Quantcast
Channel: جیو اردو
Viewing all 6004 articles
Browse latest View live

زینب قتل کیس : مجرم عمران کا بے قصور ہونے کا دعویٰ

$
0
0
Imran

Imran

لاہور (جیوڈیسک) زینب قتل کیس کے مرکزی مجرم عمران نے بے قصور ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے سزا کیخلاف لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔

اپنی اپیل میں مجرم کا کہنا ہے کہ کیس کی سماعت کے دوران اس کے ساتھ قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔

یاد رہے کہ مجرم عمران کو انسداد دہشتگردی کی عدالت نے زینب قتل کیس میں جرم ثابت ہونے پر چار مرتبہ سزائے موت، عمر قید، سات سال قید اور 32 لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔

The post زینب قتل کیس : مجرم عمران کا بے قصور ہونے کا دعویٰ appeared first on جیو اردو.


عدل و انصاف صرف حشر پر نہیں موقوف

$
0
0
Justice

Justice

تحریر : قادر خان یوسف زئی
سیاسی جماعتوں کے خلاف یا حق میں فیصلوں پر تبصرے اور تنقید کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اگر عدلیہ کوئی فیصلہ دیتی ہے تو اس پر تبصرہ یا اظہار رائے کرنے پر دنیا بھر میں کوئی ممانعت نہیںہے ۔ سب سے بڑی مثال امریکا، ایران اور بھارت کی ہمارے سامنے موجود ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سپریم کورٹ کے نامزد جج نیل گورسچ کے ایک ترجمان نے صدر کی عدلیہ پر تنقید کو ”حوصلہ شکن” اور” مایوس کن” قرار دیا ہے۔ایک جج جیمز رابرٹ نے صدر ٹرمپ کے اس انتظامی حکم پر عمل درآمد روک دیا تھا جس کے تحت مسلمان اکثریت والے سات ملکوں کے شہریوں کے امریکہ آنے پر عارضی پابندی عائد کی گئی تھی۔ٹرمپ نے اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ اگر امریکہ میں کوئی دہشت گرد حملہ ہوتا ہے تو اس کا الزام جج رابرٹ اور عدلیہ پر ہو گا۔صدر ٹرمپ نے نائنتھ سرکٹ کورٹ کے ججوں کے تین رکنی پینل پر بھی تنقید کی تھی۔ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد اد نے بھی گزشتہ دنوں ایرانی عدلیہ پر کرپشن کے الزامات کے بعد قیدیوں کے قتل عام کا نیا سنگین الزام عاید کیا۔ بھارت میں تو خود سنیئر ترین ججوں اپنے ہی چیف جسٹس پر سنگین الزامات لگائے جس پر چار سابق بھارتی ججوں نے بھی سپریم کورٹ کے ججوں کے اس گروپ کی حمایت میں ایک خط جاری کیا ہے جنہوں نے اعلیٰ عدلیہ کے طریقہ کار پر کھلے عام تنقید کی تھی۔ بد قسمتی ہے کہ پاکستان میں عدالت میں کئے جانے والے فیصلوں پر جہاں سیاسی جماعتوں نے سخت رویہ اختیار کیا ہوا ہے تو اس کی وجہ عدلیہ کے روئیے کو بھی قرار دیا رہا ہے۔

ماضی میں پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے ایسے متنازع فیصلے دیئے جس نے مملکت میں جمہوری نظام و اداروں کو مضبوط نہیں ہونے دیا۔ ان تاریخی متنازعہ فیصلوںکے بعد عوام کا اعتماد عدلیہ پر اٹھ چکا تھا ۔ بعد ازاں ججز بحالی تحریک کے بعد عدلیہ نے اپنا اعتماد بحال کی کوشش کی اور عوام میں عدلیہ کا اعتماد بحال ہونا شروع ہوا۔ حال ہی میں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی جج کو 50لاکھ روپے رشوت کے عوض ضمانت دینے پر برطرف کیا گیا ۔ یہ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے اچھی روایات کا آغاز ہے ۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے صبر کا پیمانہ لبریز کیوں ہوجاتا ہے جب ان کے خلاف کوئی فیصلہ آتا ہے ۔ خاص طور پر پانامہ کیس میں جس طرح روزانہ عدلیہ کے باہر عدالتیں لگتی رہی اس کے مضمرات سے جلد آزاد ہونا آسان نہیں۔ بات یہاں صرف چند جماعتوں کی نہیں بلکہ عوام کی جانب سے عدلیہ کے بعض معاملات پر سخت تحفظات کا اظہار بھی کیا رہا ہے بلکہ عدالتی نظام میں اصلاحات کے حوالے سے خود چیف جسٹس آف پاکستان بھی کھلا اظہار کرچکے ہیں۔ معطل پولیس افسر کو عدالت عظمیٰ کے حفاظتی ضمانت دیئے جانے والے فیصلے پر بھی فاٹا کے رہائشی پختونوں اور پاکستان کی دیگر قومیتوں نے اپنے سخت تحفظات کا اظہار کیا تھا اور بعض حلقوں نے فیصلے کے اثرات کو سنگین جرائم میں ملوث افراد کو فائدہ پہنچنے کے امکانات پر خدشات بھی ظاہر کئے گئے۔

نقیب اللہ محسود کیس کو لیکر کئی گھڑے مُردے اکھاڑے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے اداروں کے حوالے سے عوام کی رائے تبدیل کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے ۔ اب مسئلہ کسی ایک فرد کی گرفتاری کا نہیں رہا بلکہ اداروں کی ساکھ کا بن چکا ہے کہ وہ عوام کی خواہشات پر پورا اترتے ہوئے اپنی صلاحیتوں و قابلیت سے ثابت کریں کہ حساس اداروں کا نیٹ ورک اس قدر مضبوط ہے کہ ان کی گرفت سے معلوم فرد نہیں بچ سکتا ۔ کیونکہ حساس اداروں کی ذمے داریوں میں ملک دشمن عناصر کی کھوج بھی شامل ہے اور ملک دشمن تنظیموں کی سرکوبی کرنے کیلئے جدید ترین آلات سے مزین حساس ادارے ملکی سا لمیت کے لئے دن رات قربانیاں دے رہے ہیں ۔ ان کی عقابی نگاہوں سے رائو انوار جیسے معروف فرد کا بچ جانا ممکن نہیں ۔سنگین الزامات میں ملوث پولیس افسر کی حمایت میں ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کے نئے بیان نے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا ہے۔ عام تاثر تقویت پکڑ چکا ہے کہ سابق پولیس افسر کے سب سے قریبی تعلقات رکھنے والی سیاسی شخصیت، نقیب اللہ کیس سے ایک تیر سے کئی شکار کھیلنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سابق پولیس افسر کی عدم گرفتاری و سیاسی سرپرستی کی وجہ سے ایسے معاملات بھی زیر بحث آنے لگے ہیں جو ریاست کے اداروں کے لئے مستقبل میں اچھے نتائج نہیں دے گا ۔ فاٹا کے رہائشی عوام میں بے چینی ، احساس محرومی و عدم تحفظ کا احساس مزید تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔چونکہ فاٹا کی رہائشی عوام دہشت گردی سے ملک میں سب سے زیادہ متاثر ہیں اس وجہ سے اپنے گھروں سے بے گھر ہونے کا احساس و عدم تحفظ و دیگر معاشرتی مسائل کے سبب دشوار ی کا سامنا کررہے ہیں۔

عدلیہ کی جانب سے کئے جانے والے فیصلوں کو غلط یا درست قرار دینا ایک عوامی اظہاریہ کہلایا جاسکتا ہے ۔ علاوہ ازیں ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جب کسی عدالت کے فیصلے سے فریقین مطمئن نہیں ہوتے تو وہ اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں اپیل بھی کرتے ہیں ۔ فیصلوں کے کمزور پوائنٹ پر دلائل دیئے جاتے ہیں ، شواہد کو دوبارہ کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے ۔ لیکن اس جدید دور میں الیکڑونک میڈیا ایک سماجی ایٹم بم بن گیا ہے ۔ جو لمحوں کے اندر عوام میں غلط فہیماں اور خوش فہیماں پیدا کردیتا ہے۔ یہ تو فطری امر ہے کہ کسی بھی ملزم کو سزا دی جاتی ہے تو قانون کے مطابق فیصلے کی وجوہات اور شواہد کو مد نظر رکھ کر فیصلہ دیا جاتا ہے ۔ الیکڑونک میڈیا میں جج صاحبان کے سوالات ، ریمارکس کو خبر بنا کر عوام کے دماغوں میں اتار دیا جاتا ہے ۔ پھر یہ کسی عدلیہ کی کاروائی نہیں بلکہ خبر بن جاتی ہے اور خبر پر تجزیہ کرنا اظہار رائے کی آزادی و استحقاق بن جاتا ہے۔خبر بننے میں معروضات کو پیش نظر نہ رکھنے کے سبب بات کا بتنگڑ بننے میں ایک منٹ نہیں لگتا ۔ عدلیہ کا وقار بہت عرصے بعد عوام میں بلند ہوا ہے ۔ اب کسی کو چوٹ لگتی ہے تو اس کا درد کا اظہار بھی کرے گا چاہے اس نے اپنا پیر کہلاڑی پر مارا ہو یا کہلاڑی اس کے پیر پر گری ہو ۔ تکلیف کا اظہار تو بہر حال ہو گا۔

عدلیہ ریاست کا اہم ادارہ ہے جس سے عوام کو کافی توقعات وابستہ ہیں۔ لیکن کچھ عرصہ سے عدلیہ کو سیاسی زدہ ثابت کرنے کے لئے مہم جوئی جاری ہے اور ایسے شواہد دیکھے چھپے نہیں جس میں عدلیہ کے خلاف نازیبا الفاظ اور گالیاں دیں گئی ہوں یا عدلیہ پر ماضی میں حملے کئے گئے ہوں ۔ جب عدلیہ اس پر خاموش اور کسی ایک فریق پر توجہ مرکوز رکھے گی تو ردعمل کا پیدا ہونا فطری امر ہے ۔ یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ عدلیہ کو مدر پدر آزاد گالیاں دینے پر خاموشی کیوں ہے؟۔ سوال تو اس بات پر اٹھا تھا کہ چیف جسٹس کی کراچی موجودگی میں قتل عام کے باوجود 12مئی کے سانحے کا ازخود نوٹس کیوں نہیں لیا گیا تھا۔ اس طرح ان گنت سوالات اپنے اپنے وقت کی مناسبت سے اٹھتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وکلا برادری بھی برملا اظہار کررہی ہے کہ عدلیہ کے حرمت پر حرف آرہا ہے ۔ سیاسی معاملات میں مداخلت سے سیاسی جماعتوں کو فائدہ اور عدلیہ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ عدلیہ کے معزز جج صاحبان کی جانب سے اپنی آبروزیشن میں ایسے الفاظ استعمال ہوجاتے ہیں جس سے براہ راست مخاطب فریق پر انگلیاں اٹھ جاتی ہیں۔ جب عوام میں کسی بھی وجہ سے رائے قائم ہوجاتی ہے تو عدلیہ کی جانب سے اپنے فیصلوں کی وضاحتیں دینا بذات خود لمحہ فکریہ ہے۔ قانون کم از کم اتنا اندھا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ کسی ملزم کو صفائی کا موقع دیئے بغیر سنسان جگہ پر مار کر پھینک دیا جائے اور 4سو زائدافراد کے قاتل کے لئے حفاظتی معیار بدل جائے تو پھر دل سے ہوک تو اٹھے گی اور مظلوم کی آہ آسمان سے بھی ضرور ٹکرائے گی۔

” معروف ماہر قانون علی احمد کرد کا کہنا بڑا صائب ہے کہ عدلیہ اپنے فیصلوں پر توجہ دے اور آبزرویشن دینا ختم کردے ۔ اپنی ججمنٹ پر اپنے فیصلے کو نقش کرے اور اس کی درست یا غلط ہونے کا فیصلہ فریقین پر چھوڑ دیں” ۔ عوام چاہتی ہے کہ عدلیہ ایسے فیصلے کرے جس کا اطلاق مستقبل میں تمام ملزمان کے لئے یکساں ہوسکے ۔ یہاں معاملہ کسی جماعت کے لاکھوں ووٹرز اور کروڑوں عوام کے ساتھ انصاف کا ہے توملک کے حساس ترین علاقے کی عوام کا بھی ۔ عوام امید کرتے ہیں کہ ملکی حساس ادارے اپنی تما م صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنا اعتماد عوام میں مزید بڑھائیں گے اور حساس اداروں کے خلاف ملک دشمن عناصر کی پروپیگنڈا مہمات کو بھرپور جواب دے کر حق اور انصاف کا ساتھ دیں گے ۔ عدلیہ لاکھوں مقدمات کے جلد سماعت کیلئے ایک جامع پالیسی و اصلاحات نافذ کردے تو قیام پاکستان کے بعد سے اب تک یہ عدلیہ کا سب سے بڑا کارنامہ شمار ہو گا۔

Qadir Khan Yousafzai

Qadir Khan Yousafzai

تحریر : قادر خان یوسف زئی

The post عدل و انصاف صرف حشر پر نہیں موقوف appeared first on جیو اردو.

نواز شریف کا آئیڈیل شیخ مجیب ایجنڈا کیا ہے

$
0
0
Sheikh Mujibur Rahman

Sheikh Mujibur Rahman

تحریر : حلیم عادل شیخ
پاکستان کو دولخت کرنے کی کوششوں کا انکشاف تو مولانا عبدالکلام نے بہت پہلے ہی کر دیا تھا خود شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی حسینہ واجد بھی کئی بار انکشاف کرچکی ہیں کہ ان کے والد شیخ مجیب ہی سانحہ مشرقی پاکستان کے ذمہ دار ہیں ، بنگلہ دیش کی وزیراعظم اور شیخ مجیب کی صاحبزادی حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کے یوم آزادی پر واشگا ف الفاظ میں یہ کہہ کر سب کو حیران کردیا تھا کہ جب وہ لندن کے ایک فلیٹ میں اپنے باپ کے ساتھ مقیم تھی تو وہاں ہندوستانی “را” کے افسران ان کے والد سے ملنے آتے تھے۔

شیخ مجیب الرحمان کے جس انداز میں ہندوستان سے مراسم تھے اور جو اقتدار کے ساتھ بھارتی حکمرانوں سے محض داد وصول کرنے کے لیے پاکستان کو دولخت کرنے میں مرکزی کردار بنارہا، بلکل اسی انداز میں شیخ مجیب الرحمان کو حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ دینے والے نوازشریف نے بھی ہندوستان کی محبت میں کئی عالمی ریکارڈ قائم کیے ہیں یہاں تک پاکستان کی سرزمین پر بھارتی دہشت گردی کا بھرپور اظہار و اقرارکرنے والے بھارتی جاسوس کلبوبھوشن کے معاملے میں آج تک صرف اس لیے اپنی زبان نہ کھولی ہے کہ کہیں ان کے بیان سے ہندوستان کی عوام اور ان کے لیڈران ان سے ناراض نہ ہوجائیں ،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ آج ملکی اداروں کے خلاف محازآرائیاں کرکے اور انہیں بدنام کرکے کس خفیہ ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہیں ؟۔ ان باتوں کا نچوڑ نکالنے کے لیے میں یہاں چند واقعات درج کرنا چاہونگا،نواز شریف کے آئیڈیل شیخ مجیب الرحمان قومی زبان سے نفرت کا احوال تو سب ہی جانتے ہونگے،تمام حقوق ملنے کے باوجود مسلم قومیت کی بجائے بنگالی قومیت کانعرہ لگاناان کا ایجنڈا تھا،بلکل اسی طرح جیسے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد بھی پاکستان میں لسانیت کی آگ لگانے کے لیے جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگایا گیایا کبھی سندھ کارڈ کا نعرہ لگا کر قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔

سانحہ مشرقی پاکستان سے پہلے شیخ مجیب الرحمان مسلم لیگ کے ساتھ صرف اس لیے کھڑے رہے کہ وہ اس کی بڑھتی ہوئی افرادی قوت سے اپنے سیاسی مفادات تک پہنچنا چاہتے تھے ، قومی زبان اردو سے نفرت کے فروغ میں ہونے والے جھگڑوں میں کئی انسانی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے جس کے باعث اس دور میں شیخ مجیب پر بے شمار مقدمات درج ہوئے اور بیشتر انتہا پسندانہ رویوں کی وجہ سے وہ کئی کئی بار جیلوں اورحوالات کی سیر کرچکے تھے ۔ ان تمام تاریخی حقائق کے باوجودنوازشریف صاحب کہتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمان محب وطن تھا مگر اسے باغی بنادیا گیا،جب کہ شیخ مجیب الرحمان کی غداری کا سچ تو خود اس کی بیٹی اور وقت کے تاریخ دانوں نے کرہی دیا ہے 1972میں تو شیخ مجیب الرحمان نے خود برطانیہ کے ایک صحافی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھاکہ میں 1948سے بنگلہ دیشن کے لیے کام کررہاہوں ،موجودہ وقتوں میںنواز شریف اور ان کی جماعت جس انداز میں ملکی اداروں بلخصوص فوج اور عدلیہ کے خلاف زہر اگل رہی ہے وہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہاہے اس پر نوازشریف کی جانب سے شیخ مجیب الرحمان کومحب وطن لیڈر بناکر اور اس کی جانب سے مجبوری میں بغاوت کرنے کا لیبل لگانا اب کئی سوالات کو جنم دے چکا ہے۔

یقینا ان تمام سوالوں کے جوابات لینا بہت ضروری ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک بار پھر سے پاکستان کی عزت ونفس سے کھیل کر اسے آزمائشوں میں ڈالا جارہاہو؟۔ نوازشریف نے اپنی تقریر میں عدلیہ اور افواج پاکستان سے اپنی نفرت کااظہار کچھ ایسے حوالاجات سے کیا کہ شیخ مجیب الرحمان ایک محب وطن تھا جبکہ وہ بھی فوج اور عدلیہ کا ستایا ہوا تھا؟ اس لیے وہ باغی بنا ۔مطلب کیا ؟ آپ بھی اب ایسا ہی کچھ کرنے کارادہ رکھتے ہیں جو یہاں شیخ مجیب الرحمان کا حوالہ دینا مناسب سمجھا ؟۔نوازشریف اپنی تقریروں میں اکثر کہتے ہیں کہ وہ ملکی اداروں کے ستائے ہوئے ہیں ؟تو پھر قوم کو کھل کر بتایا جائے کہ اب آپ کا ایجنڈا کیا ہے ؟ ان تمام باتوں کے باوجود میں نوازشریف صاحب کو یہ کہناچاہونگا کہ میاں صاحب اب وقت بدل چکاہے وہ لمحات بیت چکے ہیںیہ 1971نہیںجب قوم کو صدموں سے دوچار کیا جاسکتا تھا لوگ آج بھی اس د ن کو نہیں بھولے ہیں کہ جب پاکستان کے دو ٹکڑے کردیے گئے تھے تاریخ دان بتاتے ہیں کہ ان وقتوں میںپاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ بھی اس سازش میںملوث تھا مگر اس کازکر پھر کبھی تفصیل سے کرینگے۔

بھلے ہی نواز شریف اپنی ڈھنڈورچیوں کی فوج ظفر موج کے ساتھ شیخ مجیب الرحمان کو اپنا آئیڈیل بناتے ہوئے ان کی روش پر چل نکلیں ہوجس نے پاکستان کو تاریخ ساز زخم دیا مگر اب ایسا کرنا ان کی بھول ہوگی جو کچھ ہوا سوا ہوا مگر اب اس ملک کی عوام ستو پی کر نہیں سورہی اب لوگ بہت باشعور ہوچکے ہیں جو کچھ آپ کرتے رہے اس کو عدالتوں میں عیاں صرف عمران خان نے نہیں کیا بلکہ ان کا ساتھ اس ملک کی عوام نے بھی دیاہے جو آج یہ دل ہلادینے والی کرپشن سامنے آئی ہے کہ جسے تاریخ کے سیاہ باب میں یوں لکھاجائے گا کہ ایک ایسا لیڈر بھی پاکستان کی قوم کو ملا جسے تین مرتبہ پاکستان کی تقدیر پر بٹھایا گیا اور بدلے میں اس نے ملکی اداروں کو اپنے گھر کے آنگن میں محدود کردیا اورملکی خزانے کو اپنے حواریوں میں تقسیم کیا اور پاکستان کی عوام بھوک اور بیماریوں سے لڑ لڑ کر مرتی رہی اور اس ملک کا حکمران تیس ہزار کروڑ یعنی تین سو ارب کی کرپشن کرکے بھی اپنی بھوک نہ مٹاسکا۔نوازشریف جس غدار وطن کو اپنا آئیڈیل تسلیم کربیٹھے ہیں اس کے لیے آخر میں یہ چند سطریں اپنے پڑھنے والوں کی نظر کرنا چاہوںنگا پھر فیصلہ کرنا عوام کا کام ہے کہ اس ملک کو کس کس انداز میں حکمرانوں نے زخم دیے ہیں اس کے باوجود بھی انہیں بار بار منتخب کیا جاتارہا واقعہ کچھ یوں ہے ” سانحہ مشرقی پاکستان 1971کے چند سال بعد 22فروری 1974کے روز اسلامی سربراہوں کی دوسری کانفرنس تھی سعودی عرب کے شاہ فیصل لیبیا کے صدر معمر قذافی ،فلسطین کے صدریاسر عرفات جیسے بڑے نام اس کانفرنس میں تشریف فرما تھے اس روز پاکستان کے تقریبا ً تمام اداروں کو ہی لاہور کی نگرانی پرلگادیا گیا تھا پھر سب نے دیکھا کہ پاکستان کو دولخت کرنے والا شیخ مجیب الرحمان اور زوالفقار علی بھٹو ہاتھوں میں ہاتھ لیے نہایت ہی خوشگوار موڈ میں تقریب میں شریک ہورہے ہیں آنے والے دونوں ہی رہنمائوں کے چہرے یہ بتا رہے تھے کہ شاید انہوں نے جو سوچا تھا وہ کرکے دکھادیاہے ۔ آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔

Haleem Adil Sheikh

Haleem Adil Sheikh

تحریر : حلیم عادل شیخ سابق صوبائی وزیر ریلیف وکھیل
021.34302441,42
۔ E:Mail.haleemadilsheikh@gmail.com

The post نواز شریف کا آئیڈیل شیخ مجیب ایجنڈا کیا ہے appeared first on جیو اردو.

الخدمت فاؤنڈیشن کے پروگرام ’’صاف پانی‘‘ کا سالانہ بورڈ اجلاس میں منعقد ہوا

$
0
0
 Annual Board Meeting

Annual Board Meeting

راولپنڈی : الخدمت فاؤنڈیشن کے پروگرام ’’صاف پانی‘‘ کا سالانہ بورڈ اجلاس سید احسان وقاص سینئرنائب صدراے کے ایف پی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔اجلاس کے شرکاء میں الخدمت فاؤنڈیشن کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر مشتاق احمد مانگٹ، صاف پانی پروگرام کے نیشنل ڈائریکٹر سید راشد داؤد،جی ایم پروگرامز سفیان احمد خان اور سید ذیشان سعیدسمیت تمام مرکزی و ریجنل ذمہ داران نے شرکت کی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سید احسان اللہ وقاص نے کہا کہ الخدمت فاؤنڈیشن صاف پانی پروگرام کے تحت لوکل ضرورت کی مناسبت سے پینے کے صاف پانی کے منصوبوں پر کام کررہی ہے۔جس سے دور افتادہ علاقوں کے مکینوں کو جراثیم اور کثافتوں سے پاک اور گھروں کے قریب پانی کی فراہمی ممکن ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ الخدمت نے سال 2017ء میں ملک بھر میں صاف پانی کے1096منصوبے مکمل کرلئے ہیں۔

سید راشد داؤدنے گذشتہ سال کی کارکردگی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ مجموعی طور پر صاف پانی کے1096منصوبے مکمل کئے گئے ہیں جن میں 142 واٹر ویل، 175 سب مرسبل واٹر پمپ، 24فلٹریشن پلانٹس، 587 ہینڈ پمپس، 38 گریویٹی فلو واٹر سکیم اور 130 دیگر منصوبہ جات شامل ہیں۔ان منصوبوں سے یومیہ تقریباََ7لاکھ70ہزار2سوپچاس افراد مستفید ہورہے ہیں۔بعد ازاں اجلاس میں سال 2018ء کی منصوبہ بندی بھی پیش کی گئی۔

برائے رابطہ:
ایس ۔اے ۔ شمسی
0333-5243334

The post الخدمت فاؤنڈیشن کے پروگرام ’’صاف پانی‘‘ کا سالانہ بورڈ اجلاس میں منعقد ہوا appeared first on جیو اردو.

امن کا پیغام چولستان ڈیزرٹ جیپ ریلی

$
0
0
Cholistan Jeep Rally

Cholistan Jeep Rally

تحریر : ملک محمد سلمان
صحرائے چولستان جو مقامی طور پر روہی کے نام سے بھی مشہور ہے یہاں ہر سال فروری کے مہینے میں انٹرنیشنل جیپ ریلی کا انعقاد کیا جاتا ہے۔تیرہ برس قبل پنجاب ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن نے اس کام کا بیڑہ اٹھایا تھا، تب سے اب تک یہ ریلی نہ صرف کامیابی سے جاری ہے بلکہ اس کی مقبولیت اور اثرانگیزی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ سرکاری سطح پر یہ ایک روایت اور چولستان کی پہچان بنتی جارہی ہے۔

سنئیر صحافی و خزانچی لاہور پریس کلب احسان شوکت اور کوارڈینیٹر منسٹری آف ہومین رائٹس پنجاب شہباز مغل کے ہمراہ ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن آف پنجاب کے ایم ڈی احمر ملک اور جنرل منیجر اسجد غنی طاہرکی دعوت پر تیرہویںسالانہ چولستان ڈیزرٹ جیپ ریلی کیلئے لاہور سے روانہ ہوئے توڈی پی او وہاڑی عمر سعید کی دعوت پر رات گئے پولیس ریسٹ ہائوس وہاڑی پہنچے ۔ڈی سی ہائوس کے بالمقابل وسیع و عریض لان اور فرنشڈ کمروں پر مشتمل پولیس ریسٹ ہائوس میں رات آرام کیا اورصبح کے وقت پی آر اووہاڑی پولیس رائو فیصل اور عدنان طارق کے ہمراہ پولیس خدمت سنٹر کا معائنہ کیا۔وہاڑی پولیس کے ضلعی سربراہ عمر سعید کی ذاتی دلچسپی اورخصوصی کاوش سے کی گئی اصلاحات واقعی لائق تحسین و شاباش تھیں۔وہاڑی سے چولستان کی طرف عازم سفر ہوئے ۔سارے سفر میں بہترین دورویہ سڑک تھی جس کی وجہ سے سفر آسانی اور تیزی سے طے ہوا اور ہم کچھ گھنٹوں میں ٹی ڈی سی پی کے مرکزی ریسٹ ہائوس میں پہنچ گئے۔ایس پی نیشنل ہائی وے پولیس جاوید چڈھر کی طرف سے روڈ اگاہی کے بورڈ اور اسٹالز کا اہتمام کیا گیا تھا۔آرام دہ اور پختہ سڑک کے دونوں اطراف نظر آنے والے سکول کالجز اور ہسپتال جنوبی پنجاب کی بد حالی کے نام پر سیاست کرنے والوں کے جھوٹوں کی قلعی کھول رہے تھے۔

پنجاب کے دور دراز علاقوں تک ضروریات زندگی کی تمام سہولیات کی فراہمی پر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف مبارکباد کے مستحق ہیں۔مرکزی کیمپ کے باہر معلوماتی وا گاہی اسٹال پر موجود پبلک ریلشنشپ آفیسر عابد شوکت نے گرمجوشی سے استقبال کیا اور ہمای رہائش کیلئے مخصوص خیموں تک چھوڑنے ساتھ آئے۔ٹی ڈی سی پی کی طرف سے میڈیا کیمپ کے نام سے بہترین سہولیات سے مذین خیمہ بستی قائم کی گئی تھی،جس میں تمام نمایاں ٹی وی چینلز اور اخبارات کے سنئیر صحافیوں کیلئے رہائش کا اہتمام کیا گیا تھا ۔خیمہ بستی کے انچارج مقصود احمد اور جاوید اقبال روزانہ کی بنیاد پر خیموں کی صفائی صاف ستھرے بستروں کی فراہمی کیلئے ہمہ وقت مصروف عمل نظر آئے۔تین روزہ قیام کے دوران رہائش کے ساتھ کھانے کا بھی بہترین انتظام کیا گیا تھا ،کھانے کے معیار اور ذائقے کی وجہ سے لاہور کی کمی بالکل محسوس نہیں ہوئی۔فوڈ انچارج محمد عرفان ناشتے ،لنچ او رڈنر کے اوقات میں خود موجود ہوتے اورخوش اخلاقی اور خوش دلی سے مہمانوں کو خدمت پر معمور نظر آئے۔ جنرل منیجر اسجد غنی طاہراور سنئیر ٹورازم آفیسر رائے نسیم جیپ ریلی کے 240کلومیٹر کے طویل ٹریک کی خود نگرانی کرتے رہے۔پاکستان آرمی کے میجر شیرازی ، میجر ڈاکٹر فیصل جبکہ پاکستان رینجرز کے سپریٹنڈنٹ مختار احمد اور ڈپٹی سپریٹنڈنٹ تنویر عباس کی قیادت میں آرمی اور رینجرز کے سینکڑوں جوان ٹریک کی 11چیک پوسٹ اور شاہرائوں پر عوام کی جان و مال کی حفاظت کیلئے مصروف عمل رہے۔ٹریک انچاج رائے نسیم کی رہنمائی و حکمت عملی جبکہ آرمی اور رینجرزکے جوانوں کی فرض شناسی کے سبب کسی بھی قسم کا کوئی ناخوشگوار واقع پیش نہیں آیا۔

دلچسپ اور سنسنی خیز جیپ ریلی میں شریک خواتین کی کارکردگی نے دیکھنے والوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔میر نادر مگسی نے مسلسل دوسری مرتبہ معرکہ مار لیا۔ چولستان ڈیزرٹ جیپ ریلی کے اختتام پر رنگا رنگ اختتامی تقریب ہوئی، نصف گھنٹے پر محیط آتش بازی کا شاندار مظاہرہ کیا گیا۔ ہر طرف رنگوں کی بہار دیکھنے کو ملی۔تاریخی قلعہ ڈیراور کو رنگ برنگ برقی قمقموں سے سجایا گیا اور اس کے صدر دروازے کے سامنے کلچرل نائٹ کا اہتمام کیا گیا جس میں لوک فنکار آڈو بھگت، شہنائی نواز ملک حسین، ذیل نواز مرید حسین، مشتاق چھینہ،کومل خان اور شہزادی ارم سیال سمیت مقامی وعلاقائی فنکاروں اور گلوکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

تقریب میں صوبائی وزیر انفارمیشن اینڈ کلچر مجتبیٰ شجاع الرحمن نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔صوبائی وزیر انفارمیشن اینڈ کلچر مجتبیٰ شجاع الرحمن اور کمشنر بہاول پور ثاقب ظفر کی آمد پر آرام گاہوں میںسوئے ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کو بھی چولستان کی یاد آگئی۔صوبائی وزیر انفارمیشن اینڈ کلچر مجتبیٰ شجاع الرحمن نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے ترقیاتی منصوبوں کا رخ جنوبی پنجاب کی طرف کیا ہوا ہے ، چولستان کو دیگر خطوں کے ہم پلہ بنانے کے لئے روڈ نیٹ ورک کے پھیلائو، صاف پانی کی فراہمی ، لائیو اسٹاک کی ترقی کے لئے چولستانی باشندوں میں مفت مویشیوں کی تقسیم سمیت لائیو اسٹاک موبائل ڈسپنسریوںکا قیام اورچولستان کے دوردراز پسماندہ علاقوں کے بچوں تک علم کی شمع روشن کرنے کے لئے سکولوں کا قیام جیسے انقلابی اقدامات اٹھائے ہیں۔

صحرائے چولستان جیپ ریلی میں آنے والے سیاحوں کی تعداد دو لاکھ سے کسی صورت کم نہیں تھی۔کئی کلومیڑ تک سیاحوں نے شامیانوں کا شہر بسایا ہوا تھا۔چولستان ڈیزرٹ ریلی کے انتظامات کامیاب بنانے کے لئے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی ہدایت پرڈویڑنل وضلعی انتظامیہ، محکمہ صحت، آرمی، رینجرز، پولیس، سول ڈیفنس، بہاول پور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی، ریسکیو1122 اور ڈولفن فورس کی خدمات بھی لی گئیں۔کامیاب جیپ ریلی کے انعقاد پر ایم ڈی احمر ملک اور انکی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔

شہباز شریف کی ذاتی دلچسی کی باعث چولستان ڈیزرٹ ریلی عالمی سطح پر متعارف ہو چکی ہے جس کی وجہ سے اس ایونٹ میں غیر ملکی ڈرائیورز اور شائقین کی بڑی تعداد کی شرکت ممکن ہوئی ہے۔چولستان ڈیزرٹ ریلی کی وجہ سے مقامی باشندوں کو بھی معاشی سرگرمیوں کے مواقع میسر آئے ہیں اور یہاں کی ثقافت بھی قومی منظر نامے پر نمایاں ہوئی ہے۔پاکستان کے مثبت اور سافت امیج کو دنیا بھر میں متعارف کروانے اورلوگوں کو سستی اور معیاری تفریح فراہم کرنے کیلئے ڈیزرٹ جیپ ریلی جیسے فیسٹیول اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

Malik Salman

Malik Salman

تحریر : ملک محمد سلمان

The post امن کا پیغام چولستان ڈیزرٹ جیپ ریلی appeared first on جیو اردو.

عالمی یوم مادری زبان اور اردو زبان سے لاتعلقی

$
0
0
Madri Zaban

Madri Zaban

تحریر : ڈاکٹر سید احمد قادری
ہر زمانے اور ہر عہد میں، ہر قوم کے درمیان اپنی مادری زبان کی اہمیت رہی ہے اور جس قوم نے اپنی مادری زبان کو اپنی زندگی کا اہم حصّہ بنایا، اس قوم نے ترقی کے منازل طئے کئے ہیں ۔ویسے کسی کا قول یہ بھی ہے کہ جس قوم کے وجود کو ختم کرنا ہو ، تو پہلے اس کی زبان ختم کر و ۔ اس تناظر میں آج یعنی 21 فروری کو عالمی سطح پر منعقد کئے جانے والے یوم مادری زبان کا ہم ایک عمومی جائزہ لیں تو ہم یہ پائینگے کہ دراصل اپنی زبان،اپنی تہذیب،اپنے تمدن،اور اپنی قدروںسے والہانہ لگاؤہی کسی بھی مہذب قوم کی علامت ہے اور بنگلہ زبان کے چاہنے والوں نے اپنی مادری زبان سے جنون کی حد تک عشق کرنے کی شاندارمثال قائم کی ہے ۔ یہ ان کی اپنی مادری زبان سے والہانہ لگاؤ کا ہی نتیجہ ہے کہ ان لوگوں نے اقوام متحدہ کو اپنی مسلسل جد وجہدسے مجبور کر دیا کہ وہ ہر سال عالمی سطح پر یوم مادری زبان منعقد کرنے کا فیصلہ کرے ۔چنانچہ17 نومبر1999 ء کو عالمی سطح پر یوم مادری زبان منائے جانے کے اعلان کے ساتھ ہی سن 2000 ء سے ہر سال 21فروری کو’ عالمی یوم مادری زبان’ کے انعقاد کا اقوام متحدہ نے سلسلہ شروع کر دیا ۔ جس پر پوری طرح سے عمل کیا جا رہاہے ۔ ‘عالمی یوم مادری زبان’ کے سلسلے میں کئی چونکانے والی معلومات ہمیں اس طرح ملتی ہیں کہ ، اردو زبان کو جب غیر منقسم پاکستان میں قومی زبان تسلیم کیا گیا تو اس کے خلاف ( سابق ) مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش میں زبردست احتجاج اور مظاہرے ہوئے۔ ان مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ حکومت، مشرقی پاکستان میں اردو کی بجائے بنگلہ زبان کو قومی زبان کو درجہ دے، لیکن حکومت پاکستان ان کے اس مطالبہ پر رضامند نہیں ہوئی ۔ جس کی مخالفت میں احتجاج اور مظاہروں نے وہاں زور پکڑ لیا ۔ ان احتجاج اور مظاہرے کو روکنے کے لئے حکومت وقت نے بہت سخت قدم اٹھائے ،جگہ جگہ لاٹھی چارج کئے گئے اور بعض جگہ مشتعل ہجوم پر گولیاں بھی چلائی گئیں ، جس سے ڈھاکہ یونیورسٹی کے چار طلبہ کی موت واقع ہو گئی۔ ان طلبہ کی اموات نے احتجاج کرنے والوں کو مذید مشتعل کر دیا اور ان لوگوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی مادری زبان کا حق لے کر رہینگے، اور حکومت پاکستان کے فیصلہ کے بر خلاف مشرقی پاکستان میں 29 فروری 1956 کو بنگلہ زبان کو وہاں کی قومی زبان بنائے جانے کا اعلان کر دیا گیا۔

مادری زبان کی یہ چنگاری ایسی پھیلی کہ پورا ملک آگ اور خون میں بدل گیا اور آخر کار 1971 ء میں صرف زبان کی بنیاد پر ملک منقسم ہو گیا ۔ محبان اردو اورمجاہدین آزادی کے خواب شرمندۂ تعبیر ہوئے اور اپنے وجود کو بنگلہ دیش کے طور پر منوا لینے کے ساتھ ساتھ مادری زبان کے لئے جان کی قربانی دینے والوں کو ان لوگوں نے فراموش نہیں کیا بلکہ ان کی یاد میں ڈھاکہ میں ایک شاندار یاد گار ‘ شہید مینار’ قائم کر ہر سال ان کی قر بانیوں کو یا د رکھنے کے لئے بڑے پیمانے پر ‘ یوم شہادت ‘ منایا جاتا ہے۔ اپنی مادری زبان کے تئیں ان کایہ خلوص ، یہ جذبہ اور یہ محبت صرف اپنے ملک تک محدود نہیں رہا، بلکہ لندن اور سڈنی وغیرہ میں بھی ‘ شہید مینار ‘ کی تعمیر کرائی گئی اور ہر سال 21 فروری کو ان یادگار میناروں کے ذریعہ اپنی نئی نسل کو اپنی مادری زبان کے لئے ایثار و محبت کی یقین دہانی کراتے ہیں۔

بنگلہ زبان کے چاہنے والوں کی اپنی مادری زبان سے کس قدر والہانہ لگاؤ ہے، اس کا اندازہ ان کی آپس میں کی جانے والی گفتگو، ان کا ادب ، ان کی صحافت ، ان کی تہذیب اور ان کی درسی و مذہبی کتابوں کو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ مادری زبان صرف بول چال کی زبان نہیں ہوتی ہے بلکہ اس زبان میںاپنی تہذیب، تمدن، ثقافت اور قدروں کی جڑیں پیوست ہوتی ہیں ۔ جو شخصیت کی تعمیر و ترقی میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جو لوگ اپنی مادری زبان کی اہمیت نہیں سمجھتے اور نسل در نسل منتقل ہو رہی اپنی زبان کی امانت کی حفاظت نہیں کر پاتے، ان کے سامنے، ایک ایسا وقت آتا ہے ، جب وہ اپنی قوم ، تہذیب ، ثقافت اور قدروں سے الگ تھلگ پڑ جاتے ہیں ا ور ان کی اور ان کے بچوں کی کوئی شناخت نہیں بن پاتی ہے۔

اس سیاق و سباق میں اب ہم اپنی مادری زبان اردو کے منظر نامہ پر ڈالیں تو ہمیں مایوسیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ حالانکہ کچھ لوگ اس اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں بلند بانگ دعٰوے ضرور کرتے ہیں ۔ لیکن جو تلخ حقائق ہیں ، وہ اس کے ٹھیک برعکس ہیں ۔ گزشتہ پندرہ برسوں سے اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو کے ذریعہ ہر سال 21 فروری کو عالمی سطح پر’ یوم مادری زبان ‘کا بڑے پیمانے پر انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر بہت سارے ممالک میں اپنی اپنی مادری زبان کے تحفظ اور ترقی کے لئے طرح طرح کے لائحہ عمل تیار کئے جاتے ہیں ، جن پر پورے سال بھر بہت سنجیدگی سے کا م کیا جاتا ہے ، لیکن افسوس اس دن یونیسکو کے ذریعہ دی جانے والی اس دستک کا اردو والوں پر کوئی اثر نہیں ۔کوئی تحرک ، کوئی عمل نہیں ۔ جس کا نتیجہ کیا ہے، اسے بتانے کی ضرورت نہیں کہ معاصر نسل اردو زبان سے لا تعلق ہو تی جا رہی ہے اور ان کی آنے والی نسل کی مادری زبان کیا ہوگی ، موجودہ منظر نامہ سے یہ بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔

آج اردو زبان کا جو منظر نامہ ہے۔ ایک سرسری نگاہ اس پر ڈالتے ہیں ، اس سلسلے میں زیادہ تفصیل میں نہ جاتے ہوئے شیو پرساد سنہا ( سابق جج ، الٰہ باد ہائی کورٹ ) کے 30 مارچ 1968میں منعقدہ بہار اردو کانفرنس کے موقع پر دیئے گئے ان کے افتتاحیہ خطبہ کا ایک حصّہ پیش کرنا چاہتا ہوں ، انھوں نے اس موقع پر فرمایا تھا کہ: ” زبان کے سلسلے میں راجند پرشاد ، عبد الحق معاہدہ آزادی سے پہلے 1938 میں پٹنہ میں ہوا تھا ، جس کی رو سے یہ قرار پایا تھا کہ اردو بخط فارسی اور ہندی بخط دیو ناگری ہندوستان کی زبان ہوگی۔ جس کو ہندوستانی زبان کہا جائے گا ۔ لیکن راجندر پرساد جی نے خود اس معاہدہ کو اس طرح توڑا کہ جب 1950 ہندوستان کی زبان کا مسئلہ پارلیامنٹ میں پیش ہوا تو ہندی کے حق میں اور اس کے خلاف میں برابر ووٹ آئے ۔ لیکن پارلیامنٹ کے صدر کی حیثیت سے کاسٹنگ ووٹ کے ذریعہ ہندی کے حق میں فیصلہ صادر فرمایا ” ۔ المیہ یہ رہا کہ 77 کے مقابلے 77 ووٹ حاصل کرنے والی زبان ہندی کو قومی اور سرکاری درجہ دے دیا گیا اور اس کے فروغ کے لئے سرکاری ، نیم سرکاری اور نجی طور پر بھی خوب خوب عملی کوششیں ہوئیں ۔ جو فیصلہ کے مطابق یقینی طور پر اس کا حق تھا ، لیکن افسوس 77 کے مقابلے 77 ووٹ حاصل کرنے والی زبان ‘اردو’ کے تمام حقوق کو نہ صرف ختم کر دیا گیا بلکہ اس کے خلاف بیانات دے کر ، تحریک چلا کر اور عملی جد و جہد کر کے بے وطن ہی نہیں بلکہ جلا وطن کرنے مزموم کوششیں بھی کی گئیں ۔ اردو کو صرف مسلمانو ں کی زبان ثابت کر کے اس زبان کو بھی وہی درجہ اور حیثیت دینے کی کوششیں جاری ہیں ، جو یہاں کے مسلمانوں کو دیا گیا ہے ۔ ایسے لوگوں کی ایسی کوششوں کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ اردو آج لائبریریوں اور مدرسوں میں پناہ گزیں ہے۔

حیرت اس بات پر ہوتی ہے جب کوئی کھلم کھلّا اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دیتا ہے ۔ حالانکہ یہ زبان ہندو، مسلم ، سکھ عیسائی کے اتحاد و اتفاق کی علامت ہے اور ہر صاحب علم اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ یہ اردو ہی زبان ہے جس نے اپنی گود میں لے کر، دیا نرائن نگم، پنڈت رتن ناتھ سرشار، پریم چند، چکبست، فراق، سدرشن ، جوش ملسیانی، ترلوک چند محروم، آنند نرائن ملّا ، کرشن چندر، بیدی، رام لعل، جگن ناتھ آزاد، شانتی رنجن بھٹا چاریہ، وشو ناتھ طاؤس، دیوندر اسر، دیوندرستیارتھی، کالی داس گپتا رضا، تارا چرن رستوگی، گوپی چند نارنگ، کشمیری لال ذاکر، بلراج ورما ، رام لال نابھوی،گوپال متّل ،رتن سنگھ، گیان چند جین ، جوگندر پال ، مالک رام ، بلونت سنگھ ، کرشن موہن ، موہن چراغی، مانک ٹالہ ، اوپندر ناتھ اشک، راج نرائن راز، شباب للت، نریش کمار شاد، فکر تونسوی، کنھیا لال کپور، بلراج کومل، کمار پاشی، گربچن چندن، جمنا داس اختر، گلزار زتشی دہلوی، شرون کمار ورما وغیرہ وغیرہ کے فکر و خیال کو آفاقیت بخشی اور شہرت و مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا کر ان کے نام نامی کو چاند تاروں کی مانند درخشندہ بنا دیا ۔ اب کوئی بتائے کہ اردو اگر مسلمانو ں کی زبان ہے تو پھر ان لوگوں کو ذات اور مذہب کے کس خانے میں رکھا جائے گا۔

اردو والوں کا اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ آزادی ملے ستّر سال ہو گئے ، لیکن اب تک قومی سطح پر’ یوم اردو ‘ منانے کی کوئی ایک تاریخ طۓ نہیںہو سکی ہے، نہ ہی یونیسکو کے ذریعہ ہر سال 21 فروری کو عالمی سطح پر مادری زبان کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر اس کے تحفظ اور اس کی بقا کے لئے دی جانے والی دستک کا ہی کوئی رد عمل ہورہا ہے ۔ اگر ہم اردو والے اسی’ عالمی یوم مادری زبان ‘کے انعقاد کے موقع پر اپنی مادری زبان کے سلسلے میں محاسبہ کریں تو بہت سارے نکات ایسے سامنے آئینگے، جن پر سنجیدگی سے عمل کر کے ،اس کے بہترنتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے اردو زبان سے محبت کرنے والے خواہ وہ جس شعبہ حیات سے منسلک ہوں ، انتظامیہ، عدلیہ، تعلیم ، صحافت ، تجارت غرض جو جہاں ہے، وہ اپنی اس مادری زبان کو اپنی زندگی میں شامل کر اپنے آنے والی نسل کے لئے محفوظ کر پائینگے۔اگر ایسا نہیں ہو پاتا ہے تو پھر اس بات کے لئے ہمیں تیار رہنا ہوگا کہ کسی قوم کو ختم کرنا ہے تو پہلے اس کی زبان ختم کر دو اور افسوس کہ ہم اسی جانب گامزن ہیں۔

Dr syed Ahmad Quadri

Dr syed Ahmad Quadri

تحریر : ڈاکٹر سید احمد قادری
رابطہ:9934839110

The post عالمی یوم مادری زبان اور اردو زبان سے لاتعلقی appeared first on جیو اردو.

وزارت داخلہ کا نواز شریف اور بچوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے سے انکار

$
0
0
Sharif Family

Sharif Family

اسلام آباد (جیوڈیسک) وزارت داخلہ نے نواز شریف اور ان کے بچوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے سے انکار کر دیا ہے۔

نیب کی جانب سے نواز خاندان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے حوالے سے لکھے گئے خط میں اس بات کا تفصیلی جواب دیا گیا ہے کہ نام ای سی ایل میں شامل کیوں نہیں کئے گئے۔

وزارت داخلہ کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ نواز خاندان کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کے حوالے سے ٹھوس وجوہات بتائی جائیں۔

The post وزارت داخلہ کا نواز شریف اور بچوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے سے انکار appeared first on جیو اردو.

ترکی شام میں تباہی کی غرض سے نہیں بلکہ علاقے میں امن کے قیام کے لیے داخل ہوا ہے : صدر ایردوان

$
0
0
Rajab Tayyip Erdoğan

Rajab Tayyip Erdoğan

ترکی (جیوڈیسک) صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ ترکی میں کہیں بھی ظلم، جبر اور سفالت روا نہیں رکھا جا سکتا۔ کیونکہ ہم جہاں کہیں بھی موجود رہے ہیں ہم نے علاقے میں امن، تحفظ، انصاف فراہم کیا ہے۔

صدر ایردوان ان خیالات کا اظہار ترکی کی قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی اجلاس کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ شام کے عفرین کے علاقے میں جاری “شاخِ زیتون” فوجی آپریشن کے دوران 32 ترک فوجی شہید ہوئے تو ایک ہزار 715 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ ترک مسلح افواج نے سیکورٹی اور جان کے تحفظ کے لیے پیش قدمی کو سستی سے جاری رکھا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہم وہاں تباہی کی غرض سے نہیں گئے ہیں بلکہ ہم وہاں ہمارے اپنے ملک میں پناہ لیے ہوئے لاکھوں شامی مہاجرین کے پُر امن طور پر زندگی بسر کرنے کے لیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جہاں جہاں ترک آباد رہے ہیں وہاں کبھی بھی ظلم و ستم اور جبر روا نہیں رکھا گیا ہے بلکہ علاقے میں امن ، تحفظ ، انصاف قائم کیے رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ترکی نے مجبور ہو کر علاقے میں فوجی کاروائی کی ہے ۔ ہم نے کئی سالوں تک شام کی صورتِ حال بہتر ہونے اور دہشت گرد تنظیموں کی کاروائیوں کے ختم ہونے کا انتظار کیا لیکن ایسا نہیں ہوا جس کی بنا پر ہمیں شام کے اندر دہشت گرد تنظیموں سے نبٹنے کے لیے یہ فوجی آپریشن کرنا پڑا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ ترکی کی قوت اور مسلح افواج سے کئی ایک قوتیں بے چینی محسوس کررہی ہیں لیکن علاقے کے عوام ترکی کے کردار سے بہت خوش ہیں اور ان کو ہم سے ذرہ بھر بھی کوئی شکایت نہیں ہے۔

انہوں نے اپنے خطاب میں امریکہ کا ذکر کرتے ہوئے وہ کس منہ سے کہتا ہے کہ ہم دہشت گرد تنظیموں کا اسلحہ فراہم نہیں کررہے ہیں حالانکہ ہمارے پاس ان کے اسلح فراہم کرنے کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں لیکن اس کے باوجود کمال ڈھٹائی سے اپنے اس موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں جس پر ہم افسوس کا اظہار ہی کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے تمام دستاویزی ثبوت ایک ایک کرتے ہوئے ان کو پیش کیے ہیں اور ان اسے پوچھا یہ فوجی کون ہیں ؟ یہ کہاں سے آئے ہیں کیونکہ یہ شامی فوجی نہیں ہیں ۔ ہمارے فوجی نہیں ہیں اور نہ ہی یہ یورپ سے ائے ہیں ۔ یہ سب امریکی فوجی ہیں جو دہشت گردوں کو اسلحہ فراہم کررہے ہیں۔ ان کے پاس امریکی پرچم اور امریی شناختی کارڈ موجود ہیں لیکن ابھی بھی آپ کہہ رہے ہیں یہ امریکی فوجی نہیں ہیں۔ یہ دیکھیں یہ امریکی بکتر بند گاڑیاں، امریکی ٹینک ، امریکی توپیں ۔ یہ سب یہاں پر پانچ ہزار ٹریلروں سے لائے گئے ہیں۔ یہ یہاں پر کن کے خلاف استعمال کیے جا رہے ہیں؟

صدر ایردوان نے کہا کہ ترکی نے مذاکرات کے دروازے کھلے رکھے ہیں اور مخالفین کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی جغرافیائی حیثیت کی بدولت ہمیں اپنی کئی پہلو پر مشتمل پالسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

The post ترکی شام میں تباہی کی غرض سے نہیں بلکہ علاقے میں امن کے قیام کے لیے داخل ہوا ہے : صدر ایردوان appeared first on جیو اردو.


عمران خان کی ایک بار پھر سڑکوں پر آنے کی دھمکی

$
0
0
Imran Khan

Imran Khan

اسلام آباد (جیوڈیسک) چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے ایک بار پھر سڑک پر آنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف کو اس بار بچانے کیلئے پارلیمنٹ کا استعمال نہیں کرنے دیں گے۔

میڈیا سے گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ الیکشن کیلئے انہیں ایک ایک سیٹ کے بدلے 40 کروڑ کی پیشکش کی گئی۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ انتخابات میں کرپشن کی روک تھام کیلئے ہمیں انتخابات کا طریقہ کار تبدیل کرنا ہوگا تاکہ ہم ان الیکشنز میں ہونے والی جعلسازیوں اور کرپشن کو روک سکیں۔

The post عمران خان کی ایک بار پھر سڑکوں پر آنے کی دھمکی appeared first on جیو اردو.

عمران خان نے شادی کے دوران بے وفائی کی، ریحام خان

$
0
0
Reham Khan

Reham Khan

اسلام آباد (جیوڈیسک) سابقہ اہلیہ ریحام خان نے کہا ہے کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان ان سے شادی کے وقت ہی بشریٰ وٹو سے رابطے میں تھے۔

برطانوی اخبار دی ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ عمران خان نے 66 سال کی عمر میں اپنی روحانی مرشد سے شادی کر کے اپنے کردار کو مزید متنازع بنا دیا ہے۔

اخبار نے چیئرمین پی ٹی آئی کی سابق اہلیہ کے حوالے سے کہا ہے کہ عمران خان اپنی دوسری شادی ختم ہونے سے پہلے ہی پچاس سالہ بشرٰی وٹو سے رابطے تھے۔

ایک برطانوی اخبار کے مطابق ریحام خان نے کہا ہے کہ ان سے شادی کے وقت ہی عمران خان کے بشریٰ وٹو سے افیئر تھا۔

عمران خان نے اتوار کو پانچ بچوں کی والدہ بشرٰی وٹو سے تیسری شادی کرنے کی تصدیق کی ہے۔

دی ٹائمز نے عمران خان کی ریحام خان کا یہ بیان بھی شائع کیا ہے جس میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ عمران خان انہیں طلاق دینے سے پہلے ہی بشرٰی وٹو سے رابطے تھے اور وہ اس وقت بھی ایک وفادار شوہر نہیں تھے۔

دی ٹائمز کے مطابق عمران خان کے اس طرح تیسری شادی کرنے سے ان کے کردار کے بارے میں سوالات کھڑے کر دیے ہیں جس کا انھیں جولائی میں ہونے والے الیکشن کی مہم کے دوران بھی جواب دینا ہو گا کیونکہ مخالفین عمران خان کی شادیوں کی ناکامی کو ان کے ناقابل اعتبار اور بے وفا ہونے کا ثبوت قرار دے رہے ہیں۔

برطانوی اخبار نے اپنی رپورٹ کے اختتام میں جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا عبدالغفور حیدری کا ردعمل بھی شائع کیا ہے جو انہوں نے عمران خان کی تیسری شادی پر دیا ہے۔

یہ خبر ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب کچھ روز قبل پاکستان تحریک انصاف نے عمران خان کی بشریٰ وٹو سے شادی کی تصدیق کی تھی۔

The post عمران خان نے شادی کے دوران بے وفائی کی، ریحام خان appeared first on جیو اردو.

پارلیمنٹ بنیادی حقوق سے متصادم قانون نہیں بنا سکتی، چیف جسٹس

$
0
0
Justice Saqib Nisar

Justice Saqib Nisar

اسلام آباد (جیوڈیسک) چیف جسٹ آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم ہے، مگر پارلیمنٹ سے اوپر آئین بھی ہے۔ بنیادی حقوق کے خلاف قانون سازی پر نظر ثانی کا اختیار ہے۔

پاکستان کی عدالتِ عالیہ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ بنیادی حقوق کے خلاف قانون سازی پر نظر ثانی کا اختیار ہے۔ پارلیمنٹ سپریم ہے، مگر پارلیمنٹ سے اوپر آئین بھی ہے۔ پارلیمنٹ بنیادی حقوق سے متصادم قانون نہیں بنا سکتی۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے یہ ریمارکس سپریم کورٹ میں میڈیا کمیشن کیس کی سماعت کے دوران دیے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ اس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز بھی بات کی گئی کہ عدالتیں قانون سازی کے عمل میں کیسے مداخلت کر سکتی ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے، مگر پارلیمنٹ سے اوپر آئین بھی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیا کمیشن رپورٹ کی سفارشات اور حکومتی وعدے پر بظاہر عمل نہیں ہوا۔ ریگولیٹری اتھارٹی پر حکومتی کمانڈ اور ڈکٹیشن نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں پیمرا کو آئیڈیل اور خودمختار باڈی بنانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اداروں میں متعلقہ تجربہ نہ رکھنے والے تعینات ہوتے رہے ہیں۔ ہمیں اداروں میں پروفیشنل لوگ تعینات کرنے چاہیں جو ان کو بہتر انداز میں چلا سکیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم سوال پوچھتے ہیں تو ہیڈ لائن بن جاتی ہے، حالانکہ ہمارے ریمارکس ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کے لیے سوالات ہوتے ہیں۔ اگر یہ پوچھ لیں کہ کیا فلاں شخص اہل ہے؟ تو یہ کیا پارلیمنٹ کی توہین ہے؟ کیا ہم نے پارلیمان کی تضحیک کی ہے؟ کیا سوال پوچھنا کسی پارلیمنٹیرین کی توہین ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ وضاحت نہیں دے رہا نہ وضاحت دینے کا پابند ہوں، ہم وضاحت کو اپنی کمزوری نہیں بنانا چاہتے۔ ہم قطعاً نہیں گھبرائیں گے بلکہ آئین اور قانون نے جو طاقت دی ہے، نیک نیتی سے اس کا استعمال کریں گے۔ آئینی اور قانونی اختیار کا بھرپور استعمال کریں گے۔

The post پارلیمنٹ بنیادی حقوق سے متصادم قانون نہیں بنا سکتی، چیف جسٹس appeared first on جیو اردو.

سابق جنوبی افریقی بلے باز ہرشل گبز کویت کرکٹ ٹیم کے کوچ مقرر

$
0
0
Kuwait Cricket Association

Kuwait Cricket Association

کویت (محمد عرفان شفیق) معروف سابق جنوبی افریقی بلے باز ہرشل گبز کویت کرکٹ ٹیم کے کوچ مقرر کر دیے گئے جسکا باضابطہ اعلان کویت کرکٹ ایسوسی ایشن کے سالانہ اجلاس میں کیا گیا۔

ہرشل گبزکویت کرکٹ ایسوسی ایشن کی خصوصی دعوت پر جمعہ کو کویت پہنچے ہیں اور کویت کرکٹ ٹیم کے ساتھ اپنی کوچنگ کی ذمہ داریاں سنبھال لیں ہیں۔

سابق بلے باز کویت کرکٹ ٹیم کے ساتھ دو ماہ تک منسلک رہیں گے جس میں آئی سی سی T-20 ورلڈ کپ کوالیفائرز کی تیاریاں کی جائیں گی۔ا ٓئی سی سی T-20 ورلڈ کپ کوالیفائرز کا انعقاد اپریل کے مہینے میں ہو گا۔

The post سابق جنوبی افریقی بلے باز ہرشل گبز کویت کرکٹ ٹیم کے کوچ مقرر appeared first on جیو اردو.

بابا رحمتا آپ کہاں ہیں

$
0
0
Five Thousand Notes

Five Thousand Notes

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
بانیٔ پاکستان کی تصویر کی بے حرمتی ہو چکی بلکہ وہ زمین پر گری اور چھینا جھپٹی میں ریزہ ریزہ ہو گئی پانچ ہزار کا نوٹ کوئی تو لے اڑا اور کسی کے ہاتھ میں اس کا ایک ٹکڑا آیا اور دوسرا زمین پر گرااور پائوں تلے روندا گیا سیالکوٹ میں ایک شادی پر گذشتہ دنوں نودولتیے سود خور سرمایہ دار نے پانچ ہزار کے نوٹ برات اور عوام پر پھینک ڈالے ان نوٹوں کو حاصل کرنے کے لیے لوگ آپس میں الجھ پڑے حتیٰ کہ کئی گاڑیوں کے شیشے تک ٹوٹ گئے اور دیگر نقصان تک بھی ہوا۔ ہوا میں اڑتے نوٹوں کو حاصل کرنے کے لیے باراتی و دیگر افراد ایکدوسرے پر پل پڑے کئی کے کپڑے پھٹے اور کئی زمین پر گر کر زخمی بھی ہوئے راقم نے رحیم یار خان کی ایسی ہی ایک شادی پر مکان کی چھت سے ہزاروں کے نوٹ اڑانے پر “کوڑے مارو اور جائداد قرق کرو”کے نام سے ایک کالم لکھا تھا کہ ایسے سود خور نودولتیوں بدکردار پلید وڈیروں یا پھر انگریز کے پروردہ ظالم جاگیرداروں کی اولادوں کو ایسی مذموم حرکات کو اگر فوراً نہ روکا گیا تو ایسے مزید واقعات رونما ہوتے رہیں گے مقامی تھانہ نے “مک مکا” کرکے اس مغرور نودولتیے کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا تھا۔

سابقہ شادی میں تو/1000 500 کے نوٹ پھینکے گئے تھے اور یہ عمل مسلسل 6منٹ تک جاری رہا تھا وہاں نوٹ اکٹھے کرنے پرچھینا جھپٹی ہوئی ۔لوگ گتھم گتھا ہو ئے اور کپڑے پھٹنے کے علاوہ کچھ کو زخم بھی آئے تھے ہمارے آقائے نامدار ختم المرسلین ۖ کے دور میں شادی بیاہ پر ایسا کوئی واقعہ نظر نہیں آتا شادی پر بھاری رقوم کا ضیاع نہیں ہو تا تھا دور خلافت میں تو خلیفہ پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنے ہوتے تھے مگر رعب دبدبہ ایسا کہ کفار اور اسلام دشمن افراد کی بات کرتے ہوئے ہچکی بندھ جاتی تھی لکھوکھا ایکڑ زمینوں پر ان کی حکمرانی قائم تھی غیر مسلم تک ان کی حکمرانی سے مطمئن تھے مگر آج نچلے پسے ہوئے طبقات کے غریب افراد تو دو وقت کی روٹی حاصل نہیں کر پار ہے ۔ 70فیصد سے زائد پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور محض ہیں ہر ماہ اکا دکاانتہائی افسوسناک واقعات رونما ہو جاتے ہیں کہ فلاں شخص خود سوزی کرکے خود کشی کر گیا اور فلاں بمعہ بال بچوں اور بیوی کے دریایا کسی بڑی نہر میں چھلانگ لگا کر خود بھی ڈوب مرا اور اپنے بیوی بچے بھی ڈبو ڈالے بابا رحمتا صاحب !ویسے تو عوامی مفاد کے مسائل پر آپ ازخود نوٹس لیتے ہیں مگر اس واقعہ پر جس میں حکومتی کرنسی کی یوں بے عزتی کی گئی کہ نوٹ تک زمین پر گرے اور کچھ پھٹے ہوئے کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں اور گندی نالیوں میں جا گرے قائد اعظم کی فوٹو کا بدترین حشر ہوا قائد پاکستان کی تصویر کی بے۔

حرمتی ،دہشت گردی سے کیا کم عمل ہے؟اب نیب والے بھی چپ سادھ لیں کہ وہ شریفوں کے مقدمات میں مصروف ہیں بابا رحمتا صاحب آپ اس کا لازماً نوٹس لیں ایسے انہونے واقعہ پر قانون لازماً حرکت میں آنا چاہیے ویسے بھی کوئی ذی شعور شخص حلال کمائیوں کو اڑا اور خاک میں نہیں ملا سکتا یہ تو واضح طور پر حرام مال کی کمائیوں کے کمال ہیں بیرونی قرضوں نے عوام کی کمر دوہری کرڈالی ہے مہنگائی کاطوفان بد تمیزی آسمانوں سے باتیں کر رہا ہے غربت اور بیروزگاری کے عفریت علیحدہ ڈس رہے ہیں ان حالات میں ایسے پاگل نودولتیے خواہ وہ صنعت کار یا علاقہ کا وڈیرہ جاگیردار ہی کیوں نہ ہو نتھ نہ ڈالی گئی تو اس طرح کے مزید واقعات ہوتے رہیں گے ہم تو بیرونی قرضوں کی قسط دینے کے بھی قابل نہ ہیں اور پیرس میں امریکی سامراج و ظالم یہودی نصرانی اورہندو مہاشوں کا اجتماع ہم پر معاشی پابندیاں لگانے پر تلا بیٹھا ہے سابقہ لیے گئے ڈھیروں قرضوںسے موجودہ حکمرانوں کے اللے تللے جاری ہیں ان رقوم پر نصف سے زائد تو فراڈ فضول اور ناپسندیدہ سکیموں پر خرچ ہو جانے کے بہانے کسی نہ کسی بیرونی ملک میں موجود “لیک” کے اند ر جمع ہو رہے ہونگے۔

دوسری طرف ہماری معیشت کا بھانڈا سرراہ پھوٹتا نظر آرہا ہے اغیار نے چاروں طرف سے ہمیں گھیرے میں لے رکھا ہے اگر ان حالات میں بھی ہم ایسے حرام کمائی والے نو دولتیوں کے خلاف ایکشن نہ لے سکیں تو یہ پاکستان کے آئین سے غداری کہلائے گی ہماری تو جوان بہنیں بیٹیاں سرمایہ کی کمی کی وجہ سے َان بیاہی سفید بال کیے گھروں میں بیٹھی پیا کو سدھار جانے کو ترس رہی ہیں ایسے واقعات ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیںویسے تو ” مال ِحرام بود بجائے حرام رفت “کے مصداق حرام خوروں نے ناجائز طریقے سے مال اکٹھا کیا ہو تا ہے وہ اسی طرح حرام طریقوں سے ہی چلا جاتا ہے مگر قائد اعظم کی تصویر کی بے حرمتی تو لازماً سرمایہ دارانہ ذہنیت کی دہشت گردی کے زمرہ میںآتی ہے ایسے شخص کی منقولہ و غیر منقولہ ساری جائدادضبط کرکے اسے قرار واقعی سزا دی جائے ۔NIP THE EVIL IN THE BUD برائی کو ابتدا ہی میں دفن کردو ابھی وقت ہے اس کو عبرتناک سزا دے ڈالو وگرنہ کوئی منچلا سرمایہ دار اس سے بڑھ کر کوئی غلیظ حرکت لازماً کرے گاکیا فرماتے ہیں جید علمائے کرام اور مفتیان عظام بیچ اس مسئلہ کے ؟کھلی جگہ پر کسی چوراہے پر لٹکانا ہی اس کی کم ازکم سزا ہے وگرنہ بابا رحمتا!یہ سب کہانیاں ہیں۔

Dr Mian Ihsan Bari

Dr Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری

The post بابا رحمتا آپ کہاں ہیں appeared first on جیو اردو.

کیوں نکالا

$
0
0
Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور
آسیب زدہ پاکستان کے آسیب کو جلا کر راکھ بنانے یا بھگانے کی بجائے فقط کمزور کرنے کی کوشش میں مزید طاقتور بنا دیا ہے۔ وزیراعظم ہائوس سے نکلنے کے بعد ہر طرف کیوں نکالا کی صدائیں گونج رہی ہیں۔آج کے کالم میں ایک خیالی کہانی پیش کر کے موجودہ حالات کی منظر کشی کرنے کی کوشش کی جائے گی۔کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک خاتون کسی عامل باوا کے پاس حاضر ہوکربولی۔بابا جی ہم بہت پریشان ہیں۔ بہت سے عالموں، بزرگوں اور تعویز کرنے والوں کو اپنے گھر بلوا کر اْسے بھگانے کی کوشش کر چکے ہیں۔ وہ آسیب کسی کے قابومیں نہیں آتا۔ہم بڑی آس لیکر آپ کے پاس آئے ہیں۔ساری جمع پونجی مکان خریدنے میں خرچ ہوگئی اب تو بڑی مشکل سے گھر کے اخراجات چل رہے ہیں اور اْوپر سے اس آسیب نے جینا مشکل کر رکھا ہے۔ کبھی کسی بچے کو پریشان کردیتا ہے اور کبھی مجھے آوازیں دے کر پوچھتا ہے میرا کام کیوں نہیں کیا ؟میں نے تمہیں کام کہا تھا کیا بنا اس کا؟ بابا جی ایک بات میں آپ کو بتا دوں وہ آسیب ہمیں تو صرف آوازیں دے کر پریشان کرتا ہے پر اسے بھگانے کی کوشش کرنے والے اب تک کے تمام عالم زخمی حالت میں گھر سے رخصت ہوئے ہیں۔ بابا جی: بچہ پریشان مت ہوہم اس آسیب کو دیکھ لیں گے۔

بابا جی ہمارے پاس اب آپ کو دینے کیلئے پیسے بھی نہیں ہیں۔ بابا:سخت ناراضگی کے عالم میں، میں نے تم سے پیسے مانگے ہیں؟ نہیں بابا جی پر سب پیسے لیتے ہیں۔ بابا: نہیں بچہ ہم پیسے نہیں لیتے۔جب توفیق ہواللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرنا پڑے گا آپ کو ،جب جیب اجازت دے تب کردینا۔ٹھیک ہے بابا جی آپ اس آسیب کا کچھ کردیں۔ ہم عمر بھر آپ کو دعائیں دیں گے۔بابا ،خاتون کے ہمراہ اْس کے آسیب زدہ گھر پہنچے اور آسیب کو اپنی زبان میں طلب کیا جس پر آسیب حاضر ہوگیا۔بابا جی نے آسیب کو اپنی شکل دیکھانے کا کہا پر آسیب نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا بابا جی میں اللہ والوں کی بہت عزت کرتا ہوں پھربھی کوئی مجھے پریشان کرے تو پھر اس کی خیر نہیں لہٰذ آپ کیلئے بہتر یہی ہے کہ آپ مجھے تنگ نہ کریں۔میں یہاں سے کہیں نہیں جانے والا اور نہ کوئی مجھے مجبور کرسکتا ہے۔ با باجی نے کچھ عمل کیا اور ایک بار پھر آسیب کو مخاطب کرتے ہوئے بولے تم جو کوئی بھی ہو ،جس مذہب اور عقیدے سے تعلق رکھتے ہو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اب تمہیں یہاں سے جانا ہوگا۔آسیب: میں نے پہلے کہہ دیا ہے کہ میں یہاں سے جانے والا نہیں۔ آپ نے مجھے مزید پریشان کرنے کی کوشش کی تو پھر اپنی حالت کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے ،چنانچہ بہتر یہی ہے کہ آپ یہاں سے چلے جائیں ،میں نے پہلے کبھی کسی عامل کی اتنی عزت نہیں کی جتنی آپ کی کر رہا ہوں یقین نہ آئے تو گھر والوں سے پوچھ لو۔بابا جی:ٹھیک میں تمہیں پریشان نہیں کرتا پرتم یہ تو بتائو کے تم کون ہو؟کیا کرتے ہواور یہاں کب سے رہتے ہو ؟آسیب :زور دارقہقہہ لگاتے ہوئے بابا جی ساڈیاں تفتیشاں کروگے توسیں؟ بابا:نہیں میں تفتیش نہیں کررہا، ہوسکتا ہے تمہارے تعارف کے بعد ہمارے درمیان کوئی سمجھوتہ ہو جائے۔

آسیب ایک بار پھر زور سے ہنسا اور کہنے لگا بابا جی آپ بس اتناجان لیں کہ میں 20سال تک پنجاب پولیس میں بطور انسپکٹر نوکری کرچکا ہوں۔ اب آپ نے میری مزید تفتیش کی تو پھر آپ جانتے ہیں پنجاب پولیس کس طرح دھوتی ہے۔ بابا:مسکراتے ہوئے ٹھیک ہے میں تمہاری تفتیش نہیں کرتا۔ میری تمہاری ملاقات رہے گی اور اْمیدہے ہم مل کرکوئی حل نکال لیں گے۔یہ کہہ کر باباجی مسکراتے ہوئے کمرے سے باہر نکل آئے۔گھر والے جو اب تک پریشان بیٹھے تھے نے بابا جی کو سہی حالت میں مسکراتے ہوئے دیکھا تو سمجھے کہ انہوں نے آسیب کو قابو کرلیا ہوگا۔ خاتون نے بابا جی سے سوال کیا، کیا ہوا بابا جی آسیب چلا گیا ہمارے گھر سے ؟بابا،نہیں بچہ جلدی ہی چلا جائے گا۔ بابا: 8 دن بعد دوبارہ آنے کا کہہ کر چلا گیا۔ 8 دن بعد بابا اپنے وعدے کے مطابق پہنچ گیا اور آسیب کو طلب کرنے کیلئے گھر کے اسی کمرے میں داخل ہو کر دروازہ اندر سے بند کر لیا۔ آسیب حاضر ہوا تو بابا نے اسے اپنی شکل میں ظاہر ہونے کو کہا اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ میں بھی ریٹائرڈ پٹواری ہوں اس لئے مجھے اْمید ہے کہ آج ہمارے درمیان سودا ہوجائے گا اگر آفر پسند نہ آئے تو کوئی بات نہیں ہم کوئی اور حل نکال لیں گے۔

آسیب: پٹواری،،،، تو پہلے کیوں نہیں بتایا، آپ کا حکم سر آنکھوں پر، آپ تو جانتے ہیں ہم پولیس والے کچھ دیتے نہیں اور پٹواری بھی ہمارے طرح کچھ لئے بغیر کوئی کام نہیں کرتے پھر ہمارے درمیان سودا کس طرح ممکن ہوگا؟ بابا: درست کہا تم نے ۔سودا صرف لینے کانام نہیں بلکہ کچھ لینے اور کچھ دینے کا معاملہ ہوتا ہے اس لئے تم مجھے یہ چار مرلے کا گھر خالی کر دو میں تمہیں اس کے بدلے پرسکون علاقے میں دو 2 کنال کا بہترین گھر دینے کے لئے تیار ہوں پر یہ بات بتانا ضروری ہے کہ وہ گھر جس زمین پر تعمیر کیا گیا ہے وہ سینٹرل گورنمٹ کی ہے۔آسیب: پٹواری صاحب آپ تو پولیس والوں سے بھی 2 ہاتھ آگے کی سوچتے ہو، اس گھر سے میری کچھ یادیں وابستہ ہیں میں یہ گھر نہیں چھوڑ سکتا۔بابا :کوئی بات نہیں ہم تمہاری ہر چیز محفوظ طریقے سے وہاں شفٹ کردیں گے اور ساتھ ہی تمہاری ضرورت کی مزید چیزیں بھی مہیا کردیں گے۔

آسیب:ٹھیک ہے پر پہلے آپ یہ بتائو اتنی ضد کیوں کررہے ہو اور چار مرلے کے گھر کے بدلے 2کنال کا گھر کیوں دے رہے ہو؟بابا ،کیا بتائوں سالے کی سفارش ہے ان لوگوں کی اور تم تو جانتے ہوکہ اک طرف ساری خْدائی ایک طرف جوروکا بھائی۔اس جملے کیساتھ ہی آسیب نے زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے بابا جی کی بات مان لی اور گھر چھوڑنے پر رضامند ہوگیا۔بابا ،یہ تو بتائو تم نے مجھ سے پہلے آنیوالے عاملوں کو کیوں مارا ؟آسیب:دْکھی انداز میں، عامل ،،،،،،،،،پٹواری صاحب سارے جھوٹے بابے ہیں کوئی کچھ عمل کرتا ہے اور نہ ہی کسی کے پاس علم ہے سب کے سب جاہل ،ٹھگ ملے اس گھر والوں کو۔ٹھیک ہے میں پولیس والا ہوں پھربھی دکھ ہوتا ہے مجھے جب کوئی اللہ کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے۔

خیر پٹواری صاحب آپ یہ بتائیں کہ آپ بابے کیوں بن گئے ؟بابا :ساری زندگی گناہ میں گزارنے کے بعد ایک اللہ والے کی نسبت نصیب ہوئی جس نے مجھے جینا سکھا دیا اور میں نے انسانیت کی خدمت کیلئے باقی زندگی وقف کردی بس جو کوئی اپنی تکلیف لے کر آتا ہے اللہ تعالیٰ سے دعا کے ساتھ ساتھ کچھ جیب سے خرچ کرنے پر بھی بات بن جائے تب بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتا ہوں۔ آسیب فکر مندی کے عالم میں پٹواری صاحب میں تو مر چکا ہوں اب کس طرح اپنے گناہوں کی معافی طلب کروں ؟بابا :اللہ تعالیٰ غفورو رحیم ہے اْس کے خزانے بھرے پڑے ہیں رحمت سے ،یہ جو تم مرنے کے بعد بھی انسانوں کو پریشان کررہے ہواللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے چھوڑ دو ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ تمہیں معاف فرما دے۔یوں پٹواری باباجی نے آسیب زدہ گھر سے تگڑے آسیب کونکالا اور آسیب نے ایک باربھی نہیں کہامجھے کیوں نکالا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے میرے وطن عزیز کو بھی ایسا کوئی پٹواری عطا ہوجویہاں کے بگڑے نظام کو نظام عدل میں بدل دے اورپھرکوئی یہ نہ کہے مجھے کیوں نکالا، مجھے انصاف نہیں ملا،احتساب کے نام پرانتقام لیا جا رہا ہے۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور
imtiazali470@gmail.com.
03134237099

The post کیوں نکالا appeared first on جیو اردو.

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کے حالات زندگی

$
0
0
Hazrat Sultan Bahu

Hazrat Sultan Bahu

تحریر : حافظ کریم اللہ چشتی پائی خیل
برصغیر پاک و ہند میں اسلام تلوار سے نہیں بلکہ اولیاء اللہ کے کردار و گفتار سے پھیلا ہے۔ اولیاء کرام کی کاوشوں کی وجہ سے اسلام کو فروغ ملا پاکستان کے قیام میں اکابرین اہلسنت نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ برصغیر پاک وہندمیں اولیاء کرام نے اسلام کی جو خدمت کی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں یہ ایک مسلمہ حقیقت اور تاریخ گواہ ہے کہ برصغیر پاک وہندکی آبادی کو اسلام کی دولت اولیائے کرام کی پرامن تبلیغی مساعی بدولت نصیب ہوئی انہی کے باطنی تصرفات نے اس خطہ پرمسلمانوں کوحکمرانی کے مواقع فراہم کئے۔توپھرمانناپڑے گاکہ برصغیرپاک وہندمیں اشاعت اسلام کاحقیقی سہرااولیاء کرام کے سر ہے۔جوسرزمین پاک وہندپرآفتاب عالم کی طرح طلوع ہوئے۔

اولیاء کرام رحمتہ اللہ علیہ نے ہردورمیں پیغام حق عام کیااوربھٹکی ہوئی انسانیت کوحق کی راہ دکھائی۔پاکستان کوپوری دنیامیں اسلام کاقلعۂ کہاجاتاہے جو ایک مسلمہ حقیقت ہے اسی کی وجہ اس سرزمین پربزرگان ملت اولیاء کرام کی تشریف آوری ہے جنہوں نے شبانہ روزدین متین کی تبلیغ کرکے پاکستان کوقلعہ اسلام بنادیااسی وجہ سے یہاں کے لوگ بزرگان ِ دین اولیاء کرام رحمة اللہ علیہ کی تعلیمات اوران کے نقش قدم پرعمل پیراہیں ۔مسلمانان پاکستان کے دلوں میں اسلام پرمرمٹنے کاشوق شہادت اورجذبہ جہادزیادہ پایاجاتاہے ۔پنجاب کوپاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت سے تسلیم کیاجاتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ یہ سرزمین بزرگان دین اولیاء کرام رحمة اللہ علیہ کاہمیشہ مرکزرہی ہے ۔یہاں لوگ مغربی طرزِ تعلیم کے بجائے اولیاء کرام رحمة اللہ علیہ کی تعلیمات پرعمل پیراہیں ۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیںتاجدارختم نبوت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ظاہری زندگی کے بعداسلام کی تبلیغ وترویج کابیڑاامت مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم،علماء اوراولیاء کرام رحمة اللہ علیہ نے اٹھایا۔خلفاء راشدین سے لیکرموجودہ دورتک اسلام کی خدمات میں صلحاء امت کاکردارنمایاں ہے۔ان پاکیزہ نفوس نے دین ِ اسلام کے فروغ کی خاطرلازوال قربانیاں پیش کیں ۔دین مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوبلندیوں تک پہنچایا۔بلکہ ہردورکے محدثین ،مبلغین ،اتقیائ،اولیاء ومشائخ عظام نے کفرکے خلاف سینہ سپرہوکربقائے اسلام کی جنگ لڑی تاریخی قربانیاں دیکردین مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عَلَّمْ (جھنڈا)کوبلندفرمایا۔الحمدللہ !آج بھی اسلام کی خوشبودنیامیں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے ۔جس کی وجہ سے یہودوہنوددیگرطاغوتی قوتیںدین اسلام کی مقبولیت دیکھ کر بوکھلاہٹ کاشکارہیں ۔اسلام کے خلاف طرح طرح کی سازشوں میں مصروف ہیں ۔ان کی ناپاک سازشوں کوخاک میں ملانے کے لئے بزرگان دین یہ جنگ لڑرہے ہیں ۔آج جس عظیم ہستی کامیں تذکرہ کرنے جارہاہوں ۔اسے عالم ِ اسلام میں ”سلطان العارفین ،شمس السالکین سلطان باہورحمة اللہ علیہ ”کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

ایمان سلامت ہرکوئی منگے عشق سلامت کوئی ہو
ایمان منگن شرماون عشقوں دل نوں غیرت ہوئی ہو

ہرایک ایمان کی سلامتی چاہتاہے۔لیکن عشق کی سلامتی چاہنے والاکوئی کوئی ہوتاہے۔ایمان چاہتے ہیں مگرعشق سے کتراتے ہیں۔یہ دیکھ کرہمارے دلوں میں غیرت بھڑک اٹھتی ہے۔
سلطان العارفین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کا تعلق سلسلہ سروری قادری سے ہے۔ سلسلہ قادری کا آغازقطب ربانی ،شہبازلامکانی پیرانِ پیرحضورغوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة اللہ علیہ سے ہوا اور اس کی دو شاخیں سروری قادری اور زاہدی قادری ہیں۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہو رحمة اللہ علیہ کا سلسلہ ”سروری قادری” ہے ۔سلطان العارفین سخی سلطان باہواسی اعلیٰ ترین پائے کے مرشدکامل اکمل ہیں۔آپ رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

ہرکہ طالب حق بودمن حاضرم زاابتداء تاانتہایکدم برم
طالب بیاطالب بیاطالب بیا تارسانم روزاوّل باخدا

ترجمہ:ہروہ شخص جوحق تعالیٰ کاطالب ہے۔میں اس کے لئے حاضرہوں۔میں اسے ابتداء سے انتہاتک فوراًپہنچادیتاہوں۔اے طالب آ،اے طالب آ،اے طالب آ،تاکہ میں پہلے ہی دن تجھے اللہ تعالیٰ تک پہنچا دوں۔

آپ رحمة اللہ علیہ کااسمِ گرامی ”سلطان باہو”ہے ۔آپ رحمة اللہ علیہ کے والدماجدکانام ”حضرت بازیدمحمدرحمة اللہ علیہ”جبکہ والدہ ماجدہ کانام ”حضرت بی بی راستی رحمة اللہ علیہا”ہے۔آپ اعوان قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اعوانوں کا شجرہ نسب حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے جا ملتا ہے۔ اعوان حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کی غیر فاطمی اولاد ہیں۔صوفیائے کرام رحمة اللہ علیہ میں آپ” سلطان العارفین،شمس السالکین ”کے لقب سے معروف ہیں ۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہو رحمة اللہ علیہ کی ولادت باسعادت بروزپیرماہ رمضان المبارک ١٠٣٩ھجری میں موضع اعوان(شورکوٹ،ضلع جھنگ،پنجاب) پاکستان میں ہوئی۔(باہوعین یاہوص١٠٧بتغیر)

آپ رحمة اللہ علیہ کاشجرہ نسب یوں ہے۔حضرت سلطان باہوبن بازیدمحمدبن حضرت فتح محمدبن حضرت اللہ دتہ بن حضرت محمدتمیم بن حضرت محمدمنان بن حضرت موغلا بن حضرت محمدپیدابن حضرت محمدسگھرابن حضرت محمدنون بن حضرت سُلا بن حضرت محمدبہاری بن حضرت محمدجیون بن حضرت محمدبن ہرگن بن حضرت نورشاہ بن حضرت امیرشاہ بن حضرت قطب شاہ (تذکرہ اولیائے پاکستان ١٧٧)

سلطان العارفین،شمس السالکین سیدسخی حضرت سلطان باہو رحمة اللہ علیہ کی پیدائش سے قبل ہی آپ کی والدہ ماجدہ” بی بی راستی ”کو ان کے اعلیٰ مرتبہ کی اطلاع دے دی گئی تھی ۔آپ رحمة اللہ علیہ کی پیدائش سے قبل آپ کی والدہ ماجدہ کوالہام ہوچکاتھاکہ ان کے شکم (پیٹ)میں ایک اللہ کاپیارا”ولی” پرورش پارہاہے ۔اس بات کی تصدیق آپ رحمة اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ خودکرتی ہیں ”مجھے غیب سے یہ بتایاگیاہے کہ میرے پیٹ میں جولڑکاہے وہ پیدائشی” ولی اللہ” اورتارک الدنیاہوگا۔(مناقب سلطانی،ص٢٦)آپ رحمة اللہ علیہ کے مرتبہ فنا فی ھُو کے مطابق ان کا اسمِ گرامی ”باھْو ”الہاماً بتا دیا گیاتھا جیسا کہ سلطان العارفین،برہان الواصلین سید سخی حضرت سلطان باہورحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں،

نام باہومادر باہو نہاد زانکہ باہودائمی باہو نہاد

ترجمہ:باہوکی ماں نے نام باہورکھا کیونکہ باہوہمیشہ ”ہو ”کے ساتھ رہا۔

آپ رحمة اللہ علیہ نے ابتدائی باطنی و روحانی تعلیم و تربیت اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل کی۔ کیونکہ آپ رحمة اللہ علیہ ابھی کم سن ہی تھے کہ والدماجد”حضرت بازیدمحمدرحمة اللہ علیہ ”کاوصال ہوگیاتھا۔اس لئے آپ رحمة اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ”بی بی راستی رحمة اللہ علیہا” نے آپ کی تعلیم وتربیت بحسن خوب فرمائی۔

سلطان العارفین سیدسخی حضرت سلطان باہو کے والد” بازید محمدرحمة اللہ علیہ” دہلی میں مغلیہ حکومت میں ممتاز عہدے پر فائز تھے۔ آپ ایک صالح، شریعت کے پابند، حافظِ قرآن فقیہ شخص تھے۔آپ رحمة اللہ علیہ نے ”بی بی راستی رحمة اللہ علیہا”سے عقد(نکاح) کیا۔سلطان العارفین سیدحضرت سخی سلطان باہورحمة اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ” بی بی راستی رحمة اللہ علیہا”عارفہ کاملہ تھیں اور پاکیزگی اور پارسائی میں اپنے خاندان میں معروف تھیں۔وادی سون سکیسرضلع خوشاب کے گائوں ”انگہ”کی ایک پہاڑی کے دامن میں چشمے کے کنارے عبادت وریاضت کیاکرتی تھیں۔ایک ”اللہ کی پیاری ولیہ ”کی نشانی کے طورپروہ جگہ آج بھی معروف ومحفوظ ہے۔(ابیات سلطان باہو،ص١)

سلطان العارفین ،شمس السالکین حضرت سیدسخی سلطان باہو پیدائشی ولی تھے۔ اوائل عمری میں ہی آپ وارداتِ غیبی اور فتوحاتِ لاریبی میں مستغرق رہاکرتے تھے۔آپ رحمة اللہ علیہ کی پیشانی نورِ حق سے اس قدر منور تھی کی اگر کوئی کافر آپکے مبارک چہرے پر نظر ڈالتا تو فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاتاتھا۔جب سلطان العارفین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کی نظرولایت سے جوق درجوق غیرمسلموں نے کلمہ پڑھناشروع کیاتوغیرمسلموں میں کھلبلی مچ گئی۔چنانچہ وہ سب” حضرت بازیدمحمدرحمة اللہ علیہ” کی خدمت میں حاضرہوکرآپ کے صاحبزادے” حضرت سلطان باہورحمة اللہ علیہ” کی شکایت کرنے لگے ۔آپ کے والدماجدنے ان سے کہاکہ میرابیٹاتوعمرمیں ابھی چھوٹاہے۔یہ توکسی پرہاتھ اٹھانے کے قابل بھی نہیں ہے ۔انہی میں سے ایک شخص عرض کرنے لگا۔اے بازیدمحمد !اگرتیرابیٹاہم پرہاتھ اُٹھالیتاتوزیادہ اچھاتھا۔آپ کے والدماجدان سے کہنے لگے پھربتائومیرے بیٹے کاقصورکیاہے؟توان غیرمسلموںکاسربراہ کہنے لگاکہ تیرے بیٹے کاقصوریہ ہے کہ جسے نظربھرکردیکھتاہے وہ مسلمان ہوجاتاہے۔۔اس کی وجہ سے شورکوٹ کے لوگوں کاآبائی مذہب خطرے میں پڑگیاہے۔آپ رحمة اللہ علیہ کے والدماجدکافی دیرتک سوچتے رہے۔

بعدازا ں سربراہ نے کہاکہ آپ سے ایک گزارش ہے کہ” دایہ” آپ کے بیٹے کوبے وقت بازارمت لے جایاکرے بلکہ آپ ان کی سیرکے لئے ایک وقت مقررکردیں۔آپ رحمة اللہ علیہ کے والدماجدنے ”دایہ”کوسختی سے ہدایت کردی کہ وہ ایک مقرروقت پر”سلطان باہو”کوبازارلے جایاکریں۔غیرمسلموں نے چندنوکررکھ لئے کہ جب ”سلطان باہو”اپنے گھرسے نکلیںتوگلی ،کوچے،بازاروں میں ان کی آمدکی اطلاع دی جائے لہذاجب نوکریہ خبردیتے توغیرمسلم اپنی اپنی دکانوں اورمکانوں میں چھپ جاتے تھے۔(مناقب سلطانی ،ص٢٧)

نگاہ ولی میں یہ تاثیردیکھی بدلتی ہزاروں کی تقدیردیکھی

سلطان العارفین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ ایک کشف اپنی کتب میں بیان فرماتے ہیں کہ بچپن میں ایک دن سڑک کے کنارے دیدارِ الٰہی میں مستغرق شورکوٹ کے نواح میں گھوم رہاتھا کہ اچانک ایک بارعب ، صاحبِ حشمت سوار،نورانی صورت والے بزرگ گھوڑے پرسوارہوکر نمودار ہوئے جنہوں نے میراہاتھ پکڑکر اپنے قریب کیا اورگھوڑے پربیٹھالیا۔سلطان باہورحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں”میں نے ڈرتے ہوئے اورکانپتے ہوئے پوچھا”آپ کون ہیں؟توانہوں نے مجھے آگاہ کیا کہ میں علی ابنِ ابو طالب کرم اللہ وجہہ الکریم ہوں۔میں نے پھرعرض کیامجھے کہاں لے جارہے ہو؟توانہوں نے فرمایا کہ آج تم تاجدارختم نبوت ،سرکارمدینہ،سرورقلب وسینہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دربار میں طلب کیے گئے ہو۔ پھر ایک لمحے میں نے اپنے آپ کو تاجدارختم نبوت نبی اکرم رسول محتشم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں پایا۔ سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں اسوقت خلیفة المسلمین سیدناحضرت ابوبکر صدیق ،خلیفہ المسلمین سیدناحضرت عمرفاروق اعظم ، خلیفة المسلمین سیدناحضرت عثمان غنی ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور تمام اہلِ بیت کرام علہیم الرضوان جلوہ فرماتھے۔مجھے دیکھتے ہی سرکارمدینہ ،سرورقلب وسینہ تاجدارختم نبوت، نبی اکرم رسول محتشم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے دونوں دستِ مبارک میری طرف بڑھا کر فرمایا میرے ہاتھ پکڑو اور مجھے دونوں ہاتھوں سے بیعت فرمایا۔اورکلمہ طیبہ کی تلقین فرمائی ۔سلطان العارفین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب میں نے کلمہ طیبہ پڑھاتودرجات ومقامات کاکوئی حجاب باقی نہ رہا۔اس کے بعدسیدناحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میری طرف توجہ فرمائی ۔جس کی وجہ سے میرے وجودمیں” صدق وصفا”پیداہوگئی۔اس کے بعدسیدناحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ مجلس سے چلے گئے۔پھرسیدناحضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میری طرف توجہ فرمائی جس سے میرے وجودمیں ”عدل ومحاسبہ نفسی” پیداہوگیا۔یہاں تک کہ امیرالمومنین سیدناحضرت عمرفاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجلس سے چلے گئے۔

اس کے بعدخلیفة المسلمین سیدناحضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میری جانب توجہ فرمائی ۔جس کی وجہ سے میرے اندر”حیااورسخاوت” کانورپیداہوگیا۔بعدازاں خلیفة المسلمین سیدناحضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے میری جانب توجہ فرمائی ۔جس کی وجہ سے میرا جسم” علم ،شجاعت اورحلم”سے بھرگیا۔پھرسرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میراہاتھ پکڑکرخاتون جنت سیدتناحضرت فاطمة الزہراسلام اللہ علیہاکے پاس لے گئے۔توحضرت فاطمة الزہراسلام اللہ علیہانے فرمایا”تم میرے فرزندہو”۔پھرمیں نے حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہماکے قدمین شریفین کابوسہ لیااوران کی غلامی کاپٹااپنے گلے میں پہن لیا۔بعدازاںسرکارمدینہ ،تاجدارختم نبوت آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے پیران پیر غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی الحسنی والحسینی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد فرمایا۔سلطان العارفین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب فقر کے شاہسوار نے مجھ پر کرم کی نگاہ ڈالی تو ازل سے ابد تک کا تمام راستہ میں نے طے کر لیا۔(باہوعین یاہو،ص١١١تا١١٣)

بعدازاںشیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم پرسلطان العارفین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ نے دہلی میں سیدالسادت حضرت پیرسیدعبدالرحمن جیلانی دہلوی کے ہاتھ پر ظاہری بیعت کی اور ایک ہی ملاقات میں فقر کی وراثت کی صورت میں اپنا ازلی نصیبہ ان سے حاصل کر لیا۔(ابیات سلطان باہو٢)

سلطان العارفین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کی زندگی کابیشترحصہ دنیاکی سیروسیاحت ”سیروفی الارض”میں گزرا ۔آپ رحمة اللہ علیہ زیادہ ترملتان،ڈیرہ غازی خان،چولستان،ڈیرہ اسماعیل خان،وادی سون سکیسرضلع خوشاب وغیرہ کے علاقوں میں سفرکرکے مخلوق خدامیں وعظ ونصیحت اورحکمت ومعرفت عام کرکے متلاشیان حق کوحق کی راہ دکھاتے رہے۔

سلطان العارفین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ نے چارشادیاں کیں ۔جن سے آٹھ بیٹے اورایک بیٹی پیداہوئی۔سب سے چھوٹے صاحبزادے سلطان حیات محمدنے بچپن میں انتقال فرمایا۔آپ کے دیگرصاحبزادوں کے نام حسب ذیل ہیں۔سلطان نورمحمد،سلطان ولی محمد،سلطان لطیف محمد،سلطان صالح محمد،سلطان اسحاق محمد،سلطان فتح محمد،سلطان شریف محمدجبکہ خلفاء میں حضرت سیدموسیٰ شاہ گیلانی المعروف حضرت مومن شاہ سندھ،حضرت ملامعانی میسوی سبی بلوچستان،حضرت سلطان نورنگ کھیتران بہاولپور،حضرت سلطان حمیدضلع بھکر،حضرت سلطان ولی محمداحمدپورشرقیہ ضلع بہاولپورکے نام سرفہرست ہیں۔(تذکرہ اولیائے پاکستان١٨٦،١٨٥،تذکرہ اولیائے پاک وہند)

ایک مرتبہ ایک خاندانی رئیس مفلس (تنگدست )ہوگیا۔اس نے مقامی بزرگ سے اپنی حالت زاربیان کی ۔کہ مجھے مفلسی وتنگدستی کی وجہ سے اکثرفاقوں نے گھیررکھاہے۔دروازے پراکثرقرض خواہوں کاہجوم رہتاہے۔مفلسی کی وجہ سے بچیوں کی شادیاں اوردیگرضروریات کی ادائیگی مشکل ہوگئی ہے۔سمجھ میں نہیں آتاکہ ا ب میں کیاکروں ،جائوں توکس کے پاس جائوں۔مقامی بزرگ نے کہاکہ دریائے چناب کے کنارے شورکوٹ جائووہاں پرسلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہوسے اپنی حالت بیان کرنا۔امیدکی کرن لیکردوستوں کی ہمراہ وہ شخص سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہورحمة اللہ علیہ کی بارگاہ میں سوالی بن کرحاضرہوا۔آپ رحمة اللہ علیہ اسوقت کھیتوں میں ہل چلارہے تھے ۔جب اس شخص نے آپ رحمة اللہ علیہ کوہل چلاتے دیکھاتوسخت مایوس ہوا۔اورسوچنے لگاجوآدمی خودمفلسی کاشکارہواورکھیتوں میں ہل چلاکراپنی گزربسرکرتاہو۔وہ میری کیسے مددکرے گا۔اسی مایوسی کے عالم میں واپس جانے لگا۔جونہی پلٹاتوکسی نے اس کانام لیکرپکارا۔وہ حیران ہوگیاکہ میں اجنبی آدمی ہوں پھرمیرانام پکارنے والاکون ہے۔پیچھے پلٹ کردیکھاتوآپ رحمة اللہ علیہ اس سائل کوبلارہے تھے۔جب اس نے یہ ماجرادیکھاتودوبارہ امیدکی کرن لیکرسلطان العارفین سلطان باہورحمة اللہ علیہ کی بارگاہ میں باادب حاضرہوگیا۔آپ رحمة اللہ علیہ نے فرمایا” کیابات ہے؟تم اتنے دورسے چل کر تکالیف اٹھاتے ہوئے ہمارے پاس پہنچے ہواوربغیرملاقات کیے واپس جانے لگے ہو۔جب سائل نے یہ بات سنی توفوراًآپ رحمة اللہ علیہ کے اورزیادہ قریب ہوگیا۔اوراپنی خستہ حالی کی داستان سنائی۔سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہورحمة اللہ علیہ نے اسوقت مٹی کاڈھیلااُٹھایااورزمین پردے مارا،ڈھیلے کازمین پرلگناہی تھاکہ کھیت میں پڑے تمام پتھراورڈھیلے سونابن گئے۔سلطان العارفین نے اس شخص سے فرمایا۔اے سائل ! آپ کی مرضی ہے جتنادل کرے سونالے جائو۔چونکہ وہ توسوالی بن کردوستوں کے ہمراہ آیاتھااس سے بڑھ کراسے کیاخوشی ہوتی کہ دلی مرادپوری ہوگئی۔وہ شخص دوستوں کے ہمراہ اپنے گھوڑوں پروافرمقدارمیں سونالادا۔ سلطان العارفین حضرت سلطان باہوکی اس کرم نوازی پرشکریہ اداکرتے ہوئے کامیاب وکامران واپس گھروں کولوٹ گئے۔(تذکرہ اولیائے پاک وہند، ٣١٦،٣١٧،مناقب سلطانی٦٨)

آپ رحمة اللہ علیہ نے علم تصوف پرڈیرھ صدکے قریب کتابیں بزبان فارسی چھوڑی ہیں۔مجموعہ ابیات پنجابی بھی آپ رحمة اللہ علیہ کی یادگارہیں۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کی جن کتب کاپتاچل سکاوہ حسب ذیل ہیں۔

عین الفقر،گنج الاسرار،کلیدالتوحیدکبیر،کلیدالتوحیدصغیر،نورالہدٰی ،محبت الاسرار،شمس العارفین،اورنگ شاہی،اسرارقادری،توفیق ا لہدایت،مجالسة النبی،تیغ برہنہ،رسالہ روحی،قرب دیدار،کلیدجنت،محک الفقرکبیر،محک الفقرصغیر،مفتاح العاشقین،کشف الاسرار،امیرالکونین،جامع الاسرار،عین الجنات،قطب الاقطاب،محکم الفقراء حجة الاسرار،دیوان باہو،ابیان باہو،،عقل بیدارکبیر،عقل بیدارصغیر،مجموع الفضل،فضل اللقائ،رسالہ روحی اورنگ شاہی،دیوان اردو،دیوان فارسی،دیوان پنجابی شامل ہیں۔
سلطان العارفین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ نے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیرکے عہدمیں یکم جمادی الاخری(جمادی الثانی)١١٠٢ھجری شب جمعہ تاجدارختم نبوت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت میں تریسٹھ سال کی عمرمیں داعی اجل کولبیک کہتے ہوئے سفرآخرت فرمایا۔آپ رحمة اللہ علیہ کاپہلامزاردریائے چناب کے مغربی کنارے پرواقع قلعہ قہرگان سے کچھ فاصلے پرتھا۔جس کے چاروں جانب پختہ دیواریں تھیں۔١١٧٩ہجری میں دریائے چناب میں طغیانی آئی قریب تھاکہ پانی مزارمبارک تک پہنچ جاتاآپ رحمة اللہ علیہ نے خواب میں اپنے سجادہ نشین کوحکم فرمایاکہ مجھے کہیں اورمنتقل کردیں ۔اگلے دن مریدوں نے آپ رحمة اللہ علیہ کے جسم کومنتقل کرنے کے لئے زمین کھودناشروع کی ۔مگرجسم مبارک نہ مل سکا۔مریدبڑے پریشان ہوئے اگلی رات پھرسجادہ نشین سے فرمایاکل صبح ایک نقاب پوش بزرگ سبزلباس میں آئیں گے اورقبرکی نشاندہی کردینگے ۔اگلے دن ایک نقاب پوش بزرگ سبزلباس پہنے ہوئے تشریف لائے اورقبرمبارک کی نشاندہی کی۔ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں جب سلطان العارفین حضرت سلطان باہورحمة اللہ علیہ کاجسم باہرنکالاگیاتوسب نے دیکھاکہ آپ کاجسم وکفن صحیح سلامت ہے۔کئی میل تک فضامعطراورخوشبوآنے لگی۔ریش مبارک (داڑھی )سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے ۔یوں محسوس ہورہاتھاجیسے ابھی سوئے ہوں۔

زمین میلی نہیں ہوتی زمن میلا نہیں ہوتا محمدصلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم کے غلاموں کا کفن میلا نہیں ہوتا

اس کے بعد١٣٣٦ہجری بمطابق 1918عیسوی میں دریائے چناب میں سیلاب آیاجس کی وجہ سے تیسری مرتبہ آپ رحمة اللہ علیہ کے جسم مبارک کومنتقل کرناپڑااسوقت بھی آپ رحمة اللہ علیہ کاجسم وکفن صحیح سلامت تھا۔(مناقب سلطانی ،ص١٧٧)

سلطان العارفین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کے مزارمبارک کی دہلیزپرسدرة (بیری )کادرخت تھا۔جس کی وجہ سے زیارت کرنیوالوں کوپریشانی کاسامناکرناپڑتاتھا۔مگربطورادب اسے نہ کاٹاجاتا۔ایک دن ایک نابیناشخص مزارپرحاضرہواتوان کی پیشانی درخت سے ٹکراکرزخمی ہوئی۔جس کی وجہ سے پیشانی مبارک سے خون بہنے لگا۔خادمین نے انہیں تسلی دی علاج معالجہ کرایااوراگلے دن درخت کٹوانے کاارادہ کیا۔تاکہ آنے والے زائرین کوکسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔سلطان العارفین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کے ایک خلیفہ محمدصدیق بھی اس مشورے میں شریک تھے۔جب رات ہوئی توخواب میں ”حضرت سلطان باہورحمة اللہ علیہ”کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔آپ رحمة اللہ علیہ فرمارہے تھے ۔اے محمدصدیق!ہمارے بیری کے درخت کوکیوں کاٹتے ہو؟وہ خودیہاں سے دورچلاجائے گا۔جب صبح دیکھاگیاتوواقعی وہ درخت اپنی جگہ سے دس پندرہ ہاتھ کے فاصلے پرکھڑاتھا۔(مناقب سلطانی ،ص٢١٩)

یہ شان ہے خدمت گاروں کی سردار کا عالم کیا ہو گا۔

سلطان العارفین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ ایک مرتبہ شاہراہ پرلیٹے ہوئے تھے ۔وہاں سے غیرمسلموں کاایک گروہ گزرا۔ان میں سے ایک نے بطورِحقارت آپ رحمة اللہ علیہ کوٹھوکرماری اورکہاہمیں راستہ بتائو۔سلطان العارفین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ نے اُٹھتے ہی فرمایا”لااِلٰہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ”آپ رحمة اللہ علیہ کی زبان سے کلمہ طیبہ جاری ہوناتھاکہ غیرمسلموں کاپوراگروہ کلمہ پڑھ کرمسلمان ہوگیا۔ سلطان العارفین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کامزارمبارک قصبہ دربارِ سلطان باہو نزد گڑھ مہاراجہ تحصیل شور کوٹ ،جھنگ ،پاکستان میں مرجع خواص و عام ہے۔

Hafiz Kareem Ullah Chishti Pai Khel

Hafiz Kareem Ullah Chishti Pai Khel

تحریر : حافظ کریم اللہ چشتی پائی خیل
، 03336828540

The post سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کے حالات زندگی appeared first on جیو اردو.


بلدیہ کورنگی کا عوامی تعاون کے ذریعے سرسبز ماحول کو فروغ دینے کا اعلان

$
0
0
DMC Korangi Karachi

DMC Korangi Karachi

کراچی : چیئرمین بلدیہ کورنگی سیدنیئر رضا کی ہدایت پر بلدیہ کورنگی جہاں علاقائی ترقی اور عوام کو بلدیاتی مسائل سے نجات دلا نے کے لئے اپنے اقدامات کو تیز کردیا وہیں آلودگی کے خاتمے اور صحت مند ماحول کے قیام کے لئے عوامی تعاون کے ذریعے سرسبز ماحول کو فروغ دینے کے لئے بھی کوشاں ہے چیئر مین بلدیہ کورنگی سیدنیئر رضا نے محکمہ پارکس کو ہدایت کی ہے ضلع کورنگی کی حدود میںگرین بیلٹس اور شاہراہوں کی سنٹرل آئی لینڈ کو سرسبز بنا نے کے لئے فوری اقدامات بروئے کار لائے جائیں تمام فیملی پارکوں اور کھیل کے میدانوں کو سرسبز بنا نے کے ساتھ علاقائی سطح پر سرسبز ماحول کا قیام عوامی تعاون کے ذریعے یقینی بنایا جائے اس حوالے سے سرسبز ماحول کی آفادیت سے عوامی آگہی مہم چلا ئی جائے عوام کے تعاون سے پودے اور درخت لگا ئے جائیں اور اس کی آبیاری و حفاظت کے لئے بھی انتظامات کئے جائیں ان خیالات کا اظہار چیئر مین بلدیہ کورنگی سیدنیئر رضا نے یونین کمیٹیز کے منتخب نمائندوں اور بلدیاتی افسران کے ہمراہ مختلف علاقوں کا دورہ کرکے علاقائی سطح پر بلدیہ کورنگی کے تحت جاری ترقیاتی کاموں اور بلدیاتی انتظامات کا معائنہ کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر چیئر مین سیدنیئر رضا نے بلدیہ کورنگی کے تمام محکموں کے سربراہان کو ہدایت کی کہ وہ عوام کو مسائل سے نجات دلا نے کے لئے اپنی تمام تر محکمانہ کاوشوں کو بروئے کار لائیں اور علاقائی ترقیاتی امور کو معیاری اور وقت مقرری پر تکمیل کو یقینی بنا ئیںاس موقع پر چیئرمین سیدنیئر رضا نے مختلف علاقوں میں عوام اور علاقہ نوجوانوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ بلدیہ کورنگی لاتعداد مسائل کو حل کرنے کے لئے کوشاں ہے علاقائی سطح پر مسائل کا خاتمہ ہمارے لئے چیلنج ہے مگر ہم اپنے یونین کمیٹیز کے نمائندوں اور افسران کی ٹیم کے ہمراہ اس چیلنج کو پورا کرنے کے لئے میدان عمل میں ہیں انشا اللہ علاقائی ترقی اور مسائل سے چھٹکارہ دلا نے کا عزم پورا کرینگے انہوں نے نوجوانوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ مسائل کا بتدریج خاتمے کے بعد کھیلوں کے میدانوں اور فیملی پارکوں کی تعمیر و مرمت کرکے ضلع کورنگی میں مثالی معاشرے کا قیام عمل میں لائیں گے ضلع کورنگی میں کھیلوں کے مقابلوں اور تفریحی سرگرمیوں کا بھی انعقاد کیا جائیگا۔

پبلک ریلیشن آفیسر ۔ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کورنگی کراچی

The post بلدیہ کورنگی کا عوامی تعاون کے ذریعے سرسبز ماحول کو فروغ دینے کا اعلان appeared first on جیو اردو.

شہری علاقہ کی گلیاں نالیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار، سیوریج کا نظام ناکارہ ہونے کی وجہ سے مکینوں کی پریشانی میں اضافہ

$
0
0
Sewerage System

Sewerage System

وزیرآباد (نامہ نگار) شہری علاقہ کی گلیاں نالیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار، سیوریج کا نظام ناکارہ ہونے کی وجہ سے مکینوں کی پریشانی میں اضافہ۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف اور دیگر ارباب اختیارسے صورتحال کا نوٹس لینے کا مطالبہ۔ شہر کے پوش علاقہ چیمہ کالونی گلی نمبر6کے مکینوں نے بتایا کہ ایک عرصہ سے ان کے علاقہ کو ترقیاتی کاموں کے حوالے سے نظر انداز کیا جارہا ہے ،مقامی سیاسی قیادت نے علاقہ مکینوں سے کبھی حال پوچھنا بھی گوارہ نہیں کیا ۔ انہوں نے بتایا کہ گلیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کی وجہ سے انہیں آمدورفت میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے سیوریج کے ناقص نظام کی وجہ سے معمولی بارش کے بعد گلی گٹروں اور نالیوں کے پانی سے بھر جاتی ہے جس سے علاقہ مکین گھروں میںمحصور ہوکررہ جاتی ہے دوسری طرف سوئی گیس کی پائپ لائن نہ بچھائی جانے کی وجہ سے شہریوں کو گھر کا چولہا گرم رکھنے پر اضافی اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ اہل علاقہ نے وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف سے صورتحال کا نوٹس لیکر اصلاح احوال کا مطالبہ کیا ہے۔

وزیرآباد(نامہ نگار)محکمہ انہار کی غفلت سے راجباہوں اور نہروں کو بااثر اافراد نے گندے نالوں میں تبدیل کردیا وزیرآباد کے مختلف نواحی دیہاتوں میں ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی کو سیراب کرنے والی نہروں راجباہ دھونکل، جنڈیالہ،مردیکے وغیرہ میں بااثر افراد نے فیکٹریوں،میرج ہالز،پرائیویٹ ہسپتالوں اور رہائشی کالونیوں کا گندا پانی ڈالنا شروع کررکھا ہے خطرناک کیمیکلز ملاپانی اور فضلہ نہری پانی میں شامل ہو کر کھیتوں میں چلا جاتا ہے جہاں کاشت ہونے والی فصلیں انسانی صحت کیلئے لاعلاج بیماریاں پھیلانے کا باعث بنتی ہیں۔ محکمہ انہار کی غفلت کا عالم یہ ہے کہ سخت نہری قوانین کی موجودگی میں بھی قانون شکن افراد کے خلاف کاروائی کرنا گوارہ نہیں کیا جاتا۔ عوامی حلقوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے عملہ کی ملی بھگت سے راجباہوں اور نہروں کو کرایہ کی سیوریج لائنوںمیں تبدیل کردیا گیاہے ۔ شہریوں نے ارباب بست وکشاد سے ذمہ دارعناصر کیخلاف فی الفور کاروائی اور نہری پانی کو سیوریج کے گندے پانی سے پاک رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔

The post شہری علاقہ کی گلیاں نالیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار، سیوریج کا نظام ناکارہ ہونے کی وجہ سے مکینوں کی پریشانی میں اضافہ appeared first on جیو اردو.

عبدالغفار قیصرانی ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر جہلم کی ہدایت جہلم پولیس کی جرائم پیشہ افراد کے خلاف بھرپور کاروائیاں

$
0
0
Sarai Alamgir

Sarai Alamgir

سرائے عالمگیر (ڈاکٹر تصور حسین مرزا) جہلم پولیس نے منشیات ۔فروشوں کے خلاف کاروائی
کرتے ہوئے 2 افراد کو گرفتار کر کے انکے قبضہ سے 1940 گرام چرس برآمد کر کے مقدمات درج کرلئے۔منشیات فروشی پر مقدمات درج  1)تھانہ دینہ کے نذر محمد ایس آئی نے دوران گشت و پڑتال منشیات ملزم محمد عاصم عرف صوفی ولد رضا حسین قوم جٹ سکنہ پنڈ جاٹہ سے 1600گرام چرس برآمدکر کے مقدمہ درج کر لیا۔

2)تھانہ جلالپور شریف کے محمد سجاداے ایس آئی نے دوران گشت و پڑتال منشیات ملزم حیدر نواز ولد اللہ یار قوم وڈانہ سکنہ محلہ ہیراں جلالپور شریف سے 340گرام چرس برآمدکر کے مقدمہ درج کر لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبدالغفار قیصرانی ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر جہلم کی علاقہ تھانہ ڈومیلی میں کھلی کچہری
جہلم ( ڈاکٹر عمران جاوید + ڈاکٹر تصور حسین مرزا )مورخہ 22.02.2018بوقت 3:00بجیدن ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر جہلم جناب عبدالغفار قیصرانی صاحب کی جانب سے علاقہ تھانہ ڈومیلی بمقام یونین کونسل کوہالی موضع دیال میں کھلی کچہری کاانعقاد کیا جائے گا۔جس میں عوام الناس کی شکایات سنی جائیں گی اور انکا موقع پر تدارک کیا جائے گا۔عام عوام کو مطلع کیا جاتا ہے کہ وہ کھلی کچہری میں شرکت کر کے اپنے مسائل بیان کر سکتے ہیں۔جن کے متعلق موقع پر احکامات جاری کئے جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

The post عبدالغفار قیصرانی ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر جہلم کی ہدایت جہلم پولیس کی جرائم پیشہ افراد کے خلاف بھرپور کاروائیاں appeared first on جیو اردو.

عرب ریاست ابوظہبی میں پہلا بت خانہ

$
0
0
Hindu temple in Abu Dhabi

Hindu temple in Abu Dhabi

تحریر : میر افسر امان
اللہ بھلا کرے فیس بک دوستوں کا کہ وہ اکثر معلومات فراہم کرتے رہتے ہیں۔مجھے چند دن پہلے فیس بک پر کسی دوست کی ایک پوسٹ ملی جس نے یہ مضمون لکھنے پر آمادہ کیا۔پوسٹ کی ایک طرف بھارت کا ایک متشد ہندو ایک بزرگ مسلمان پر تشدد کر رہا ہے۔مسلمان پر تشدد کرتے ہوئے اسے کہہ رہا ہے۔ بول جے سری رام۔ بول جے سری رام۔مسلمان جے سری رام کہنے سے انکار کر رہا ہے۔ مسلمان ہندو کے تشدد کی وجہ سے نڈھال ہو گیا۔ بار بار کہہ رہاہے مجھے نہ مار۔ مجھے نہ مار۔ متشدد ہندو ہے کہ اسے مارے ہی جا رہا ہے۔مار کھاتے کھاتے اس کی آواز بیٹھ گئی۔ نحیف آواز میں بزرگ مسلمان کے منہ سے فریاد نکل رہی ہے۔ اے پروردیگار۔ اے پروردیگار۔اللہ گواہ ہے یہ پوسٹ دیکھ کر میرے آنسو جاری ہو گئے۔ اس ظلم بھری ویڈیو کی دوسرے طرف کی پوسٹ دیکھی۔ ایک عرب ریاست ابو ذہبی میں ہندوئوں کے پہلے مندر کا افتتاع ہو رہا ہے۔مندر کی دیواروں پر ہر طرف پر درجنوں بت نظر آ رہے ہیں۔ اس موقع پر ہندو پنڈت زعفرانی لباس زیب تن کیے ہوئے ہیں۔

ابوذہبی کے حکمرانوں میں سے کچھ لوگ عرب کا روائتی سفید لباس زیب تن کیے ہندو پنڈتوں کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ابو ذہبی کے حکمران جے سری رام۔ جے سری رام کے ہندوئوں کے مشرکانہ مذہبی نعرے لگا رہے ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ ایک طرف غریب مسلمان جو بھارت میں اقلیت بھی ہے،ہندوانہ سوسائٹی کے اندر مجبور بھی ہے۔اپنے ایمان پر پہاڑ کی طرح گھڑا ہے۔ دوسری طرف آزاد خود مختیار ریاست کے دولت مند ابو ذہبی کے حکمران ہیں کہ جے سری رام۔جے سری رام کے نعرے لگا رہے ہیں۔ یا اللہ مسلمانوں نے ایسے دن بھی دیکھنے تھے؟ایک ہندو کے تشد کرنے پر بھی جے سری رام کا نعرہ نہیں لگا رہا۔ کسی اسلام دوست مسلمان نے یہ دونوں ویڈیو ایک ساتھ برابر میں پوسٹ کیں تاکہ ہم مسلمان خود اندازہ کریں کہ ہم پستی کی کون سی منزل پر پہنچ گئے ہیں۔ ان دونوں ویڈیو کو دیکھے آج تین دن ہو گئے ہیں۔ اس پرکچھ لکھنے پر دل نہیں چاہ رہا تھا۔ مگر بلا آخرمسلمانوں کی آگاہی کے قلم اُٹھایا ہے۔

صاحبو! پہلے عرب میں بتوں کی پوجا پر بات کرتے ہیں۔ آخر میں تجزیہ کریں گے کہ کس بات پر ابوذہبی کے حکمران اپنی مسلمان توحیدی ریاست میں پہلا بتوں سے بھرا مندر بنانے پر رضا مند ہوئے ہیں۔کیا ان عربوں کو کوئی مالی امداد چاہیے ؟کیا ان کے پاس دولت کی کمی ہے؟یا کوئی انجانا ڈر ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ بتوں سے نفرت کرنے والے عربوں کے ملک میں بتوں سے بھرا مندر بن گیا ہے۔

رسول ۖاللہ کے دور میں خانہ کعبہ کے اندر ٣٦٠ بت رکھے ہوئے تھے۔اللہ کے رسولۖ نے فتح مکہ کے بعد ایک ایک کر سارے بتوں کو توڑ دیاتھا۔ عرب ایک اللہ کو مانتے تھے۔ جب اللہ کے حکم پر عرب کے مشرکوں کو کہا جاتا کہ یہ زمین آسمان کس نے بنائی ہے۔ تو وہ کہتے تھے اللہ نے بنائی ہیں۔ رسول ۖ اللہ مشرکوں سے کہتے تھے تو پھر بتوں کی پوجا کیوں کرتے ہو۔ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ مشرکوں کا جواب ہوتا تھا کہ یہ بت ہمارے سفارشی ہیں۔بت ہماری فریادوں کو اللہ تک پہنچانے کا وسیلہ ہیں۔ یہی بات بھارت کے بت پرست ہندو بھی کہتے ہیں۔قرآن کہتا کہ اللہ انسان کے دل کے قریب ہے ۔ اللہ انسانوں کی فریادیں سنتا ہے۔ اللہ اپنے مومن بندوں کی جائز دعائوں کو قبول بھی کرتا ہے۔ قرآن جہاں تک کہتا کہ اللہ شرک کے سوا سارے گناہ معاف کر دے گا۔ قرآن شریف میں ہے کہ ”اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھرایا اُس نے تو بہت ہی بڑا جھوٹ تصنیف کیا اور بڑے سخت گناہ کی بات کی”(النسائ٤٨) شرک کے معنی یہ ہیں کہ کسی دوسرے کو سمیع و بصیر، علم الغیب ، مختار،قادر و متصرف اور الوہیت کے دوسرے اوصاف سے مُتّصِف قرار دے اور اس بات کا انکار کرے کہ اکیلا اللہ ہی ان صفات کا مالک ہے۔

Hindu temple in Abu Dhabi

Hindu temple in Abu Dhabi

اللہ کے حقوق میں دوسروں کو شریک کرناشرک ہے ۔صفات الہی اور حقوق اللہ میں دوسروں کو شریک کرنا شرک ہے۔ اللہ کے سوا کسی اور سے دُعا مانگنا اور اللہ کے سوادوسرں کو مدد کے لیے پکارنا شرک ہے۔ کسی کو اللہ کی اولاد قرار دینا شرک ہے ۔اللہ کے سوا کسی کو ولی بنانا بھی شرک ہے۔شرک محض جھوٹ اور ظلم عظیم ہے۔شرک اللہ کی ناشکری ہے۔اللہ شرک سے پاک ہے۔ مشرکین کو دین حق کا قیام ناگوارگزرتاہے۔ مشرکین بدترین خلائق ہیں۔۔شرک انسان کی فطرت کے خلاف ہے اللہ نے انسان کو سلیم فطرت پر پیدا کیا ہے لہذا شرک سے بچنا چاہیے۔ شرک کے حق میں کوئی دلیل و سند نہیںیہ صرف جہالت کی پیدا وار ہے۔شرک بہت بڑا جھوٹ ہے۔ساری کائنات توحید کی گواہی دے رہی ہے کہ اللہ حق ہے پھر یہ شرک کہاں سے آگیا۔شرک کی بنیاد اوہام پر ہے بے تکی باتوں اور لایعنی باتوں پر شرک کی بنیاد ہے۔ اللہ چائے توسب کچھ بخش دے مگر شرک کی اللہ کے ہاں بخشش نہیںہے۔۔قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم نوح میں جب شرک شروع ہواتو اُس نے مصنوعی معبود بنا لیے تھے اور انہیں پوجنا شروع کر دیا۔ بعد میں اہل عرب نے بھی ان ہی معبودوں کو پُوجنا شروع کردیاتھا اور آغاز اسلام کے وقت عرب میں جگہ جگہ اُن کے مندر بنے ہوئے تھے اُن معبودوں کے نام یہ ہیں ۔وَدّ بنی کلب کا معبود تھا۔اس کا استھان دومةالجندل میںبنا رکھا تھا۔بت ایک نہایت عظیم الجثہ مرد کی شکل کا بنا ہوا تھا۔

سُواع قبیلہ ہذیل کی دیو یٰ تھی اس کا بت عورت کی شکل کا بنایا گیا تھا ۔رُہات کے مقام پر اس کا مندر واقع تھا۔ ےَغُوث قبیلہ طے کی شاخ انعُم اور قبیلہ مذحج کی بعض شاخوں کا معبود تھا انہوں نے یمن اور حجاز کے درمیان ضرش کے مقام پر اس کا بت نصب کر رکھا تھا اس کی شکل شیر کی تھی ۔ یعُوق قبیلہ خیون کا معبود تھا۔یہ گھوڑے کی شکل کا تھا۔نَسرہ قبیلہ ذوا لکلاع کا معبود تھا ۔ بلغع کے مقام پر اس کا بت نصب تھا اِس کی شکل گِدھ جیسی تھی۔ سِعریٰ عرب کے معبودوںکا نام تھا۔ عزّیٰ عزت سے ہے اور اس کے معنی عزّت والی کے ہیں یہ قریش کی خاص دیوی تھی ۔اس کا اُستھان مکّہ اور طائف کے درمیان وادی نخِلہ میں حُراض کے مقام پر واقع تھا۔ مناة کا اُستھان مکّہ اور مدینہ کے درمیان بحرِاحمر کے کنارے قُدَید کے مقام پر تھا ۔خاص طور پر خُزَاعہ،اُوس اور خزرَ کے لوگ اس کے بہت معتقد تھے۔ لات کا اُستھان طائف میں تھا بنی ثقیف اس کے معتقد تھے۔ان دیویوں کو کافر وں نے اللہ کی بیٹیاں قرار دے دیا تھااور یہ بیہودہ عقیدہ ایجاد کر لیا تھا۔مکہ، طائف،مدینہ اورنواحی حجاز کے سب لوگ سب سے زیادہ پوجتے تھے۔ ہندوئوں نے بھی دولت کی دیوی بنائی ہوئی ہے۔کیا ہندوئوں مشرکوں اوراورزمانہ اسلام سے پہلے کے عرب کے مشرکوں میں کوئی فرق ہے۔ مسند احمد میں رفاعہ جہنی کی جو روایت آئی ہے اُس کے الفاظ یہ ہیں ۔ جو بندہ صدقِ دِل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اس بات کی گواہی دے میں اللہ کا رسول ۖ ہوں پھرسیدھے راستے پر چلے تو وہ جنتّ میں داخل ہو گا ۔ترمذی کی ایک اور راویت ہے ۔جو بندہ کلمہ توحید پڑھے اور پھر گناہ کبیرہ سے دور رہے تو وہ جنت میں جائے گا۔ یہ رواتیںبڑی اہمیت رکھتی ہیں محض زبان سے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں کہہ دینے سے جنّت کی ضمانت نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ رسول ۖاللہ کی بتائی ہوئی سیدھی راہ پر چلنا اور گنا کبیرہ کے قریب نہ پھٹکنا دخول جنّت کے لیے ضروری ہے۔ہم نے قرآن اور حدیث کی روشنی میں بتوں کی تاریخ ان کوپوجنے اور ان سے نجات کی بات نکل کی۔ اب نہ جانے عرب کی ایک ریاست میں پہلی دفعہ بتوں سے بھرا مندر بنانے کی اجازت کیوں دی گئی۔

کیا خدا ناخاستہ عرب بت پرست ہو گئے ہیں۔کیا عربوں کو بھارت کے ہندوئوں یا بت پرست ملک سے کوئی مالی امداد چاہیے۔ہمارے نزدیک یہ دونوں باتیں نہیں ہیں۔ نہ بت پرست ہیں نہ بھارت کی مالی امداد چاہتے ہیں۔ان کے ہاں تو بھارتی محنت مزدروی کرنے کے لیے آتے ہیں۔ابو ذہبی کو بھارت سے کوئی مالی امداد نہیں چاہیے۔یہ صرف خوف کی وجہ ہے۔یہ بات نظر آتی ہے کہ بھارت نے امریکا کے ذریعے ایران کی بڑھتی ہوئی جارحیت سے ڈرایا ہو گا۔اور کہا ہو گا کہ دیکھوں یمن کی لڑائی میں پاکستان نے سعودی کی کوئی مدد کی۔تمھاری حفاظت بھارت کرے گا۔ ان حالت کا پاکستان کو بغور جائزہ لینا چاہیے۔پاکستان جو اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت ہے۔اس کو عربوں کو یقین دھانی کرانی چاہیے کہ ان کی طرف کوئی بھی انگلی اُٹھا کر دیکھے گا تو پاکستان ان کی حفاظت کرے گا۔ چائے وہ ایرن کی جارحیت ہی کیوں نہ ہو۔ویسے بھی اسلام کا اصول ہے کہ مسلمانوں میں لڑئی کی شکل میں پہلے دونوں میں صلح کرائی جائے۔ اگر دونوں فریق صلح پر راضی نہ ہوں تو زیادتی کرنے والے کے خلاف مظلوم کی جنگ سے مدد کی جائے تاکہ مسلمانوں میں امن قائم ہو جائے۔ دوسری طرف عربوں کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہے کہ بت پرست ہندوئوںکے عزاہم کیا ہیں۔ وہ تو جہاں تک کہتے ہیں کہ خانہ کعبہ میں ہمارے بت رکھے ہوئے تھے۔جنہیں مسلمانوں کے آخری پیغمبرۖ نے توڑا تھا ۔ہم دوبارہ عر ب پر قبضہ کر کے خانہ کعبہ میں اپنے بت رکھیں گے۔کیا ابو ذہبی میں پہلا مندر بنا کر اس کی شروعات تو نہیںکر دیں ہیں؟ اس لیے عرب کے مسلمانوں ہوشیار ہو جائو۔مسلمانوں کو چاہیے کہ آپس میں تقویٰ کی بنیاد پر اکٹھے ہونے کی کوشش کریں گے۔ مسلمان ملکوں کی اپنی اقوام متحدہ بنائیں۔ ایک دوسرے کے مسائل خود حل کریں۔ دنیا سے برابری کے تحت تعلوقات قائم کریں۔ بقول مصور پاکستان اورشاعر اسلام حضرت علامہ شیخ محمد اقبال:۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے۔
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کا شغر۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان

The post عرب ریاست ابوظہبی میں پہلا بت خانہ appeared first on جیو اردو.

عدلیہ کا بڑا پن ہے نا اہل لوگوں کی بیان بازی برداشت کر رہی ہے: چوہدری شجاعت

$
0
0
Chaudhry Shujaat

Chaudhry Shujaat

لاہور (جیوڈیسک) مسلم لیگ قائد اعظم کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ نااہل افراد اپنی حد میں رہیں، عدلیہ کا بڑا پن ہے کہ نا اہلوں کی بیان بازی برداشت کر رہی ہے۔

چوہدری شجاعت حسین کا کہنا تھا کہ عدلیہ کو کمزور اور تنقید کا نشانہ بنانے والے احمقوں کی دنیا میں رہتے ہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ نواز شریف کی خواہش پر جاتی عمرہ کے تحصیلدار کو سپریم کورٹ کا عہدہ دیدیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ نااہل ہونے والی لیگی قیادت کو شاید یہ معلوم نہیں کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے آئین کے ڈھانچے سے متصادم فیصلے کو رد کر سکتی ہے، قوم عدلیہ کے خلاف ان کی کسی مہم کو برداشت نہیں کرے گی۔

The post عدلیہ کا بڑا پن ہے نا اہل لوگوں کی بیان بازی برداشت کر رہی ہے: چوہدری شجاعت appeared first on جیو اردو.

Viewing all 6004 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>