپنے آقا کے آگے پیچھے بچھ بچھ جا رہے ہیںیہ باتیں میری سمجھ سے تو بالا تر ہیں قارئین کرام میری عقل کا خانہ بہت چھوٹا ہے شائید اور ان وزراء ٹائپ لوگوں کا خوشامد سے بھرا ہوا برتن بہت وسیع و عریض ۔میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جس عوام نے ان لوگوں کو اپنا خیر خواہ اور حامی جان کرایوان اقتدار میں بھیجا کہ یہ لوگ ہمارے نمائندے بن کر ہمارے دکھوں اور مسائل کا مداوا کرنے کے لیئے محنت کریں گے ہمارے رستے ہوئے زخموں پر مرہم لگائیں گے ،ہماری مصیبت پر بے چین اور مضطرب ہو جائیں گے مگر افسوس ایسا ہو نہیں پایا اور وہی لوگ اس عوام کے جسموں پر بذات خود مرہم رکھنے کی بجائے نت نئے زخم لگانے میں مشغول ہو جاتے ہیں اور ہاں اس عوام کے ساتھ ایسا ہونا بھی چاہیئے جو خود کو انہی لوگوں کے ہاتھوں زخم زخم ہوتا دیکھتے ہیں اور اپنی زبان سے بولتے تک نہیں کل تک جو لوگ ایک ووٹ کی پرچی کے لئے ان کی منتیں کرتے ہیں بعد میں انہی کے ووٹ کی دی ہوئی طاقت سے اتنے خونخوار بن جاتے ہیں کہ یہی عوام ان کے خوف کے باعث شکائت بھی نہیں کرتے اور وہ لوگ بھی اس بات کو یکسر فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ جن کی بخشی ہوئی ووٹ کی طاقت سے وہ سلطنت اقتدار کے بااختیار وزیر کے منصب پر فائز ہوئے ہیں انہی کے حلقوم پر وہ کبھی بیروز گاری کا خنجر چلا رہے ہوتے ہیں ،کبھی مہنگائی کے ٹوکے سے انکی ہڈیاں کاٹ رہے ہوتے ہیں ،کبھی بجلی کے شاک دے کر انکے گوشت کو روسٹ کر رہے ہوتے ہیں ،کبھی سبزیوں اور پھلوں کو ان کی پہنچ سے باہر کر کے انکو بھوک کے ایندھن میں جھونک رہے ہوتے ہیں مگر صرف ایک شخص کو ہی پاکستان سمجھتے ہوئے اسکی خوشنودی کی خاطر آگے پیچھے پھر رہے ہوتے ہیں یہ لوگ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہی اک شخص ہے تو پاکستان ہے ورنہ کچھ نہیں۔

کبھی ان لوگوں نے مہنگائے کے خلاف کوئی قانون سازی کی ؟کبھی روزگار بہم پہنچانے کے لیئے انہوں نے قانون بنانے کی کوئی سعی کی ؟کبھی اپنا نظام تعلیم اور نصاب تعلیم بنانے کی ہمت کی ؟ اکہتر سال ہونے کو ہیں صحت کے میدان میں پاکستان اپنے فارما کوپیا سے نابلد ہے اغیار کے فارما کوپیا کے رحم و کرم پر ہیں ہم کبھی کسی صحت کے وزیر باتدبیر نے اپنا فارما کوپیا بنانے کے لیئے کوئی کام کیا ؟یہ سارے کام کیوں نہیں کئے فقط اس وجہ سے کہ اگر یہ سارے کام کر دیئے گئے تو اس کا بالواسطہ فائدہ عوام کو پہنچے گا ، مہنگائی کم ہو گئی تو عوام خوشحال ہو جائے گی اور اگر یہ خوشحال ہوگئی تو اس کا دماغ صیح سمت میں سوچنے لگ جائے گا اور اگر اس عوام کی سوچ نے سیح سمت کا تعین کر لیا تو کل کو یہ عوام ہمارے ڈرانے دھمکانے یا پھر اپنے گھر کے آٹے دال کے پیسوں کے عوض ہمارے پاس رہن رہنے کے لیئے تیار نہ ہونگے ، پھر انکے ووٹ فار سیل نہیں رہیں گے ، اگر روزگار عام کر دیا تو یہ لوگ خود کفیل ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے کاموں میں مصروف عمل ہو جائیں گے۔

پھر ہماری گاڑیوں کے آگے پیچھے آوے گا بھئی آوے گا ،جیتے گا بھئی جیتے گا کے راگ کون الاپے گا ۔اور اگر فارما کوپیا ہم نے اپنا ترتیب دے لیا تو ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف سے کمیشن آنا بند ہوجائے گا سستی ادویات عوام کی دسترس میں آجائیں گی ۔اور اگر نظام تعلیم اور نصاب تعلیم پاکستان کا اپنا ہو گیا تو پھر پرائیویٹ تعلیمی فیکٹریوں کا کاروبار بند ہو جائے گا انگریز کی غلامی کا پٹہ گلے سے اتر جائے گا ۔یہ ہم چاہتے نہیں کیونکہ قوم کے مفادات ان لوگوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں انکی اولین ترجیح ایک شخص کی خوشنودی اور اپنے ذاتی مفادات ہیں اور ظاہر ہے یہ اسی شخص کی خوشنودی کے خواہاں ہوں گے جو انکے ذاتی مفادات کے تحفظ کا ضامن ہو گا عوام کے حقوق کی جنگ ان لوگوں کے ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں ۔ابھی کل کی بات ہے میاں نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی تھی میاں نواز شریف نا اہل قرار ہونے کے بعد پہلے سے بڑے سرکاری لائو لشکر کے ساتھ تقریبا چالیس سے زائد پروٹوکولی گاڑیوں کے حصار میں مکمل شاہی طمطراق سے عدالت پہنچے پاکستان کی وفاقی حکومت کے وزراء کی ایک بڑی تعداد بشمول وفاقی وزیر داخلہ عدالت کے گیٹ پر دیکھ کر کسی بھی موقعے پر بالکل ایسا محسوس نہیں ہوا کہ جناب میاں صاحب وزارت عظمیٰ کے منصب سے سبکدوش ہو چکے ہیں بلکہ ایسا لگا کہ شہنشائہ اکبر کی سواری دارالحکومت میں سیر کو نکلی ہوئی ہے ۔سب سے پہلی بات تو یہ کہ جب عدالتی حکم کے مطابق کسی بھی وزیر کے عدالت میں اانے پر پابندی تھی یعنی عدالت نے منع کر رکھا تھا تو پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزراء آخر کس بنیاد پر احتساب عدالت تشریفیں لے کر گئے اس پر طرہ یہ کہ جب احتساب عدالت میں پیش کئے گئے کیس کی پیشانی پر درج ہے سرکار بنام نواز شریف تو یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ درباری وزراء سرکار کی جانب سے عدالت میں گئے یا ملزم کی حیثیت سے پیش ہونے والے نواز شریف کی طرف سے ؟اگر نواز شریف کی طرف سے گئے تو کیا یہ خود سرکار رہ سکے ؟اپنے اپنے وزارتی امور سے روگردانی کرتے ہوئے فرد واحد بچائو مہم میں پیش پیش ہونا کیا ان پر کوئی الہامی حکم نازل ہوا تھا ؟

کس قدر حیرت کی بات ہے کہ داخلہ امور کی وفاقی وزارت کے حامل شخص جو سٹیٹ کے اندرونی معاملات کے ذمہ دار ہیں وہ فرما رہے تھے کہ سٹیٹ کے اندر سٹیٹ نہیں بننے دی جائے گی ۔ ایک سٹیٹ تو ہے پاکستان جس کی مدعیت میں مقدمہ درج ہے یعنی نواز شریف بنام سٹیٹ اب میری سمجھ سے یہ بات واقعی بالا تر ہے کہ ان وزراء کے لئے پاکستان سٹیٹ ہے یا نواز شریف ؟سب سے قابل افسوس بات یہ ہے کہ فرد واحد کی خوشنودی کے لئے نیا قانون اسمبلی سے بنوا لیا گیا کہ کوئی بھی نا اہل شخص کسی پارٹی کا سربراہ رہ سکتا ہے اب اجمل پہاڑی ، عزیر بلوچ اور مشتاق رئیسانی یا ان جیسے کئی اور بھی کل کو اپنی پارٹی بنا کر اس کے سربراہ بن سکتے ہیں اسمبلی میں یہ کیسا قانون بن گیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں صا دق اور امین شخصیت کی اب کوئی ضرورت نہیں ۔ قانون تو وہ بنتا ہے جس کو ساری پارلیمنٹ مشترکہ طور پر منظور کرے حکومتی ہی نہیں بلکہ اپوزیشن بھی اس پر متفق ہو ، دوسری بات یہ کہ جب 73 کا آئینمنظور ہوا اس آئین پہ ساری پارٹیاں متفق تھیں پھر یہاں کیا ایسی مجبوری تھی کہ فر واحد کے لئے قانون میں ترمیم ضروری ہو گئی اس ترمیمی بل کے پاس ہونے سے پہلے دوپہر ساڑھے گیارہ اور بارہ بجے کے درمیاناس کے خلاف رٹ دائر ہوچکی تھی اس پر کوئی فیصلہ ابھی نہیں آیا تھا کہ سہ پہر کو یہ قانون منظور بھی ہوگیا اتنی عجلت آخر کیوں ؟کیا اسے عدلیہ کے خلاف کھلی جنگ کا نقارہ سمجھوں یا کچھ اور ؟یہاں تک ہی نہیں اس ایک شخص کو پارٹی صدر بنانے کے لئے اپنے پارٹی آئین میں بھی تبدیلی کر دی گئی کیا مسلم لیگ (ن) میں پارٹی سدارت کے لئے ایک ہی شخص اہل ہے اور کوئی اس قابل نہیں کہ وہ پارٹی کی صدارت کر سکے ؟اس کے علاوہ ایک دل دکھنے والی بات جو سامنے آرہی ہے وہ یہ کہ اب کوئی رکن اسمبلی جب حلف اٹھائے گا تو اس حلف نامے میں اسے ختم نبوت ۖپر ایمان والی شق نہیں پڑھنی پڑھے گی یعنی ختم نبوت پر اس کا ایمان ضروری نہیں واہ باشندگان اسلامی جمہوریہ پاکستان آپ کی خاموشی کے قربان ۔ ختم نبوت ۖپر گفتگو انشاء اللہ اپنے اگلے کالم میں تفصیل سے کروں گا۔

M.H BABAR

M.H BABAR

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
Mobile;03344954919
Mail;mhbabar4@gmail.com

The post میری سمجھ سے ہے بالا تر appeared first on جیو اردو.

حضرت امام حسین غیر مسلم سکالرز کی نظر میں

$
0
0
Imam Hussein

Imam Hussein

تحریر : محمد مظہر رشید چوہدری
حضرت امام حسین بن حضرت علی 3 شعبان 4 ہجری بمطابق 8 جنوری 626 عیسوی کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے حضرت حسین کی ولادت کی خبر سنتے ہی حضرت محمد ۖ فوری تشریف لائے آپ ۖ نے کان میں اذان دی اور آپ ۖ کا لعب دہن کی حسین کی پہلی خوراک بنا آپ کی پیدائش کے ساتویں روز ان کا عقیقہ کیا گیا آپ ۖ حضرت حسین اور حضرت حسن سے بے پناہ محبت کرتے و شفقت سے پیش آتے آپۖ حضرت حسین سے اتنی محبت کرتے کہ ان کو اپنے سینے پر بٹھا لیتے اور حالت سجدہ میں جب حسین آپۖ کی پشت مبارک پر بیٹھ جاتے تو آپ ۖ سجدہ میں طول دے دیتے رسول نے حسین کے لیے یہ الفاظ بھی خاص طور سے فرمائے تھے کہ حسین مجھ سے اور میں حسین سے ہوں مستقبل نے بتادیا کہ رسولۖکا مطلب یہ تھا کہ میرا نام اور کام دْنیا میں حسین کی بدولت قائم رہیگا ۔حضرت حسین اعلیٰ اوصاف کے مالک تھے آپ نمازی پرہیز گاری کا عملی نمونہ تھے حضرت حسین واقع کربلا میں یزیدی فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے لیکن ان کے آگے سر خم نہ کیا کیونکہ آپ اپنی زندگی کی پرواہ کیے بغیر اسلام کا نام روشن کرنا چاہتے اسی وجہ سے انہوں نے اپنے 72ساتھیوں سمیت 10محرم الحرام 61ہجری بمطابق 10اکتوبر680عیسوی کو میدان کربلا میں یزید کی فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے شہادت کا رتبہ حاصل کیا غیر مسلم بھی امام حسین کی شہادت کو سنہری الفاظ میں لکھتے ہیں اور وہ بھی یہی لکھتے ہیں کہ یزید تھا اور حسین ہیں یعنی حق جیت گیا اور باطل مٹ گیا بے شک باطل کو شکست ہی ہے۔

ملک چلی کے مصنف و ناولسٹ رابرٹ بولانو نے کہا ہے کہ امام حسین کو شہید کرنا بنو امیہ کی سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی جو ان کی ہر چیز کو نظرانداز کرنے پہ مجبور کرگئی بلکہ ان کے نام و نشان اور ہر چیز پر پانی پھیر گئی(Roberto Bolano Avalos 1953ـ2003)،معروف برطانوی ادیبہ فریا اسٹارک کئی کتابوں کی مصنف ہے، فریا نے 1934 میں عراق کے بارے میں ایک سفر نامہ بھی لکھا ہے، فریا کہتی ہے کہ امام حسین نے جہاں خیمہ لگائے وہاں دشمنوں نے ان کا محاصرہ کرلیا اور پانی بند کردیا، یہ کہانی آج بھی اتنی ہی دلگیر ہے جتنی 1275 سال پہلے تھی، میرا کہنا ہے آپ کربلا کی سرزمین کا سفر کرنے سے اس وقت تک کوئی نفع حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ آپ کو اس کہانی کا پتا نہ ہو، یہ ان چند کہانیوں میں سے ایک ہے جسے میں روئے بغیر کبھی نہ پڑھ سکی، فریا سٹارک (Freya Stark 1893ـ1993)،مشہور انگریزی ناولسٹ چارلس ڈکنز نے کہا تھا اگر امام حسین کی جنگ مال ومتاع اور اقتدار کیلئے تھی تو پھر میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ خواتین اور بچے ان کے ساتھ کیوں گئے تھے، بلاشبہ وہ ایک مقصد کیلئے ہی کھڑے تھے اور ان کی قربانی خالصتاً اسلام کے لیے تھی، چارلس کا دور تھا( Charles John Huffam Dickens 1812ـ1870)،کیمبرج یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر ایڈورڈ جی براؤن کے حوالے سے لٹریری ہسٹری آف پرشیامیں لکھا ہے، کربلا کا خون آلود میدان یاد دلاتا ہے کہ وہاں خدا کے پیغمبر ۖ کا نواسہ اس حال میں شہید کیا گیا کہ بھوک و پیاس کا عالم تھا اور اس کے ارد گرد لواحقین کی لاشیں بکھری پڑی تھیں، یہ بات گہرے جذبات اور دلدوز صدمے کی باعث ہے جہاں درد، خطرہ اور موت تینوں چیزیں ایک ساتھ رونما ہو رہی ہوں۔ (Literary History of Persia by Edward Granville Brown, 1862ـ1926)،لبنان کے عیسائی مصنف انتونی بارا نے اپنی کتاب حسین ان کرسچئین آئیڈیالوجی میں لکھا ہے کہ، جدید و قدیم دنیا کی تاریخ میں کوئی جنگ ایسی نہیں جس نے اتنی ہمدردی اور پزیرائی حاصل کی ہو، صرف یہی نہیں بلکہ معرکہ کربلا سے امام حسین کی باوقار شہادت کے علاوہ بھی دیکھنے والے کو بہت سے اہم اسباق ملتے ہیں۔(Antoine Baraـ2008)،تھامس کارلائل نے کہا کہ واقعہ کربلا نے حق و باطل کے معاملے میں عددی برتری کی اہمیت کو ختم کردیا ہے۔

معرکہ کربلا کا اہم ترین درس یہ ہے کہ امام حسین اور ان کے رفقاء خدا کے سچے پیروکار تھے، قلیل ہونے کے باوجود حسین کی فتح مجھے متاثر کرتی ہے۔(Thomas Carlyle 1795ـ1881)،فرانس کے معروف ادیب، ناولسٹ وکٹرھوگو نے لکھا ہے کہ امام حسین کے انقلابی اصول ہر اس باغی کیلئے مشعل راہ ہیں جو کسی غاصب سے حقوق حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔(Victor Marie Hugo 1802ـ1885)،روس کے معروف مفکر اور ادیب ٹالسٹائی نے کہا ہے، امام حسین ان تمام انقلابیوں میں ممتاز ہیں جو گمراہ حاکموں سے گڈگوورنینس کا تقاضا کرتے تھے، اسی راہ میں انہیں شہادت حاصل ہوئی۔(Leo Tolstoy 1828ـ1910)،عصری جاپان کے مصنف کوئیانہ نے اپنی ایک تحریر میں لکھا ہے کہ امام حسین کا انقلاب پسے ہوئے طبقے کیلئے جدوجہد کا راستہ روشن کرتا ہے، سوچ کو توانائی دیتا ہے، گمراہی سے نکالتا ہے اور حصول انصاف کے سیدھے راستے پر ڈال دیتا ہے، (نومبر 2013)،برطانیہ کے اسکاٹش ادبی اسکالر سر ولیم میور کہتے ہیں، سانحہ کربلا نے تاریخ محمد ۖ میں خلافت کے خاتمے کے بعد بھی اسلام کو انسانی ذہنوں میں زندہ رکھا ہے، واقعہ کربلا نے نہ صرف استبدادی خلافت کی تقدیر کا فیصلہ کردیا بلکہ محمدی ریاست کا اصول و معیار بھی متعین کردیا جو ابتدائی خلافتوں کے بعد کہیں کھو گیا تھا۔(Sir William Muir 1819ـ1905 Annals of the Early Caliphate, London, 1883)،مغربی محقق، تاریخ دان اور نیویارک یونیورسٹی کے پروفیسر پیٹر جے چیلکووسکی کہتے ہیں، امام حسین پر مکہ سے کربلا تک کئی بار چھپ کر حملہ کیا گیا، ان کے خاندان اور اصحاب پر بھوک پیاس کا ظلم اور شہادت کے بعد ان کے جسموں کو پامال کیا گیا لیکن حسین نے صبر سے جام شہادت نوش کیا پر یزید کی بیعت نہ کی۔ (Peter J Chelkowski, phd in 1968)،تاریخی محقق اور ممبر برطانوی پارلیمنٹ ایڈورڈ گیبن نے دی فال آف رومن ایمپائر میں واقعہ کربلا کو انتہائی دلسوز قرار دیتے ہوئے کہا کہ امام حسین کی مظلومانہ شہادت اور کربلا کے دلخراش واقعات ایک سرد دل انسان کی آنکھوں میں بھی آنسو اور دلوں میں ہمدردی پیدا کردیتے ہیں۔ (Edward Gibbon 1737ـ1794)،ہنگری کے

مصنف گیورجی لیوکیکس کہتے ہیں، حسین کا تصور مرکزی طور پر انسان کی فری وِل، شخصی آزادی اور اپنی قوم کی خوشحالی کیلئے استبدادی حاکم کے سامنے کھڑے ہونے پر فوکس کرتا ہے، اور حسین نے اپنی پوری قوت اور عزم کے ساتھ اس استبداد کو فیس بھی کیا، لوکیکس مارکسی فلاسفر تھے اور مغربی مارکسزم کے بانیوں میں سے بھی تھے۔(Gyorgy Lukacs 1885ـ1971)،روسی مفکر اوگیرا کا کہنا ہے کہ حسین ہر اس طبقے کیلئے مثال ہیں جو طبقاتی جبر کا شکار ہے، وہ حکمران جو اپنا تخت مفلوک الحالوں کے سروں سے تعمیر کرتے ہیں پھر ان کے جانشین بھی یہی کچھ کرتے ہیں جب تک کہ ان کا احتساب نہ کردیا جائے وہ دوسروں کا استحصال کرتے رہتے ہیں،سٹی سکھ پروگریسیو آرگنائزیشن لندن کے بانی ممبر جسویر سنگھ نے کہا ہے کہ قطع نظر اسکے کہ ہم کس کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں ہم امام حسین سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، خاص طور پہ عزت اور وقار کے ساتھ جینے کا ڈھنگ، امام حسین عدل کیلئے کھڑے تھے انہوں نے جس بات کو حق سمجھا اس کیلئے اپنی جان بھی دے دی،انٹرفیتھ گروپ کی ایکٹیوسٹ و ریسرچر ڈائنا ملز نے کہا ہے کہ امام حسین نوع انسان کیلئے رول ماڈل ہیں، میرے لئے امام حسین کئی جہتوں سے حضرت مسیح علیہ السلام کے متوازی نظر آتے ہیں، خدا کے حکم پر پورا اترنے کی خاطر انہوں نے بھی ہر چیز کو بالائے طاق رکھ دیا تھا، امام حسین کی یہ بات مجھے بہت بیحد پسند ہے کہ تم میری جان تو لے سکتے ہو لیکن میرا ایمان نہیں لے سکتے( You can take my body but you can’t take my faith)۔ ( یوٹیوب، ایمبیسڈر آف فیتھس، 10 اکتوبر 2016)،کرسچین استاد ڈاکٹر کرس ہیور نے اپنے ایک لیکچر میں کہا ہے کہ دنیا جانتی ہے یزید ایک برُا انسان تھا جو خدا کے احکامات کا سرعام مذاق اڑاتا تھا، یہاں میں پیغمبر اسلام ۖکی حدیث بیان کروں گا کہ جابر سلطان کے سامنے کلمہء حق کہنا جہاد ہے، یہی بات امام حسین کے پیش نظر تھی، اسی لئے حسین کھڑے ہوئے اور اپنی جان قربان کرکے دراصل انسان کی عظمت کو بحال کیا۔( یوٹیوب ویڈیو لیکچر 08 نومبر 2014)،ڈاکٹر کرس ہیور نے ایک دوسرے لیکچر میں کہا کہ 72 اور تیس ہزار کا کیا مقابلہ؟ ایک طرف تیس ہزار کی مسلح فوج اپنے اہداف حاصل نہ کرسکی اور دوسری طرف امام حسین نے 72 نہتے لوگوں کیساتھ اپنا مقصد حاصل کرلیا وجہ یہ کہ امام حسین وہ ہیں جن کے اندر خدا بولتا ہے، خدا انسانوں کو سمجھانا چاہتا تھا کہ حق بات پر کیسے کھڑے ہونا ہے، ایک عیسائی ہونے کی حیثیت میں سمجھتا ہوں انسان کو خدا کی رضا پر ایسے ہی پورا اترنا چاہئے جیسے امام حسین نے نیابت خداوندی کا حق ادا کیا۔(یوٹیوب ویڈیو لیکچر 24 نومبر 2014)،مہاتما گاندھی نے کہا تھا، میرا یہ ماننا ہے کہ اسلام کا پھلنا پھولنا تلوار سے نہیں بلکہ ولی خدا امام حسین ابن علی کی قربانی کا نتیجہ ہے، دوسری جگہ کہا، اگر میرے پاس امام حسین کے ساتھیوں جیسے بہتر لوگ موجود ہوں تو میں چوبیس گھنٹے میں ہندوستان آزاد کرالوں، ایک اور جگہ کہا اگر ہندوستان کو آگے بڑھنا ہے تو امام حسین کے نقش قدم پر چلنا ہوگا۔

پنڈت جواہر لعل نہرو نے کہا تھا، امام حسین کی قربانی کسی ایک قوم کی نہیں بلکہ سب کیلئے ہے یہ صراط مستقیم کی اعلٰی ترین مثال ہے(1889ـ1964)،بنگالی مصنف رابندر ناتھ ٹیگور نے کہا، سچ اور انصاف کو زندہ رکھنے کیلئے فوجوں اور ہتھیاروں کی ضرورت نہیں، قربانیاں دے کر بھی فتح حاصل کی جاسکتی ہے جیسے امام حسین نے کربلا میں قربانی دی، بلاشبہ امام حسین انسانیت کے لیڈر ہیں(1861ـ1941)،بھارت کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پراساد بیدی نے کہا تھا، امام حسین کی قربانی کسی ایک ریاست یا قوم تک محدود نہیں بلکہ یہ بنی نوع انسان کی عظیم میراث ہے(1884ـ1963)،سوامی شنکر اچاریہ نے کہا یہ امام حسین کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج اسلام زندہ ہے ورنہ آج دنیا میں اسلام کا نام لینے والا کوئی نہ ہوتا۔ڈاکٹر رادھا کرشن بھارتی صدر نے کہا تھا، گو امام حسین نے تیرہ سو سال پہلے قربانی دی لیکن ان کی لافانی روح آج بھی سب کے دلوں میں زندہ ہے۔نیلسن منڈیلا نے کہا، میں نے بیس سال جیل میں گزارے ہیں، ایک رات میں نے فیصلہ کیا کہ تمام شرائط پر دستخط کرکے رہائی پالینی چاہئے لیکن پھر مجھے امام حسین اور واقعہ کربلا یاد آگیا اور مجھے اپنے اسٹینڈ پر کھڑا رہنے کیلئے پھر سے تقویت مل گئی۔لبنان کے عیسائی مصنف انتونی بارا کی کتاب حسین ان کرسچین آئیڈیالوجی بلاک بسٹر کتاب ہے جس کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کرنے کیلئے دیگر ملکوں کے ادیب بھی مصنف سے اجازت لینے کیلئے کوشاں ہیں۔انتونی بارا کہتا ہے کہ یہ کتاب خالصتاً علمی ادبی اور تحقیقی کام تھا جسے علمی بنیادوں پر ہی کرنا تھا لیکن اس کام کے دوران میرے دل میں یقیناً امام حسین کی عظمت رچ بس گئی ہے، تین گھنٹے کے انٹرویو میں جب بھی بارا نے امام حسین کا نام لیا تو ساتھ میں ان پر سلامتی ہو ضرور کہا، بارا کا کہنا ہے کہ میں نہیں مانتا امام حسین صرف شیعہ یا مسلمانوں کے امام ہیں، میرا ماننا ہے کہ وہ تمام عالم کے امام ہیں کیونکہ وہ سب مذاہب کا ضمیر ہیں۔

MUHAMMAD MAZHAR RASHEED

MUHAMMAD MAZHAR RASHEED

تحریر : محمد مظہر رشید چوہدری
03336963372

The post حضرت امام حسین غیر مسلم سکالرز کی نظر میں appeared first on جیو اردو.

روڈ سیفٹی اقدامات کی ضرورت

$
0
0
Traffic Accidents

Traffic Accidents

تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان
پاکستان میں روڈ ایکسیڈنٹ کی شرح دیگر ممالک کی نسبت کہیں زیادہ ہے جہاں ایک اندازے کے مطابق ہر سال پچیس سے تیس ہزار افراد ٹریفک حادثات میں اپنی جان کھو دیتے ہیںاور ہزاروں افراد شدید زخمی اور مستقل طور پر معذور ہو جاتے ہیں۔ صرف صوبہ پنجاب کی سڑکوں پر روزانہ اوسطاً 700 ٹریفک حادثات ہوتے ہیں ، جن میں ہر روز اوسطاً آٹھ لوگ جاں بحق ہوجاتے ہیں ۔ یکم جنوری تا ماہ ستمبر 2017 ء صرف پنجاب کی سڑکوں پر 1 لاکھ74 ہزار 770 حادثات ہوئے جن میں ایک لاکھ 40 ہزار 884 حادثات موٹر سائیکلوں کے تھے۔ روزبروز بڑھتی ٹریفک کے ساتھ ٹریفک حادثات کی شرح میں خطرناک حد تک اضافے کے باعث ہمیں ٹریفک حادثات کی وجوہات کا جائزہ لینا چاہئے اور حکومتی سطح پر ٹریفک حادثات کی شرح میں کمی کے لئے کئے گئے اقدامات میں معاونت کرنا چاہئے، تاکہ قیمتی انسانی جانوں کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔ ٹریفک حادثات کی بڑی وجوہات میں تیزی رفتاری، غیر محتاط ڈرائیونگ، سڑکوں کی خستہ حالی،گاڑی میں خرابی،اوورلوڈنگ ، ون وے کی خلاف وزری، اورٹیکنگ، اشارہ توڑنا، غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز ، دوران ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال ، نو عمری میں بغیر لائسنس کے ڈرائیونگ، بریک کا فیل ہوجانا اور زائد مدت ٹائر وں کا استعمال شامل ہے۔لیکن ان میں سب سے اہم وجہ سڑک استعمال کرنے والے کا جلدباز روّیہ ہے۔ 80 سے 90 فیصد ٹریفک حادثات غیر محتاط رویے کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں ، مگر ہم اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کے لئے قطعاً تیارنہیں، اوریہ ہی ٹریفک کے مسائل اور حادثات کی بنیادی وجہ ہے۔جب تک ہم اپنے رویوں کو درست نہیں کریں گے اس وقت ٹریفک حادثات میں کمی ممکن نہیں۔

جبکہ ٹریفک حادثات اور مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے یہ دلچسپ پہلو بھی سامنے آیا کہ گاڑیوں کے لیے تو موٹر وہیکلز کے قوانین موجود ہیں مگر آہستہ چلنے والی گاڑیاں مثلاً گدھا و بیل گاڑی کے لئے کوئی قانون سازی نہیںہے، اس وجہ سے روڈ استعمال کرنے والے یہ لوگ قانون سے نہ صرف بالا تر ہیں بلکہ بڑے پیمانے پر ہونے والے ٹریفک حادثات کی مین وجہ بھی ہیں۔ ان افراد کو تربیت دینے کی اشد ضرورت ہے ، تاکہ ان کو روڈ استعمال کرنے سے متعلق مکمل آگاہی حاصل ہوسکے ۔
جبکہ نو عمر افراد اپنے پرجوش روئیے کی وجہ سے ٹریفک قوانین کی پاسداری نہیں کرتے اور ٹریفک علامات کے سائن ، اور اصولوں کو نظر انداز کردیتے ہیں، بلکہ اکثر نوجوانوں تربیت یافتہ ہی نہیں ہوتے، اور ان میں موجود میں تیز رفتار گاڑی چلانے کا جنون بے شمار حادثات کا باعث بنتاہے۔ اس کے علاوہ موٹر سائیکل رکشہ کے اکثر ڈرائیور نابالغ اور نوآموز ہوتے ہیں جن کے پاس ڈرائیونگ لائسنس تک نہیں ہوتا۔ اس طرح ٹریفک قوانین سے لاعلمی کے باعث وہ نا صرف اپنی بلکہ دوسروں کی زندگی بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔

جبکہ بہت سے لوگ اپنے گھر وں کے سامنے غیر معیاری سپیڈ بریکرز بنا کر ٹریفک حادثات کاباعث بنتے ہیں۔ کمرشل گاڑیوں کے ڈرائیور حضرات میں موجود اوور ٹیکنگ کا شوق ، اور ر تیز رفتاری کا جنون بھی جان لیوا حادثات کا سبب بنتا ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں ایجاد ہونے والا موٹر سائیکل ریڑھا بھی حادثات کا باعث بن رہا ہے جو کہ دور سے آتے ہوئے تو موٹر سائیکل ہی معلوم ہوتا ہے ۔جبکہ روڈ کے اطراف میں موجودناجائز تجاوزات اور گاڑیوں کی غلط پارکنگ بھی حادثات کا باعث بنتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک روڈ سیفٹی کی قانون سازی، ٹریفک قوانین پر موثر عمل درآمد، سٹرکوں کی تعمیر اور گاڑیوں کو محفوظ بناکر ٹریفک حادثات میں نمایاں کمی لاچکے ہیں۔لیکن پاکستان میں روڈ سیفٹی کے چند قوانین موجود ہیں لیکن ان پر سختی سے عملدرآمد کروانے کی ضرورت ہے۔ اگر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دینے کی روش اختیار کی جائے تو ٹریفک حادثات کی شرح میں کمی ممکن ہوسکتی ہے۔ ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے اس کے لیے نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹر وے پولیس، سٹی ٹریفک پولیس اور متعلقہ حکام کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا چاہئے، اس کے لئے صرف روڈ سیفٹی ایجوکیشن ہی کافی نہیں بلکہ اسکے ساتھ ساتھ کچھ جامع اقدامات کی بھی ضرورت ہے تاکہ روڈ سیفٹی کو یقینی بناکر حادثات کی شرح میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکے۔

جبکہ بغیر لائسنس گاڑی چلانے پر سخت سزائیں ، اور کم عمر بچوں کے والدین کو بھی سزا کا مستحق ٹھہرایا جانا چاہئے تاکہ کم عمر اور نو آموز ڈرائیوروں کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔ ٹریفک سے متعلق شعورکی بیداری کے لئے نصاب میں ٹریفک قوانین سے متعلقہ مضامین شامل کرنا چاہئے تاکہ نئی نسل کو مستقبل میں ٹریفک حادثات سے بچایاجاسکے۔ٹریفک حادثات سے بچاؤ کے لیے حکومتی اقدامات کے علاوہ عام شہریوں کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ٹریفک قوانین کی پاسداری ، اور سڑکوں کو حادثات سے محفوظ بنانے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہئے ، اپنے سفر کا آغاز مسنون دعا سے کر نا چاہئے اور دوران سفر جلد بازی سے اجتناب برتتے ہوئے دوسری ٹریفک بالخصوص پیدل افراد کا خیال رکھنا چاہئے ۔ ریاست کے چوتھے ستون پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کو بھی عوام میں ٹریفک قوانین پر عمل درآمدکاشعور اجاگر کرنے اور ٹریفک مسائل کے تدارک میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے مثبت کردار ادا کرنا چاہئے ۔

ہر ٹریفک حادثے کے بعد اہل اقتدار کی جانب سے قیمتی انسانی جانوں کے نقصان پر محض اظہار افسوس کافی نہیں، بلکہ حکومت کی جانب سے ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لئے موثر عملی اقدامات ضروری ہیں، اس کے علاوہ شہریوں میں روڈ سیفٹی سے متعلق سوچ اور رویوں میں بہتری کے لئے اقدامات بھی ضروری ہیں۔ ڈرائیورز حضرات کو ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کا پابند کیا جانا چاہئے، سڑکوں کے درمیان موجود کھلے مین ہول ختم اور سڑکوں کی اطراف سے ناجائز تجاوزات کا خاتمہ کیا جانا چاہئے، دوران ڈرائیونگ موبائل فون کے استعمال پر سخت سزا، ڈرائیورز کو لائن اور لین کا پابند، اور اور سلو موونگ گاڑیوں کے ڈرائیورز کو تربیت دی جانی چاہئے تاکہ سڑکیں حادثات سے محفوظ، اور شہریوں کی قیمتی جانوں کا تحفظ یقینی ہوسکے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں قومی اور صوبائی سطح پر روڈ سیفٹی انسٹی ٹیوٹ کا قیام اور روڈ سیفٹی سے آگاہی کے لئے ہر گھر، ہر سکول کالج اور ادارے میں خصوصی مہم چلائی جانی ضروری ہے۔

Rana Aijaz Hussain

Rana Aijaz Hussain

تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان
ای میل :ranaaijazmul@gmail.com
رابطہ نمبر: 03009230033

The post روڈ سیفٹی اقدامات کی ضرورت appeared first on جیو اردو.

اکیسویں صدی کے استاد کے تقاضے

$
0
0
Teachers

Teachers

تحریر : محمد نورالہدیٰ
پاکستان میں ہر سال عالمی یوم اساتذہ منایا جاتا ہے جس میں مختلف اساتذہ تنظیمیں اور ادارے اس دن کی مناسبت سے تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں اور اساتذہ کی اہمیت اور توقیر کا احساس بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان میں سے زیادہ تر تقاریب کا دائرہ کار سرکاری اساتذہ کو ڈسکس کرنے تک محدود رہتا ہے ۔ ہمارے ہاں گذشتہ ایک دھائی سے ”یوم اساتذہ” منایا جارہا ہے مگر سرکاری اساتذہ ہی کی مناسبت سے تقاریر ، ریلیاں اور مطالبات کئے جاتے ہیں ۔ شازوناظر ہی کوئی تقریب ایسی ہوتی ہے جس میں سرکاری کے ساتھ ساتھ نجی اساتذہ کو بھی زیر بحث لایا جاتا ہے ۔ یعنی یوم اساتذہ کا مقصد شاید سرکاری اساتذہ کے مسائل ہی ڈسکس کرنا رہ گیا ہے حالانکہ ان کی تعداد صرف ساڑھے تین لاکھ ہے جبکہ نجی تعلیمی اداروں میں فرائض سرانجام دینے والے اساتذہ کی تعداد اس سے تین گنا زیادہ ہے ۔ ان نجی اساتذہ کا مقدمہ کوئی نہیں لڑتا ، حالانکہ مراعات کے معاملے میں وہ بھی سمندر میں نہیں نہا رہے ۔
امر واقع یہ ہے کہ بالخصوص ابتدائی کلاسز کیلئے استاد چاہے نجی تعلیمی ادارے سے وابستہ ہو ، یا سرکاری سے ، مسائل سب کے ایک سے ہیں ۔ اگرچہ کالج اور یونیورسٹی لیول پر بھی اساتذہ کے ساتھ سلوک مذکورہ سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے ، تاہم بہتر ضرور ہے ۔

استاد انسان سازی کرتے ہیں اور اس صنعت میں وہ اس مزدور یا ورکر کی سی حیثیت رکھتے ہیں جس سے کام تو پورا لیاجاتا ہے مگر معاوضہ اس کی محنت کے مطابق نہیں دیا جاتا ۔ اس کے باوجود اپنی مصنوعات تیار کرنے کے معاملے میں وہ بے ایمانی سے کام نہیں لیتا ، مگر معاشرے میں اپنے سٹیٹس پر کڑھتا ضرور ہے ۔

ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں سے ہر سال لاکھوں طلبہ و طالبات گریجویشن اور ماسٹرز کے امتحانات پاس کرتے ہیں مگر مناسب روزگار نہ ملنے کی وجہ سے ان میں سے بیشتر مایوس ہوکر معاشرے کیلئے درد سر بن جاتے ہیں ۔ کچھ بیرون ممالک چلے جاتے ہیں ، کچھ خوش قسمتی سے چھوٹے موٹے روزگار سے منسلک ہوجاتے ہیں اور جو بچ جاتے ہیں ، وہ بوجوہ اپنے لئے تدریش کا پیشہ چن لیتے ہیں ۔ وگرنہ ہمارا مجموعی مزاج یہی ہے کہ ہمارا طالبعلم ڈاکٹر اور انجینئر بننے کا خواب تو دیکھے گا مگر پیشہ پیغمبری سے منسلک ہونے کا کبھی نہیں سوچتا ۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اس شعبے میں ترقی دکھائی نہیں دیتی …یعنی آج جو لوگ اس شعبے سے وابستہ ہیں ان میں سے کم از کم 70 فیصد اپنی خوشی اور شوق سے نہیں بلکہ باامر مجبوری ٹیچر بنے ہیں مگر اپنے پیشے سے انصاف کررہے ہیں ۔ آج تعلیمی اداروں میں جتنے بھی ایجوکیٹرز بھرتی ہورہے ہیں ، کوئی بھی ماسٹرز سے کم نہیں ہے۔ لہذا انہیں یوں نظرانداز کرنا سراسر زیادتی ہے ۔

استاد کی حیثیت کسی بھی طرح کسی بیوروکریٹ سے کم نہیں … بیوروکریٹ اگر حکومتی امور نبٹانے اور ملک کے انتظامی معاملات چلانے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے تو استاد بھی قوم کے وہ معمار تیار کرتا ہے ، جو ملکی ترقی کا پہیہ گھماتے ہیں … انہی معماروں میں سے بعدازاں کوئی بیوروکریٹ بنتا ہے تو کوئی صدر ، وزیراعظم سمیت دیگر اہم عہدوں پر فائز ہوتا ہے ۔

یہ اکیسویں صدی ہے اور ہم ایک انتہائی ترقی یافتہ دور میں سانس لے رہے ہیں ۔ اس دور کے تقاضوں کو پورا کئے بغیر اس میں جینا بہت مشکل ہے ۔ نجی تعلیمی اداروں سے وابستہ ایک عام سکول کا ٹیچر جتنی تنخواہ لے رہا ہے ، وہ یہاں بتانا بھی میں اس کا استحصال سمجھتا ہوں … یوں کہئے کہ اس کا مشاہرہ حکومت کی جانب سے ایک مزدور کی طے کردہ ماہانہ اجرت سے بھی کم ہوتا ہے ۔ البتہ ان کی نسبت جو سکول کسی چین کے ساتھ ہیں ، ان میں ٹیچر کا مشاہرہ پھر بھی مناسب کہا جاسکتا ہے ، مگر بہتر نہیں ، تاہم اصل مسئلہ مراعات کا ہے ۔ محض تنخواہ ہی سب کچھ نہیں ہوتی ، اس کے علاوہ بھی زندگی میں بہت کچھ ہے ۔ اسے صحت کے مسائل بھی درپیش ہوتے ہیں ، اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات بھی اسے ادا کرنا ہوتے ہیں ، بیشتر اساتذہ ”پردیسی” ہوتے ہیں ، انہیں رہائشی اخراجات کا مسئلہ بھی درپیش ہوتا ہے ۔ یہ تمام امور محض ایک لگی لپٹی تنخواہ میں پورے نہیں ہوپاتے ۔ اس کی محنت کے عوض دیا گیا معاوضہ تو محض یوٹلیٹی بلز اتارنے میں ہی ختم ہوجاتا ہے ۔ جو جمع پونجی بچ جاتی ہے وہ گھر کا کرایہ ادا کرنے میں نکل جاتی ہے ۔ اس دوران اگر خدانخواستہ اسے یا اس کے اہل خانہ میں سے کسی کو صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ اس قابل نہیں ہوتا کہ اس امتحان سے نکل سکے … سرکاری تعلیمی اداروں میں اگرچہ میڈیکل الائونس اور ہائوس رینٹ کی سہولت موجود ہے ، لیکن یہ رقم اس قدر محدود ہوتی ہے کہ میڈکل الائونس ایک ہفتہ کی ادویات بھی پوری نہیں کرپاتا جبکہ رہائشی الائونس کرایہ کے گھر میں مقیم استاد کے 10 دن کے کرائے کے برابر بھی نہیں ہوتا … نجی تعلیمی اداروںکے اساتذہ کو یہ سہولت بھی میسر نہیں ہے ۔ ممکن ہے کچھ جگہوں پر میڈکل انشورنس وغیرہ کے نام پر اساتذہ کو یہ سہولت حاصل ہو ، مگر مجموعی طور پر ایسا نہیں ہے ۔ اگرچہ ہر استاد ڈیوٹی اوقات کے بعد ٹیوشن پڑھا کر اخراجات پورے کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر مہنگائی اور افراتفری کے اس دور میں وہ محض 50 فیصد ہی کامیاب ہوپاتا ہے ۔ اس کے باوجود وہ اپنے معاشرتی اور معاشی استحصال کے باوجود وہ قومی تعمیر میں اہم کردار ادا کررہے ہیں ۔

یہ استاد ہی ہے جس نے طالبعلم کو زندگی کا سلیقہ اور مقصد سکھایا ، سوچ اور فکر کی راہ متعین کی ، اعتماد دیا ، زندگی کی گٹھیاں سلجھانے کے گر بتائے ، محبتوں کے ساتھ اس وقت پہلا سبق پڑھایا جب ہم کچھ نہیں جانتے تھے ، ان پڑھ اور جاہل تھے ، انہوں نے ہمیں جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر اجالے کے سفر پر گامزن کیا … اپنی صلاحیتیں ہم پر صرف کیں اور ہمیں اس قابل بنایا کہ آج ہم مضبوط کردار اور مثبت روایات کے امین اور معاشرے میں ایک مقام رکھتے ہیں ۔ تف ہے کہ آج استاد کو محض درانتی اور کھرپا بنانے والا کاریگر سمجھ لیا گیا ہے جو ایک لگی بندھی ڈگر کے ساتھ دیہاڑی پر درانتیاں بناتا چلا جائے ۔

نجی اساتذہ کا سب سے بڑا مسئلہ جاب سیکورٹی اور اس کے بعد تنخواہ ہے ۔ ایک پوش علاقے کے عام سے سکول میں ٹیچر کی تنخواہ 10 سے 12 ہزار تک ہوتی ہے جبکہ کئی سکول اس سے بھی کم دے رہے ہیں ۔ بڑے بڑے تعلیمی نیٹ ورک بھی استاد کے استحصال کے معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔ بالخصوص دیہاتوں میں سرکاری و نجی دونوں طرز کے اساتذہ کو اپنے پیشہ ورانہ معمولات نبھانے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اول تو وہ شہری طرز کی سہولیات سے ہی محروم ہیں ۔ دوسرا ، انہیں جاگیرداری اور زمینداری نظام نے ترقی سے روک رکھا ہے ۔ دیہی سرمایہ دار انہیں ذاتی ملازم یا کمی کمین کی حیثیت سے دیکھتے ہیں جبکہ تعلیمی ادارے تنخواہ ادا کرنے کی پابندی سے گریزاں ہوتے ہیں ۔ حالانکہ دیہی اساتذہ کو اگر شہری اساتذہ کے برابر سمجھا جائے اور انہیں سہولیات دی جائیں تو نہ صرف ڈراپ آئوٹ ریشو میں کمی واقع ہوسکتی ہے بلکہ معیار تعلیم اور سرکاری سکولوں کی حالت زار کی بہتری بھی ممکن ہے ۔

طرفہ تماشہ تو یہ بھی ہے کہ اس وقت پرائیویٹ سکول ایجوکیشن ایک بزنس بن چکا ہے ۔ ہر گلی محلے میں سکول کھلے ہوئے ہیں اور یہ سب سے آسان بزنس تصور ہوتا ہے … مگر درحقیقت یہ ایک ”سفید ہاتھی” ہے جسے قابو کرنا بے حد ضروری ہے ۔ اس ضمن میں ضروری ہے کہ تمام رجسٹرڈ و غیر رجسٹرڈ سرکاری و نجی اداروں کو ایجوکیشن منسٹری اور ایک مشترکہ سسٹم کے تابع لایا جائے … اس سسٹم کے تحت جو مراعات سرکاری سکولوں کے اساتذہ کو میسر ہیں ، نجی اداروں کو بھی مجبور کیا جائے کہ وہ مکمل نہ سہی ، کم از کم ان کا نصف ضرور ادا کریں ۔ اس ضمن میں ایک شرح طے کی جاسکتی ہے جو آدھی حکومت اور آدھی متعلقہ تعلیمی ادارہ اپنے استاد کو دے … جو نجی ادارے اپنا یہ ”خسارہ” طلباء سے نکالنے کی کوشش کریں ، مذکورہ سسٹم کے تحت حکومت ان کے خلاف اپنے اختیارات استعمال کرنے سے گریز نہ کرے ۔

مختصر یہ کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ نجی اور سرکاری دونوں اساتذہ کیلئے مشترکہ سروس اسٹرکچر بنایا جائے … حکومت نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں کی تفریق سے بے نیاز ہوکر اساتذہ کی حوصلہ افزائی کرے … اچھی کارکردگی دکھانے والے اساتذہ حوصلہ افزائی کیلئے مرکزی ،صوبائی اور ضلعی سطح پر ان کی مکمل حوصلہ افزائی کی جائے اور نہ صرف سالانہ بنیادوں پر حسن کارکردگی ایوارڈز سے نوازا جائے بلکہ ان کے نام تجویز کرکے ایوان صدر بھیجے جائیں جہاں قومی دن کے موقع پر قومی ہیروئوں کو ایوارڈ دیا جاتا ہے … نیز دونوں طرز کے تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کرنے والے انہیں خصوصی الائونس دینے کے ساتھ ساتھ ان کے بچوں کی تعلیم کے لئے کوٹہ مختص کیا جائے … ان کے اہل خانہ کو صحت کے مسائل سے نبٹنے کے لئے سوشل سیکورٹی کے تحت میڈیکل اور پنشن کی سہولت دینے کے لئے قانون سازی کی جائے … اور صحافی کالونی اور دیگر رہائشی سکیموں کی طرح اساتذہ کے لئے بھی تحصیل اور ضلعی سطح پر رہائشی کالونیاں بنائی جائیں۔

Muhammad Noor-Ul-Huda

Muhammad Noor-Ul-Huda

تحریر : محمد نورالہدیٰ

The post اکیسویں صدی کے استاد کے تقاضے appeared first on جیو اردو.

حلف نامہ و اقرار نامہ میں فرق

$
0
0
Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

تحریر : تنویر احمد
واقعات شاہد ہیں کہ میاں محمد نواز شریف صاحب نے اپنی پہلی وزارت عظمیٰ کے دور میں اپنی پارٹی کے پارلیمانی اجلاس میں بھی کہا تھ اقادیانیوں سے متعلق اگر ترمیم آئین سے ختم کردی جائے تو ہمارے سارے قرضے معاف ہو جائیں گے۔ اس کے لیے امریکہ تیار ہے، وہ تو جناب راجہ ظفر الحق صاحب ڈٹ گئے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ جو آپ نے کہا اس کے رد عمل کا بھی آپ کو اندازہ ہے؟ تو اس پر نواز شریف صاحب طرح دے گئے کہ نہیں وہ تو میں نے ویسے ہی کہا۔ جناب نواز شریف صاحب نے قادیانیوں کو اپنا بھائی کہا۔ رحمت عالم ۖ کے ازلی ابدی مخالفین، ختم نبوت کے منکرین اور اہانت رسولۖ کرنے والوں کو اپنا بھائی کہنے کا کام جناب میاں صاحب نے ہی انجام دیا۔

میاں محمد نواز شریف نے قائداعظم یونیورسٹی سے ملحقہ فزکس کے ادارہ کا نام ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کے نام پر رکھا، جس عبدالسلام قادیانی نے پاکستان کی سرزمین کو لعنتی کہا۔ ان قادیانیوں کے لیے میاں صاحب کا یہ نرم گوشہ اور علامہ اقبال کا جواہر لال نہرو کو کہنا کہ قادیانی اسلام اور ملک دونوں کے غدار ہیں۔ قادیانیوں کے بارہ میں علامہ اقبال کا فرمان اور میاں محمد نواز شریف کے عمل میں واضح تضاد آخر کیوں؟

مبینہ طور پر نواز شریف صاحب نے حالیہ دور اقتدار میں اپنا پرسنل سیکرٹری قادیانی کو لگایا اور پھر جناب خاقان عباسی صاحب کے وزیراعظم بننے پر اسے نواز شریف نے پابند کیا کہ اس پرسنل سیکرٹری کو تبدیل نہ کیا جائے۔ اب عباسی صاحب کے ساتھ امریکہ کے دورے پر گیا ہے اور یہ کہ اب اسے ورلڈ بینک بھیجنے کی تیاری ہورہی ہے۔

خوشاب میں پہلے ضلعی پولیس آفیسر (ڈی پی او) خدا بخش نتھو کہ قادیانی کو لگایا گیا۔ میاں شہباز شریف صاحب کے پاس ضلع کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کا وفد گیا کہ قادیانی کو تبدیل کیا جائے۔ چھوٹے میاں صاحب نے فرمایا کہ کیا تم نے اس کے پیچھے نمازیں پڑھنی ہیں؟ اس پر ممبران نے کہا کہ ایک ضلع قادیانی افسر کے رحم و کرم پر چھوڑنا بھی قرین انصاف نہیں؟ میاں صاحب چپ تو ہوگئے، لیکن تبادلہ کے مطالبہ کو تسلیم نہ کیا۔ خدا بخش نتھو کہ قادیانی کی فرعونیت کا اندازہ کریں کہ محکمہ انہار کے ایکسین کو اپنے ہاتھ سے پیٹا۔ صوبہ بھر میں محکمہ انہار کے ملازمین نے احتجاج کیا، خدا بخش نتھوکہ قادیانی معطل ہوا، قبلہ شہباز شریف صاحب نے اسے بحال کیا، ترقی دی اور ڈی آئی جی بنادیا اور پھر خدا بخش نتھوکہ کی جگہ وقار الحسن نتھوکہ قادیانی کو خوشاب کا ڈی پی او لگادیا گیا جو قادیانی بھی ہے، خدا بخش نتھوکہ کا بھتیجا اور داماد بھی ہے۔ سالہا سال سے خوشاب ضلعی کا ضلعی پولیس آفیسر یکے بعد دیگرے قادیانی چلا آرہا ہے۔ خوشاب میں اٹامک انرجی کا اہم شعبہ کام کررہا ہے اور قرب و جوار میں قادیانی آبادیاں ہیں اور پاکستان کے ایٹم کا ماڈل اور ایٹمی راز عبدالسلام قادیانی نے امریکا کو مہیا کیے تھے۔ ان تمام تر باتوں کے باوجود میاں صاحب کا خدا بکش نتھوکہ کی ناز برداری کرنا محض اس لیے کہ خدا بخش نتھوکہ میاں شہباز صاحب کا کلاس فیلو ہے۔

سانحہ دو الیمال میں قادیانیوں کی سپورٹ اور مسلمانوں کو تختہ مشق بنانے کیلئے جو کچھ سرکاری سطح پر ہوا یا ہورہا ہے لگتا ہے کہ حکومت نے قسم کھالی ہے کہ مسلمانوں کو قادیانیوں کے سامنے سرنگوں کرنا ہے۔

عید سے قبل جناب شہباز شریف صاحب سے وفاق المدارس کا وفد مولانا قاری محمد حنیف جالندھری صاحب کی سربراہی میں اور جمعیت علماء اسلام کا وفد مولانا فضل الرحمن صاحب کی سربراہی میں ملا۔ پنجاب حکومت کے سربراہ نے وعدے کیے لیکن ایک بھی وعدہ کا ایفا نہ کیا، نہ ایک عالم دین کو فورتھ شیڈول سے نکالا گیا نہ ایک مدرسہ کو کھالوں کے سلسلہ میں سہولت دی گئی۔ لگتا یہ ہے کہ حکومت نے تہیہ کررکھا ہے کہ جھوٹے وعدے کیے جائو، ہاں میں ہاں ملائے جائو لیکن ان کا مطالبہ ایک بھی تسلیم نہ کرو۔

اب حال ہی میں قومی اسمبلی سے انتخابی اصطلاحات کا جو بل منظور کرایا گیا ہے اس میں اسمبلی الیکشن کے لیے امیدواران کو حلف نامہ جمع کران اپڑتا تھا کہ میں حلفیہ کہتا ہوں۔۔۔۔ اب اس عبارت کو یوں بدل دیا کہ میں اقرار کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ آخر ختم نبوت کے حلف نامہ کو اقرار نامہ میں تبدیل کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ میرے خیال میں میاں صاحبان اتنے سادہ نہیں ہیں کہ وہ حلف نامہ اور اقرار نامہ کے فرق کو نہ سمجھتے ہوں۔ یہ جو کچھ بھی ہورہا ہے ایک گہری سوچ اور خطرناک چال کا حصہ ہے۔ قادیانیوں کو رعایت دینے کے لیے اور ختم نبوت سے متعلق ترمیم کو غیر موثر بنانے کیلئے جو کچھ ہوسکتا ہے۔ حکومت موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ یہ بلاوجہ نہیں اس کے پردہ کے پیچھے چھپے ہوئے ہاتھوں کو غیر موثر بنانا ضروری ہے۔ لگتا ہے کہ میاں محمد نواز شریف نے ان تمام حالات سے کوئی سبق نہیں سیکھا، قادیانیت نوازی کی نحوست نے ان کو دیدہ عبرت بنائے بغیر نہیں چھوڑنا۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پاکۖ کے غضب سے ہم پناہ چاہتے ہیں۔

Tanveer Ahmed

Tanveer Ahmed

تحریر : تنویر احمد

The post حلف نامہ و اقرار نامہ میں فرق appeared first on جیو اردو.

اے انسان! ظلم سے باز آجا، ورنہ اللہ کی پکڑ بہت سخت ہے

$
0
0
Oppression

Oppression

تحریر : ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
ظلم کیا ہے؟: کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹاکر رکھنے اور حد سے تجاوز کرنے کو ظلم کہتے ہیں، یعنی اگر کوئی شخص کسی دوسرے کے مال یا زمین پر ناجائز قبضہ کرلے تو وہ ظلم ہے کیونکہ اس میں مال یا زمین پر اصل مالک کا حق چھین لیا جاتا ہے۔ اسی طرح شرک کرنا بھی ظلم ہے کیونکہ اس میں اللہ کا حق مارا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ عبادت میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ کسی کو ناحق قتل کرنا، کسی کو گالی دینا یا برا بھلا کہنا یا کسی کو تکلیف دینا یا کسی کا حق ادا نہ کرنا یا قدرت کے باوجود قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا بھی ظلم ہے۔

ظلم حرام ہے: قرآن وحدیث کی واضح تعلیمات کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ظلم حرام ہے، اور سات بڑے ہلاک کرنے والے گناہوں میں سے اکثر کا تعلق ظلم ہی سے ہے۔ ظالم قیامت کے دن ذلت آمیز اندھیروں میں ہو گا اور ظالموں کو جہنم کی دہکتی آگ میں ڈالا جائے گا۔ چنانچہ قیامت کے دن ظالموں سے مظلوموں کے حقوق ادا کروائے جائیں گے یہاں تک کہ سینگ والی بکری سے بغیر سینگ والی بکری کو بدلہ دلوایا جائے گا اگر اُس نے بغیر سینگ والی بکری کو دنیا میں مارا ہوگا۔ غرضیکہ شریعت اسلامیہ نے نہ صرف ظلم کی حرمت ونحوست کو بار بار ذکر کیا ہے اور اس کے برے انجام سے متنبہ کیا ہے، بلکہ مظلوم کی مدد کرنے کی تعلیم وترغیب بھی دی ہے، اور مظلوم کی بددعا سے بھی سختی کے ساتھ بچنے کو کہا گیا ہے کیونکہ مظلوم کی بددعا اللہ کے دربار میں رد نہیں کی جاتی۔

عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ظلم کو حرام قرار دے کر سب کے ساتھ عدل وانصاف کیا جائے اور ظالموں کو سخت سے سخت سزا دی جائے ورنہ غریبوں کو دو وقت کا کھانا ملنا بھی دشوار ہوجائے گا۔ اسی وجہ سے تمام مذاہب میں ظلم کرنے سے روکا گیا ہے۔ دنیاوی قوانین بھی اس طرح بنائے گئے ہیں کہ ظلم پر روک لگائی جاسکے، لیکن ہر دور میں کچھ لوگ اپنے مذہب کی تعلیمات اور عالمی وملکی قوانین کی دھجیاں اڑاکر کمزوروں اور غریبوں پر ظلم کرکے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ جس کی تازہ مثال برما کے بدھ مذہب کو ماننے والے وہ دہشت گرد ہیں جو آنگ سان سوچی کی موجودہ حکومت کی تایید سے غریب، کمزور اور مظلوم روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر آمادہ ہیں۔ انسانی حقوق کی علمبردار عالمی تنظیمیں اور دنیا میں امن کے ٹھیکیدار صرف تماشائی بنے ہوئے ہیں، اور برما کی حکومت اور بدھوں کے خلاف کوئی قابل ذکر کاروائی نہیں کی جارہی ہے۔

برما کے مظلوموں کی مدد کرنا تو درکنار ہندوستانی حکومت’ ایک ارب اور چونتیس کروڑ آبادی والے ملک میں صرف چالیس ہزار اُن برما کے باشندوں کو بھی ہندوستان سے نکالنے پر مصر ہے جو سڑکوں پر کوڑا کرکٹ اٹھاکر ز ندہ رہنے کے لیے دو وقت کا کھانا بمشکل کھالیتے ہیں، حالانکہ ہندو مذہب کے ماننے والے دعویٰ کرتے ہیں کہ اُن کی مذہبی کتابوں میں بھی مظلوموں کی مدد کرنے کی تعلیمات موجود ہیں۔ پوری دنیا کی عوام برما کے غریب لوگوں پر ہورہے مظالم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ لاکھوں لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر در بدر مارے پھر رہے ہیں۔ دنیا میں امن پسند لوگوں کی جانب سے اِن مظلوموں کی مدد کے لیے آوازیں بلند کی جارہی ہیں۔لیکن کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں ہے۔ مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھنے والے دیکھیں کہ دنیا کے مختلف حصوں میں برما کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں مظاہرہ کیے گئے لیکن ایک شخص کو بھی ایذا نہیں پہنچائی گئی کیونکہ اسلام تو آیا ہی ہے دنیا میں امن وسلامتی اور چین وسکون پھیلانے کے لیے۔ ہندوستانی حکومت سے برما کے مظلوموں کی مدد نہ کرنے کا شکوہ ہم کیسے کریں ،جب کہ ٥٠ مسلم ممالک کے قائدین برما کے مظلوموں کی مدد کے لیے وہ توجہ نہیں دے رہے ہیں جو اُن سے انسانی اور شرعی اعتبار سے مطلوب ہے۔

اسپین کی مناریں اذان کی آواز سنانے کے لیے ترس رہی ہیں جہاں ٧٠٠ سال مسلمانوں نے حکومت کی تھی۔ برما میں بدھوں کے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کو دیکھ کر تاریخ رقم ہونے کا خدشہ ہے کہ برما کے راکھائن ریاست میںقتل عام کرکے روہنگیا مظلوم وغریب مسلمانوں کی نسل کو ختم کردیا گیا، جہاں مسلمانوں نے ٣٥٤ سال حکومت کی تھی۔
مال ومنصب کے ملنے پر انسان کمزوروں پر ظلم کرنے لگتا ہے ، حالانکہ اسے سوچنا چاہئے کہ ساری کائنات کو پیدا کرکے پوری دنیا کے نظام کو تن تنہا چلانے والے نے خود اپنی ذات سے ظلم کرنے کی نفی کی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:اللہ ذرّہ برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ (سورة النساء ٤٠) نیز نبی اکرمۖ حدیث قدسی میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر بھی حرام کیا ہے اور تم پر بھی حرام کیا ہے۔ لہٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ (صحیح مسلم ۔ باب تحریم الظلم)
ظلم کے اقسام:علماء کرام نے ظلم کی تین قسمیں بیان کی ہیں۔ ١) شرک کرنا یعنی عبادت میں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا۔ ٢) گناہ کا ارتکاب کرکے خود اپنے اوپر ظلم کرنا۔ ٣) دوسرے انسان پر ظلم کرنا۔

شرک کرنا: ہمیں ایسی تمام شکلوں سے بچنا چاہئے جن میں شرک کا ادنیٰ سا بھی شبہ ہو، کیونکہ شرک کو اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑا گناہ اور ظلم قرار دیا ہے۔حضرت حکیم لقمان کی اپنے بیٹے کے لیے نصیحت کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے۔ وہ وقت یاد کرو جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا: ” اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا۔ یقین جانو شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔” (سورة لقمان ١٣) اگر انسان شرک سے توبہ کے بغیر مرجائے تو قیامت کے دن اس جرم عظیم کے لیے معافی نہیں ہے، جیساکہ فرمان الٰہی ہے: بیشک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، اور اس سے کمتر ہر بات کو جس کے لیے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے۔ اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے وہ ایسا بہتان باندھتاہے جو بڑا زبردست گناہ ہے۔ (سورة النساء ٤٨) گناہوں کے ارتکاب سے اپنے نفس پر ظلم کرنا: جس طرح اللہ کی اطاعت سے اللہ تعالیٰ بندوں سے راضی ہوتا ہے، اسی طرح اللہ کی نافرمانی سے اللہ تعالیٰ بندوں سے ناراض ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت انسان کو پیدا کرکے فرمایا: اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو، اور اس میں سے جہاں سے چاہو جی بھر کے کھاؤ، مگر اس درخت کے پاس بھی نہ جانا، ورنہ تم ظالموں میں شمار ہوگے۔ (سورة البقرة ٣٥) اسی طرح اللہ تعالیٰ طلاق کے مسئلہ کو ذکر کرکے ارشاد فرماتا ہے: جو لوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں وہ بڑے ظالم لوگ ہیں۔ (سورة البقرة ٢٢٩) جو کوئی اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود سے آگے نکلے گا، اُس نے خود اپنی جان پر ظلم کیا۔ (سورة الطلاق ١)کسی انسان کا دوسرے انسان پر ظلم کرنا: ظلم کی پہلی دو قسموں کا تعلق حقوق اللہ سے ہے، جبکہ تیسری قسم کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ ظلم کی اِس قسم پر خصوصی توجہ درکار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حقوق العباد کے متعلق اپنا اصول وضابطہ بیان کردیا ہے کہ جب تک بندہ سے معاملہ صاف نہیں کیا جائے گا وہ معاف نہیں کرے گا۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ کسی بھی انسان پر کسی بھی حال میں ظلم نہ کرے، بلکہ اپنی حیثیت کے مطابق دوسروں کی مدد کرے، ظالم کو ظلم کرنے سے حکمت کے ساتھ روکے اور مظلوم کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہو۔ جیسا کہ حضور کرمۖ نے ارشاد فرمایا : اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم مظلوم کی تو مدد کرسکتے ہیں، لیکن ظالم ہونے کی صورت میں اس کی مدد کس طرح ہوگی؟ حضور کرمۖ نے فرمایا: (ظالم کی مدد کی صورت یہ ہے کہ) اس کا ہاتھ پکڑ لو۔ یعنی اسے ظلم کرنے سے روک دو۔(بخاری ۔ باب اعن اخاک ظالماً او مظلوماً) کسی انسان کے دوسرے شخص پر ظلم کرنے کی مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں۔

چند حسب ذیل ہیں: یتیم کے مال کو ہڑپنا: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: یقین رکھو کہ جو لوگ یتیموں کا مال اُن پر ظلم کرکے کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں، اور انہیں جلدی ہی ایک دہکتی آگ میں داخل ہوناہوگا۔ (سورة النساء ١٠) اسی طرح کسی بھی انسان کے مال کو ناجائز طریقہ سے حاصل کرنے کے متعلق قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔

کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنا: کسی کمزور یا غریب کو دبا کر اس کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنا بھی ظلم اور بہت بڑا گناہ ہے۔ حضور اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا: اگر کسی شخص نے ایک بالشت زمین بھی کسی دوسرے کی ظلماً لے لی تو سات زمین کا طوق اس کی گردن میں پہنایا جائے گا۔ (بخاری ۔ باب اثم من ظلم شیئاً من الارض)اسی طرح فرمان رسول ۖ ہے: جس شخص نے ناحق کسی زمین کا تھوڑا سا حصہ بھی لیا تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں تک دھنسا دیا جائے گا۔ (بخاری ۔ باب اثم من ظلم شیئاً من الارض)کسی غیر مسلم پر ظلم کرنا: مسلمانوں کی طرح غیر مسلموں سے بھی انسانیت کی بنیاد پر ایک ہی جیسا برتاؤ کیا جائے گا۔ کسی غیر مسلم پر بھی ظلم کرنا حرام ہے۔ حضور اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا: جو شخص ذمی (یعنی وہ غیر مسلم جو مسلمانوں کے ملک میں رہتاہے) پر ظلم وزیادتی کرے گا یا اس کی طاقت سے زیادہ اس سے کام لے گایا اس کی کوئی چیز بغیر اس کی رضا مندی کے لے گا تو اُس ذمی کی جانب سے اُس شخص کے ساتھ خصومت کرنا والا میں (نبی اکرمۖ) خود ہوں گا۔ (ابوداود ۔ باب فی اہل تعشیر اہل الخدمہ)مزدورکی اجرت کی ادائیگی نہ کرنا یا اس میں کمی کرنا: حضور اکرمۖ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: تین طرح کے لوگ ایسے ہیں جن کا قیامت میں میں فریق بنوں گا، یعنی میں ان کے مخالف کھڑا ہوں گا۔

وہ شخص جس نے میرے نام پر وعدہ کیا اور پھر وعدہ خلافی کی۔ وہ شخص جس نے کسی آزاد کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی ہو (اور اس طرح اس کی غلامی کا باعث بنا ہو) ۔ اور وہ شخص جس نے کسی کو مزدوری پر لیا ہو، پھر کام تو اس سے پوری طرح لیا لیکن اس کی مزدوری نہ دی ہو۔ (بخاری ۔ باب اثم من منع اجر الاجیر) اسی طرح فرمان رسولۖ ہے: مزدور کی مزدوری اس کے پسینہ سوکھنے سے قبل دی جائے۔ (ابن ماجہ ۔ باب اجر الاجرائ)لوگوں کے حق کی ادائیگی میںٹال مٹول کرنا: رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا: قرض کی ادائیگی پر قدرت کے باوجود وقت پر قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ (بخاری ، مسلم) نیز رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ شہید کے تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے مگر کسی کا قرضہ معاف نہیں کرتا۔ (مسلم) انسانوں پر ظلم کرنے کی متعدد شکلوں میں سے چند صورتیں ذکر کی گئیں ہیں، لیکن ہمیں تمام ہی شکلوں سے بچنا چاہئے کیونکہ حضور اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکاة (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں سے ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی۔ پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو (ان حقوق کے بقدر) حقداروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا میں کئے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دئے جائیںگے ، اور پھر اس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم ۔ باب تحریم الظلم)مظلوم اور ہم کیا کریں؟: مظلوم صبر کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اپنی استطاعت کے مطابق ظالم کو ظلم سے روکے۔ اور دوسروں سے مدد حاصل کرکے اپنے ملک کے قانون کے تحت کاروائی کرے۔ ہمیں مظلوم کی حتی الامکان مدد کرکے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنی چاہئیں۔ اور اگر ہم ظالم کو ظلم کرنے سے روک سکتے ہیں تو ملکی قوانین کو سامنے رکھ کر ضرور یہ ذمہ داری انجام دینی چاہئے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن میں رکھنی چاہئے کہ حضور اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتے ہیں۔ پھر جب اچانک اس کو پکڑتے ہیں تو اس کو بالکل نہیں چھوڑتے۔ پھر آپۖ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ترجمہ” اسی طرح تیرے رب کی پکڑ ہے جب وہ شہروں کو پکڑتے ہیں جبکہ وہ ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یقینا اس کی پکڑ بڑی دردناک ہے۔(بخاری ومسلم)

Najeeb Qasmi

Najeeb Qasmi

تحریر : ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
(www.najeebqasmi.com)

The post اے انسان! ظلم سے باز آجا، ورنہ اللہ کی پکڑ بہت سخت ہے appeared first on جیو اردو.


محترمہ نیلوفر شاہد کے تیار کردہ سات دہائیوں پر مشتمل فیشن کے ملبوسات کی نمائش سفارت خانہ پاکستان پیرس میں منعقد کی گئی

$
0
0
Apparel Exhibition

Apparel Exhibition

پیرس (زاہد مصطفی اعوان) پاکستان کی مشہور فیشن ڈیزائنر محترمہ نیلوفر شاہد کے تیار کردہ سات دہائیوں پر مشتمل فیشن کے ملبوسات کی ایک خصوصی نمائش سفارت خانہ پاکستان پیرس میں منعقد کی گئی۔ اس تقریب کا انعقاد سفارت خانہ پاکستان نے کیا تھا۔ یہ تقریب پاکستان کی آزادی کے ستر سال مکمل ہونے پر کی جانی والی تقریبات کا حصہ ہے۔

یہ فیشن شو سفارت خانہ پاکستان میں منعقد کیا گیا جس میں فرانسیسی فیشن انڈسٹری کے سینئر نمائندگان،بڑے کاروباری مراکز،فیشن سکولز اور اداروں، مقامی اداکاروں، ٹی وی اور فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے اداکاروں، فرانسیسی اور پاکستانی صحافیوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

سفیر پاکستان نے افتتاحی تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ پاکستان تیزی سے آگے بڑھنے کی راہیں تلاش کرنے والا ملک ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی فیشن ڈیزائنرز نے اپنے تجربے اور تخلیقی کام کی وجہ سے پوری دنیا میں اپنا مقام بنایا ہے۔ سفیر پاکستان نے اس امید کا اظہار بھی ظاہر کیا کہ یہ تقریب سے پاکستانی فیشن ڈیزائنرز اور ان کے کام کو فرانسیسی فیشن انڈسٹری میں متعارف کروانے اور اس شعبے میں رابطوں کے فروغ میں مدد گار ثابت ہوگا۔

اس شو کے پلے حصے میں پاکستان کی سات دہائیوں پر مشتمل ماضی کے فیشن کے ملبوسات کی نمائش کی گئی۔

شو کا دوسرے حصے میں نیلو فر شاہد کی طرف سے بین الاقوامی شہرت یافتہ ڈچ پینٹر ریمبرنڈ کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ ان کے فنی سفر اور تخلیقی ملبوسات مہمانوں کی طرف سے خوب داد صول کی۔

یہ فیشن شو سفارت خانہ پاکستان کی جانب سے پاکستان کے مثبت امیج کو واضح کرنے کیلئے شروع کی گئی عوامی سفارت کاری کا حصہ تھا۔
محترمہ نیلوفر شاہد پاکستان کی ایک نامور فیشن ڈیزائنر ہیں۔ انہو ں نے کئی بین الاقوامی ایوارڈز بھی حاصل کیئے ہوئے ہیں جس میں گارڈ دی شولیئر قابل دکر ایواڈ ہے۔ جو کہ انہیں حکومت فرانس کی جانب سے آرٹ و کلچر کے فروغ میں حصہ لینے کے اعتراف میں دیا گیا۔

The post محترمہ نیلوفر شاہد کے تیار کردہ سات دہائیوں پر مشتمل فیشن کے ملبوسات کی نمائش سفارت خانہ پاکستان پیرس میں منعقد کی گئی appeared first on جیو اردو.

ٹیچرز ڈے اور مثالی استاد کی صفات

$
0
0
Teacher's Day

Teacher’s Day

تحریر : مولانا محمد جہان یعقوب
تعلیمی مقام کی فضا بہت سے عناصر سے مل کر وجود میں آتی ہے، تاہم اس فصا کا سب سے اہم عنصر استاد کی شخصیت ہے۔معلم انبیا علیہم السلام کا نائب و وارث ہے۔اساتذہ کرام پہلے اس امر کا احساس کریں اور پختہ عقیدہ رکھیں کہ: تعلیم ایک ربانی عمل ہے۔ حق تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کو اسما کی تعلیم دی اور قلم کے ذریعہ سے انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ درس و تدریس بڑا مقدس مشغلہ ہے، کیوں کہ یہ تمام انبیا علیہم السلام کا مشغلہ رہا ہے۔ رسول اللہ ۖ کو معلم بنا کر بھیجا گیا۔ مدرس و معلم معمولی انسان نہیں ، ان کو چاہیے کہ کبھی بھی اپنے آپ کو حقیراور چند ہزار روپے کا ملازم و نوکر نہ سمجھیں۔یہ تو ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں نئی نسل کی تربیت کی نازک ترین ذمے داری ادا کرنے والوں کو معمولی سا مشاہرہ دیتے ہیں ،طبقاتی نظام تعلیم ،ٹیوشن کلچر اور پرائیویٹ اسکولوں کی بھرمار نے تو استاد کے مقام کو مزید گرادیاہے،پرائیویٹ اسکول کے مالکان نے تعلیم کو ایک بزنس بنا رکھا ہے اور قوم کی جیبوں سے فیسوں اور مختلف چارجز کے نام پر بھاری بھررقم اینٹھنے کے باوجوداستاد کو معمولی تنخواہوں پر ٹرخادیا جاتا ہے۔دوسری جانب دینی مدارس کی صورت حال بھی اس حوالے سے خوش کن نہیں۔وہاں بھی استاد کی تنخواہ ”اونٹ کے منہ میں زیرہ”کے مصداق ہوتی ہے،حالاں کہ ایک معلم کو اس قدر مصروف کردیاجاتا ہے کہ وہ اپنی معاشی ضروریات پوری کرنے کے لیے کوئی اور کام بھی نہیں کرسکتا۔

کسی نے خوب کہاکہ:جس قوم کی نظر میں معلم کی قدر ایک معمولی مزدورجتنی بھی نہیں ،اس قوم کو ذلت وادبار سے کوئی نہیں بچا سکتا۔کاش!دینی وعصری تعلیمی اداروں کے ارباب حل وعقد کو اس حقیقت کا ادارک ہو،کہ معلم ہی تعلیمی ڈھانچے کا اہم ترین عنصر اوروہ عظیم ہستی ہے جس کے کاندھوں پر نئی نسل،جو مستقبل کی معمار اور صور ت گر ہے،کی تعلیم وتربیت کی نازک ذمے داریاں ڈالی گئی ہیں۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ اساتذہ ہی آنے والی نسلوں کے امین ا و ررکھوالے ہیں۔
طلبہ استاد کی سیرت و شخصیت کا گہرا اثر قبول کرتے ہیں،اس لیے ایک استادکوانتہائی محتاط ہونا چا ہیے۔ اسے بچوں کی تعلیم اور تربیت کے دوران اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے،جن اچھے خصائل اور اقدار کو وہ بچوں میں منتقل کرنا چاہتا ہے پہلے ان کو اپنے وجود میں پیدا کرے، بچوں میں اسی چیز کا انعکاس ہو گا جو استاد میں موجود ہو گی، استاد کی شخصیت جن اوصاف کی آئینہ دار ہوگی وہ اوصاف ازخود طلبہ کے دلوں کو متاثر کریں گے۔شاگرد اپنے استاد کو بہت باریک بینی سے دیکھتا ہے، یوں استاد کی چال ڈھال، عادات واطوار اور اخلاق وکردار لاشعوری طور پر بھی اس میں اترنے لگتے ہیں ۔کسی شاگرد کی کام یابی میں اس کے استاد کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ہم جتنی بھی مشہور اور بڑی شخصیات کے حالات اٹھاکر دیکھیں،یہ بات سب میں مشترک نظر آئے گی ،کہ ان کو بڑا آدمی بنانے میں ان کے استادوں کا کردار سب سے اہم اور کلیدی تھا۔اس کا اعتراف بھی ہمیں ان کے اقوال وافعال میں نظر آئے گا۔آخر کوئی تو بات تھی،کہ جب علامہ محمد اقبال کو حکومت کی جانب سے ”سر”کاخطاب دیاجانے لگا،تو انھوں نے یہ خطاب قبول کرنے کی یہ شرط لگائی ،کہ یہی خطاب ان کے اولین استادسید میر حسن کو بھی دیاجائے!

ایک کامیاب اور مثالی استاد و معلّم کے لیے جن صفات کا حامل ہونا ضروری ہے،ذیل میں ان پر روشنی ڈالی جاتی ہے:

اخلاص:اچھا استاد اپنے پیشے کے ساتھ مخلص ہوتا ہے۔ وہ اپنے پیشے کے ساتھ جس قدر بے لوث ہوگا ، اس کی دلچسپی اسی قدر بڑھتی جائے گی اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں اتنی ہی کم ہوتی چلی جائیں گی۔ اخلاص وہ جوہر ہے جس سے عمل میں لذت پیدا ہوجاتی ہے۔

تقویٰ:علم اور تقوی کا باہم گہرا تعلق ہے، اسی وجہ سے قرآن پاک میں خشیت الہی کا مدار علم کو قرار دیا گیا ہے۔ نیز یہ بات ہم پر مخفی نہیں کہ استاد کے دل میں جتنی خدا خوفی ہوتی ہے اس کی زبان میں اسی قدر تاثیر ہوتی ہے۔

نرم روی : اچھے اور کامیاب استاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ حلم و بردباری، عفو و درگزر، ستر پوشی اور خوش خلقی جیسے اعلی اخلاق سے مزین ہو۔نرم روی کا ایک اہم پہلو لوگوں کے دکھ درد کا احساس اور ان کے غم میں شریک ہونا ہے۔ کوئی شخص جو سخت دل اور درشت خو ہے وہ کبھی کسی تکلیف دہ چیز یا غم انگیز صورتحال سے متاثر نہیں ہوتا۔ ہمارے آقا ۖ اپنے طلبا کے ساتھ بہت ہی کریم شفیق اور مہربان تھے۔ انکی ہر وقت دل جوئی کرنے والے تھے۔

اچھی صحبت:اچھا استاد وہ ہوتا ہے جس کا مزاج اچھا ہو، اس کی بیٹھک اچھے لوگوں کے ساتھ ہو،اس کی پہچان اچھی سوسائٹی ہو۔ حدیث کے مطابق اسے عطار کے مانند ہونا چاہیے ،جس کے پاس سے گزرنے والا کم ازکم معطر ضرورہوسکے،نہ کہ لوہار کی طرح جس کی صحبت اختیار کرنے والے کو بھٹی کی تپش بھی گوارا کرنا پڑتی ہے۔ تحمل اور برداشت:تعلیم اور تزکیہ کے میدان میں صبر وتحمل کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔ استاد میں جس قدر یہ خوبی ہوگی وہ اتنا ہی کامیاب مدرس ثابت ہوگا۔

زہد اور بے رغبتی:ایک اچھا استاد وہ ہوتا ہے جس میں کمال درجے کا زہد ہو،یعنی اس کی نظر اپنے شاگردوں کے مال پر نہ ہو،وہ مادی مفادات سے بالاتر ہوکر تعلیم وتربیت کے فریضے میں منہمک رہے، شاگرد کے مال پر اگر استاد کی رال ٹپک رہی ہو تو شاگرد کی نظر میں ایسے استاد کی حیثیت صفر ہوجاتی ہے۔

عفو درگزر اور وسعتِ قلبی:ہر معمولی بات پر پکڑ کرنے والا کبھی کامیاب مدرس نہیں بن سکتا، استاد کو اپنے اندر وسعتِ قلبی پیدا کرنی چاہیے۔”مار نہیں پیار”ایک اچھے استادکا ماٹو ہونا چاہیے۔وہ اپنے شاگردوں کے درمیان ایک جلاد کے طور پر نہیں ایک حلیم وشفیق ہستی کے طور پر اپنا تعارف پیدا کرنے کی کوشش کرے۔

مایوس نہ ہو:اچھا استاد کبھی مایوس نہیں ہوتا، اس کی مثال اس پھل بیچنے والے کی سی ہے، جو اپنے گاہک کے سامنے پھل کی ایسی تعریف کرے کہ وہ تھوڑے کے بجائے زیادہ لینے پر مجبور ہوجائے اور اگر خدانخواستہ وہ اس طرح کے جملے دہرانے لگے :جناب! بس کیلے کا تو موسم ہی نہیں رہا، اس کا گاہک بھی آج کل ڈھونڈے نہیں ملتا، یہ دیکھیے پڑے پڑے کیلے کالے ہونے لگے ہیں، شکر ہے کوئی تو آیا …یہ سن کر کوئی بے وقوف ہی اس سے سودا خریدے گا۔ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہم جس علم کو بیچ رہے ہیں اس کی قدر خود ہمارے دل میں بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استادکے ذریعے شاگروں میں مایوسی منتقل ہورہی ہے۔
ٹیچرز ڈے کے موقع پر وہ تمام خواتین وحضرات جو استاد کی نازک ذمے داریوں پر فائز ہیں،اس بات کا عہد کریں کہ مندرجہ بالا صفات اور خوبیوں کو اپنے اندر بھی پیدا کریں گے اور اپنے شاگردوں میں بھی منتقل کریں گے۔اس مادیت کے دور میں اساتذہ پر عاید ہونے والی ذمے داریاں ماضی کے مقابلے میں دوچند اور سہ چند ہوچکی ہیں،لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کا استاد بھی،تعمیرکردار وسیرت کے بجائے محض حرف خوانی کو اپنی ذمے داری سمجھتا ہے،جس کی وجہ سے تعلیم یافتہ لوگ توہر طرف نظر آتے ہیں،لیکن ان کے اندر وہ صفات ڈھونڈے سے نہیں ملتیں،جو ماضی میں تعلیم وتربیت کا لازمہ سمجھی جاتی تھیں۔

Molana Muhammad Jehan Yaqoob

Molana Muhammad Jehan Yaqoob

تحریر : مولانا محمد جہان یعقوب
ڈین فیکلٹی آف تفسیرالقرآن،بنوریہ یونیورسٹی انٹرنیشنل

The post ٹیچرز ڈے اور مثالی استاد کی صفات appeared first on جیو اردو.

پاکستانی کمیونٹی فورم آسٹریا کے اعزاز میں شٹائر مارک میں ایک پُروقار تعارفی تقریب کا انعقاد

$
0
0
Ceremony

Ceremony

ویانا (اکرم باجوہ) پاکستانی کمیونٹی فورم آسٹریا کا مشن دوریاں مٹانا اور خوشیاں بانٹنا ہے اسی سلسلہ میں پاکستانی کمیونٹی فورم آسٹریا شٹائر مارک اور کلاگنفورٹ کے کوآرڈینیٹر عاصم نوید کی جانب سے پاکستانی کمیونٹی فورم آسٹریا کے عہدیداران کی پاکستانی کمیونٹی کی خدمات اور اعلیٰ کارکردگی کے اعتراف میں شٹائر مارک کی خوبصورت پہاڑی وادی کے مقامی ریسٹورنٹ میں پُروقار افتتاحی تعارفی تقریب کا انعقاد یکم اکتوبر اتوار کی دوپہرکیا گیا جس میں مہمان خصوصی کے طور پر پاکستان سفارتخانہ ویانا کمیونٹی افیئرز قونصلر جناب سہیل افضل صاحب نے شرکت کی ۔کمیونٹی افیئرز قونصلر اور پی سی ایف اے کی مرکزی قیادت سینئر نائب صد ر حاجی محمد ارشد باجوہ ،نائب صدر حاجی باوا سید غضنفر علی شاہ،جنرل سیکرٹری خواجہ منظور احمد ،مجلس عاملہ کے چیرمین لالہ محمد حسین خان ،مجلس عاملہ ڈپٹی چیرمین حافظ محمد نعیم آف ہورن،فنانس سیکرٹری محمدانور،کوآرڈینیٹرز طارق حسین ،چوہدری پرویز،حاجی سلطان،حبیب الرحمان،سہیل اصغر باجوہ، عمرخطاب خان ،، انوار خان ،عثمان گُل ،اسد باجوہ، وقاص باجوہ،بابر فہیم خان اور یوتھ سے چوہدری ہارون،حمزہ،عاطف اور علی طارق و دیگر تقریب میں پہنچے تو میزبان عاصم نوید نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مہمانوں کو خوش آمدید کہا ۔یاد رہے کہ پاکستانی کمیونٹی فورم آسٹریا کے صدر ندیم خان علیل ہونے کی وجہ سے تقریب میں شرکت نہ کر سکے۔

تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا اور نعت رسول مقبول ۖپڑھنے کی سعادت راجہ تنویر نے حاصل کی ۔پاکستانی کمیونٹی فورم آسٹریاکے جنرل سیکر ٹری خواجہ منظور احمد نے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیتے ہوئے میزبان عاصم نوید کا پاکستانی کمیونٹی فورم آسٹریا کے اعزاز میں افتتاحی تعارفی شاندارتقریب کا انعقاد کرنے پر مبارک باد پیش کی اور پاکستانی کمیونٹی فورم آسٹریا کی مرکزی قیادت اور مجلس عاملہ کے عہدیداران کا فرداََفرداََ تعارف کرایا اور اُن کی کارکردگی پر روشنی ڈالی اورپاکستانی کمیونٹی فورم آسٹریاکے اغراض و مقاصد شرکاء کو بتائے اور عاصم نوید کو پاکستانی کمیونٹی فورم آسٹریاکی پاکستان کے حوالہ سے پاکستانی کمیونٹی کی خدمات سے متاثر ہوکر اس میں شمولیت پر مبارک باد پیش کی اور فورم میں خوش آمدید کہا اور مذید کہا کہ عاصم نوید کی شمولیت سے فورم کو مذید تقویت ملے گی اس دوردراز پہاڑی علاقہ میں پاکستان کا جھنڈا دیکھ کر دل بہت خوشی ہوئی۔

کوآرڈینیٹر عاصم نوید نے اپنے مختصر خطاب میں سالزبرگ ،ویانا،لینز ،کلاگنفورٹ اور شٹائر مارک کے مہمانوں کو تقریب میں خصوصاََمہمان خصوصی پا کستان سفارتخانہ ویانا کمیونٹی افیئرز قونصلر کو خوش آمدید کہا ۔اُنہوں نے مذید کہا میرا ایک خواب تھا کہ اس خوبصور ت علاقہ میں پاکستانی کمیونٹی کو اکھٹا کر کے پاکستان کا جنڈا بلند کیا جائے جو آج پورا ہوا اور انشاء اللہ بہت جلد ایک بہت بڑی تقریب کا انعقاد کیا جائے گا جو پاکستانی بھائی آج شرکت نہیں کر سکے وہ بھی شرکت کریں گے اور پاکستان کمیونٹی کو ایک پلیٹ فارم اکھٹا کرنے کا سہرا کمیونٹی افیئرز قونصلر کو جاتا ہے جس کے ہم شکر گزار ہیں ۔ڈپٹی چیر مین حافظ نعیم نے عاصم نوید کو شاندار تقریب پر مبارک باد دی اور کہا کہ جو فورم نے میرئے اوپر زمہ داری ڈالی ہے میں اس پر پورا اترنے کی کوشش کروں گا اور مجھے اس عہدئے پر نامزد کرنا میرئے لیے اعزاز کی بات ہے ہم بھی پاکستان کی خدمت کرنے میں اپنا حصہ ڈال سکیں اُنہوں نے فورم کی بہتری کے لیے اپنی تجاویزدیں۔تقریب میں حبیب الرحمان نے عاصم نوید کی ان اکاوشوں کو سراہا اور یوتھ کی کارکردگی کی تعریف کی ۔طارق حسین اور انوار خان نے مذاحیہ نظمیں پیش کرکے تقریب کو محظوظ کیا۔یوتھ کی جانب سے چوہدری ہارون،حمزہ،عاطف اور علی طارق نے پاکستانی کمیونٹی فورم کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔

فنانس سیکر ٹری محمد انور نے بھی تنظیمی فنانس پر بڑی تفصیل سے بات کی ۔عنصر مہر نے پی سی ایف اے کو تعارفی تقریب میں شرکت پر شکریہ ادا کیا۔مجلس عاملہ کے چیرمین لالہ محمد احسین خان نے اپنے مختصر خطاب میں عاصم نوید کو شاندار تقریب کا انعقاد کرنے پر مبارک باد پیش کی اور شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ یوتھ کو ساتھ لیکر چلا جائے تاکہ مستقبل میں اس فورم کی باگ ڈور سنبھالیں یہ فورم ہر پاکستانی کا اپنا فورم ہے شروع میں اس کو بنانے میں کافی مشکلات پیش آئیں مگر ہمارئے ساتھی ثابت قدم رہے اور آج ماشاء اللہ یہ کارواں رواں دواں ہے اور اب لوگ اس فورم کا حصہ بننے کی خود خواہش کر رہے ہیں اور اس فورم میں سب لوگ ایماندار لوگ ہیں اپنے پاس سے پیسے اور وقت دیکر پاکستان کے لیے کام کر رہے ہیں ۔مہمان خصوصی کمیونٹی افیئر زنے اپنے خطاب میں کوآرڈینیٹر عاصم نوید اور اُن کے ساتھیوںکو شاندار تعارفی تقریب کا انعقاد کرنے پر مبارک با د پیش کی اور کہا کہ اس فورم کے زیر اہتمام چار پانچ کامیاب پروگرام کیے جا چکے ہیںجو آپ سب کے تعاون سے ممکن ہوا۔جو بھی انسان آپ کی زندگی میں آئے آپ اُس پر اعتبار کریں تب تک جب تک آپ کے اعتبار کو ٹھیس نہ پنچائے۔اُنہوں نے مذید کہا کہ ۔ محرم الحرام کا مہینہ ہمیں صبر اور قربانی کا درس دیتا ہے ہم حضرت امام حسین کی قربانی کو یاد رکھیں پاکستانی فورم کے لیے قربانی دیں اس فورم میں پہلے چھوٹی ٹیم تھی اور اب فورم بڑا ہوتا جا رہا ہے اور آپ پاکستان کے لیے قربانی دیں ۔تقریب کے احتتام پر ڈپٹی چیرمین حافظ محمد نعیم نے اجتمائی دعائیہ کلمات میں پاکستان کی ترقی ،خوشحالی اور امن و امان کے لیے اورفورم کی کامیابی کے لیے دعا کی ۔ مزیدار اور لزیز کھانوں کے بعدتقریب کے احتتام پر میزبان عاصم نوید نے مہمانوں کو گالف کلب کی خوبصورت گراونڈ کا وزٹ چھوٹی گاڑیوں پر کرایا جس کو مہمانوں نے خوب انجوائے کیا ۔پی سی ایف اے کی پوری ٹیم نے عاصم نوید اور اُس کے ساتھیوں کو شاندار کھانے کا اہتمام اور گالف کلب کا وزٹ کرانے پر شکریہ ادا کیا۔

The post پاکستانی کمیونٹی فورم آسٹریا کے اعزاز میں شٹائر مارک میں ایک پُروقار تعارفی تقریب کا انعقاد appeared first on جیو اردو.

پاکستانی کمیونٹی فورم آسٹریا کے اعزاز میں شٹائر مارک میں پُروقار تقریب کے انعقاد کی تصویری جھلکیاں

$
0
0

ویانا (اکرم باجوہ) پاکستانی کمیونٹی فورم آسٹریا کا مشن دوریاں مٹانا اور خوشیاں بانٹنا ہے اسی سلسلہ میں پاکستانی کمیونٹی فورم آسٹریا شٹائر مارک اور کلاگنفورٹ کے کوآرڈینیٹر عاصم نوید کی جانب سے پاکستانی کمیونٹی فورم آسٹریا کے عہدیداران کی پاکستانی کمیونٹی کی خدمات اور اعلیٰ کارکردگی کے اعتراف میں شٹائر مارک کی خوبصورت پہاڑی وادی کے مقامی ریسٹورنٹ میں پُروقار افتتاحی تعارفی تقریب کا انعقاد یکم اکتوبر اتوار کی دوپہرکیا گیا جس میں مہمان خصوصی کے طور پر پاکستان سفارتخانہ ویانا کمیونٹی افیئرز قونصلر جناب سہیل افضل صاحب نے شرکت کی۔

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

Ceremony

The post پاکستانی کمیونٹی فورم آسٹریا کے اعزاز میں شٹائر مارک میں پُروقار تقریب کے انعقاد کی تصویری جھلکیاں appeared first on جیو اردو.

انجمن حسنیہ باصل کے زیراہتمام دس روزہ مجالس کا اہتمام کیا گیا

150,000 ہنڈا سوک یونٹس فروخت کرنیکا سنگ میل عبور

$
0
0
Honda Civic

Honda Civic

لاہور (جیوڈیسک) ہنڈا اٹلس کارز (پاکستان) لمیٹڈ نے پاکستان میں مجموعی طور پر 150,000 سے زائدہنڈا سوک یونٹس فروخت کرنے کا اہم سنگ میل عبور کرلیا۔یہ کامیابی حاصل کرنے کے پس منظر میں جو چیز سب سے نمایاں ہے وہ برانڈ کا اپنے تمام ماڈلز میں معیار کو برقرار رکھنا ہے ۔ نئی ہنڈا سوک نے اپنے منفرد فیچرز اور جدید ڈیزائن کے ساتھ ایک بلند معیار قائم کیا ہے۔

ہنڈا سوک کو پاکستان میں پہلی بار 1994ء میں اپنی لانچ کے ساتھ ہی پاکستانی صارفین میں بے حد مقبولیت حاصل ہوگئی اور اس نے مقامی مارکیٹ میں ہلچل مچا دی۔ سوک کا 6th جنریشن ماڈل نئی شکل و صورت کے ساتھ 1996ء میں متعارف کروایا گیا اورحال ہی میں ہنڈا سوک کی تازہ ترین 10th جنریشن لانچ کی گئی جو ٹیکنالوجی اور ڈیزائن میں سب سے منفرد ہے۔

نئے ماڈل میں اب تک فراہم کئے گئے سب سے بہترین فیچرز موجود ہیں، جو ہنڈا کی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے ساتھ وابستگی اور انجینئرنگ میں مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

The post 150,000 ہنڈا سوک یونٹس فروخت کرنیکا سنگ میل عبور appeared first on جیو اردو.

رنگانا ہیرتھ کیخلاف حکمت عملی تبدیل کرنا ہو گی : مصباح الحق

$
0
0
Misbaul Haq

Misbaul Haq

لاہور (جیوڈیسک) پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان مصباح الحق کا کہنا ہے کہ پاکستانی ٹیم کو سری لنکن سپنر رنگانا ہیرتھ کے خلاف اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی ہوگی اور ان کے خلاف جارحانہ بیٹنگ کرنا ہوگی ۔ ایک انٹرویو میں مصباح الحق نے رنگنا ہیراتھ کا توڑ بتا دیا۔

سابق کپتان کا کہنا تھا کہ لیفٹ آرم سپنرکے خلاف جارحانہ حکمت عملی اپنانا ہوگی ۔ مصباح الحق کا کہنا تھا کہ یاسر شاہ نے بہت ہی عمدہ بولنگ کی اور سری لنکا کو دوسری اننگز میں ایک سو چھتیس رنز پر ڈھیر کیا ۔ پاکستان کے کامیاب ترین کپتان نے مڈل آرڈر بیٹسمین حارث سہیل کے کھیل کو بھی سراہا۔

The post رنگانا ہیرتھ کیخلاف حکمت عملی تبدیل کرنا ہو گی : مصباح الحق appeared first on جیو اردو.


باتوں کا وقت گیا، شمالی کوریا کی جاپان کو ایٹمی جنگ کی دھمکی

$
0
0
Kim Jong-un

Kim Jong-un

پیانگ یانگ (جیوڈیسک) شمالی کوریا نے جاپان کو کھلے الفاظ میں ایٹمی حملے کی دھمکی دیدی۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق شمالی کوریا نے جاپان کو کھلے الفاظ میں ایٹمی حملے کی دھمکی دی ہے اور سپریم لیڈر کم جونگ ان نے جاپانی وزیر اعظم کو بغیر سر کے مرغا کہا۔

شمالی کوریا کا یہ اعلان جاپان کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں بین الاقوامی برادری پر زور دیا گیا تھا کہ اب شمالی کوریا سے مذاکرات میں وقت نہیں ضائع کرنا چاہیے۔

The post باتوں کا وقت گیا، شمالی کوریا کی جاپان کو ایٹمی جنگ کی دھمکی appeared first on جیو اردو.

کراچی: خواتین پر چاقو حملے، بلاول بھٹو کا نوٹس، ملزم کو گرفتار کیا جائے

$
0
0
Bilawal Bhutto

Bilawal Bhutto

کراچی (جیوڈیسک) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں خواتین پر چاقو حملوں کا نوٹس لے لیا۔

بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ہر ماں بہن بینظیر بھٹو ہے، خواتین کا تحفظ ہم سب پر فرض ہے۔

انہوں نے کہا حملہ کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں، ملزم گرفتار ہونا چاہئے ورنہ انگلیاں اٹھیں گی۔

بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی معصوم خواتین پر حملے برداشت نہیں کرے گی، سندھ حکومت خواتین کا تحفظ یقینی بنائے۔

The post کراچی: خواتین پر چاقو حملے، بلاول بھٹو کا نوٹس، ملزم کو گرفتار کیا جائے appeared first on جیو اردو.

زرداری اور فریال کیطرف سے ہرجانے کا دعویٰ مضحکہ خیز ہے: عمران خان

$
0
0
Imran Khan

Imran Khan

اسلام آباد (جیوڈیسک) عمران خان نے مخالفین پر تاک تاک کر وار کئے۔ لیگی اور پی پی قیادت پر ایک بار پھر تنقید کے نشتر چلا دئیے۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں کپتان کا کہنا تھا کہ کرپشن کے خلاف بولنے پر میرے خلاف ہرجانے کا دعویٰ کیا گیا، زرداری اور فریال تالپور کی جانب سے ہرجانے کا دعویٰ مضحکہ خیز ہے۔

چیئرمین تحریک انصاف نے نواز شریف کو ن لیگ کا دوبارہ صدر بننے کو پاگل خانے پر دیوانے کا قبضہ قرار دیدیا، کہتے ہیں جب کرپٹ لوگ جشن منائیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے۔

The post زرداری اور فریال کیطرف سے ہرجانے کا دعویٰ مضحکہ خیز ہے: عمران خان appeared first on جیو اردو.

ایران اور ترکی کو باہمی تعاون بڑھانا چاہیے: حسن روحانی

$
0
0
 Hassan Rouhani

Hassan Rouhani

تہران (جیوڈیسک) ایران کا سرکاری دورہ کرنے والے ترک مسلح افواج کے سربراہ جنرل خلوصی آکار کی صدر حسن روحانی سے تہران میں ملاقات ہوئی ہے۔ ترک خبررساں ادارے کے مطابق اس موقع پر ایرانی صدر روحانی نے کہا کہ آج دونوں ممالک سیاسی، اقتصادی اور بین الاقوامی تعلقات کے معاملے میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فوجی اور دفاعی شعبوں میں بھی باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے ہمیں کوششیں صرف کرنی ہوں گی۔

روحانی نے کہا کہ علاقے کو در پیش مشترکہ خطرات اور مفادات کے دائرہ کار میں ہمیں باہمی تعاون کو مزید تقویت دینی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں انسداد دہشت گردی اور سرحدی تحفظ کا قیام اہم اہداف میں شامل کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیں چاہیے کہ ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے ملکی تحفظ و استحکام کو مزید تقویت دیں۔ ایرانی صدر نے مزید کہا کہ جغرافیائی سرحدوں کو بگاڑنے سے علاقائی سلامتی اور استحکام کو نقصان پہنچے گا۔

ترک مسلح افواج کے سربراہ جنرل خلوصی آکار نے اس موقع پر کہا کہ فوجی میدان میں تعاون علاقائی استحکام میں اہم سطح کردار کرے گا۔ ترک اور ایرانی مسلح افواج کے باہمی تعاون کو غیرقانونی نقل مکانی، انسداد منشیات اور خطے کی سلامتی جیسے معاملات میں مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔

The post ایران اور ترکی کو باہمی تعاون بڑھانا چاہیے: حسن روحانی appeared first on جیو اردو.

نرالا فیصلہ آیا، نہ نظیر ہے، نہ دلیل ہے، نہ وکیل ہے، نہ اپیل ہے: نواز شریف

$
0
0
Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

لاہور (جیوڈیسک) مسلم لیگ ن کے ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ این اے 120 کی کامیابی ہماری تاریخ کا سنہرا ورق بن چکی ہے، آپ نے وقت کی عدالت میں انصاف کی گواہی دی ہے، دل کرتا ہے اپنے ہر ووٹر کا ماتھا چوموں، گلے سے لگاؤں، ووٹروں نے مسلم لیگ کا مان رکھا ہے، اگر یہی جذبہ رہا تو پاکستان کی ستے خیراں ہیں، آپ کے ووٹ کا تقدس بحال ہو گا۔

نواز شریف نے مزید کہا کہ پاکستان آگے بڑھے گا، پچھلی روایتیں دم توڑ جائیں گی، میں نے سنا ہے کہ این اے 120 کے الیکشن میں “یہ جو کالا کوٹ ہے، میاں تیرا ووٹ ہے” کا نعرہ لگا، وکیل بھائیو! میں آپ کی جنگ لڑ رہا ہوں، سرخرو ہوں گے، لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا وعدہ پورا کر دیا، ہم سے پہلے کسی حکومت نے ایسا وعدہ پورا کیا؟

نواز شریف نے کارکنوں سے سوال کیا کہ جو بھی کروں گا، میرا ساتھ دو گے؟ وعدہ کرو میرے سنگ چلو گے۔ نواز شریف نے تقریر کے آخر میں مولانا ظفر علی خان کا شعر بھی سنایا، بولے
ہیں نئی روش کی عدالتیں اور نرالے ہی ڈھب کے فیصلے
نہ نظیر ہے، نہ دلیل ہے، نہ اپیل ہے، نہ وکیل ہے

The post نرالا فیصلہ آیا، نہ نظیر ہے، نہ دلیل ہے، نہ وکیل ہے، نہ اپیل ہے: نواز شریف appeared first on جیو اردو.

Viewing all 6004 articles
Browse latest View live